किया अप भी अपने न्यूज़ पेपर की वेब साईट बनाना चाहते है या फिर न्यूज़ पोर्टल बनाना चहाते है तो कॉल करें 9860450452 / 9028982166 /9595154683

غالب کی شاعری نے تشکیک پسندی کوتقویت بخشی

ڈاکٹرمحمدسعیداللہ ندوی

مرزا اسداللہ بیگ خان غالب اردو زبان وادب کے ایک عبقری شاعرہی نہیں بلکہ ایک ایسی عوامی شخصیت بھی تھے جن تک عام رسائی لوگوں کیلئے کبھی دشوار نہیں رہی۔ برصغیر اور دنیا بھر کی اردو بستیوں میں آج اردو کے عظیم شاعرمرزا اسد اللہ بیگ خان غالب کا 226 واں یوم پیدائش ہے۔اپنے عہد کو اپنی صدی کی پہچان بنانے والے غالب کی اس انفرادیت کی ایک بڑی وجہ یہ تھی کہ وہ زندگی کے حقائق اور انسانی نفسیات کو گہرائی میں جا کر سمجھتے تھے اور بڑی سادگی سے عام لوگوں کیلئے بیان کر دیتے تھے۔
غالب کو جس پرآشوب دور کا عینی شاہد بننا پڑا اس نے ان کی نظر میں گہرائی اور فکر میں وسعت پیدا کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔ غالب کی شاعری میں تشکیک پسندی کا پہلو بہت اہم ہے۔ جو بحیثیت مجموعی غالب کی شاعری کے رگ و پا میں سرایت کئے ہوئے ہے۔ اس کی ایک وجہ غالب کا فلسفیانہ مزاج بھی ہے۔ جبکہ دوسری وجہ وہ ماحول ہے جس میں غالب نے آنکھ کھولی، وہ ایک ہنگامی دور تھا۔ ایک طرف پرانی تہذیب وثقافت مٹ رہی تھی اور اس کی جگہ جدید تہذیب اور تعلیم اپنی جڑیں مضبوط کر رہی تھیں۔ یوں انتشار اور آویزش کے اس دور میں ان کی تشکیک پسندی کومزید تقویت ملی۔
مرزا اسد اللہ خان کا تخلص غالب ہے، 27 دسمبر 1797ء کو کالامحل آگرہ میں پیدا ہوئے۔آپ کے آباو اجداد میں قوقان بیگ سمرقند سے ہجرت کر کے مغل شہنشاہ احمد شاہ بہادر کے عہد حکومت 1748 یا1750 کے اوائل میں سلطنت مغلیہ میں آ کر آباد ہوئے۔ مرزا صاحب نے ابھی اپنی زندگی کی صرف پانچ بہاریں ہی دیکھی تھیں کہ والد کے سائے سے محروم ہو گئے اور مرزا صاحب کی سرپرستی آپ کے چچا نصراللہ بیگ خان نے کی۔ ابتدائی ماخذوں سے معلوم ہوتا ہے کہ غالب نے اپنی شاعری کا آغاز 1807 سے کردیا تھااور اولین تخلص اسد تھالیکن 1816 کے بعد آپ نے اپنا تخلص غالب اختیار کیا جو آخر تک باقی رہا غالب کی اولین خصوصیت طرفگی ادا اور جدت اسلوب بیان ہے لیکن طرفگی سے اپنے خیالات، جذبات یا موادکووہی شخص خوش نمائی اور خوش اسلوبی کے ساتھ پیش کر سکتا ہے جواپنے مواد کی ماہیت سے پوری آگاہی اور واقفیت رکھتا ہو۔میر کے دور میں شاعری عبارت تھی محض روحانی اور قلبی احساسات و جذبات کو بعینہ ادا کر دینے سے گویا شاعر خود مجبور تھا کہ اپنی تسکین روح کی خاطر روح اور قلب کا یہ بوجھ ہلکا کردے۔ ایک طرح کی سپردگی تھی جس میں شاعر کا کمال محض یہ رہ جاتا ہے کہ جذبے کی گہرائی اور روحانی تڑپ کو اپنے تمام اثر کے ساتھ ادا کر سکے۔ اس لیے بے حد حساس دل کا مالک ہونا اول شرط ہے اور شدت احساس کے وہ سپردگی اور بے چارگی نہیں ہے یہ شدت اور کرب کو محض بیان کر دینے سے روح کو ہلکا کرنا نہیں چاہتے بلکہ ان کا دماغ اس پر قابو پاجاتا ہے اور اپنے جذبات اور احساسات سے بلند ہوکر ان میں ایک لذت حاصل کرنا چاہتے ہیں یا یوں کہئے کہ تڑپ اٹھنے کے بعد پھر اپنے جذبات سے کھیل کر اپنی روح کے سکون کے لیے ایک فلسفیانہ بیحسی یا بے پروائی پیدا کر لیتے ہیں۔ اگر میر نے چر کے سہتے سہتے اپنی حالت یہ بنائی تھی کہ مزاجوں میں آس آگئی ہے ہمارے نہ مرنے کا غم ہے نہ جینے کی چاہت تو غالب اپنے دل و دماغ کو یوں تسکین دیتے ہیں کہ غالب کی شاعری میں غالب کے مزاج اور ان کے عقائد فکری کو بھی بہت دخل ہے طبیعتاً وہ آزاد مشرب مزاج پسند ہر حال میں خوش رہنے والے رندمنش تھے لیکن نگاہ صوفیوں کی رکھتے تھے۔ باوجود اس کے کہ زمانے نے جتنی چاہئے ان کی قدر نہ کی اور جس کا انہیں افسوس بھی تھا پھر بھی ان کے صوفیانہ اور فلسفیانہ طریق نظر نے انہیں ہر قسم کے ترددات سے بچالیا۔ غالب اپنی شدت احساس پر قابو پاسکے اور اسی واسطے طرفگی ادا کے فن میں کامیاب ہو سکے اور میر کی ایک رنگی کے مقابلے میں گلہائے رنگارنگ کھلا سکے۔ ’’لوح سے تمت‘‘تک سو صفحے ہیں لیکن کیا ہے جو یہاں حاضر نہیں کون سا نغمہ ہے جو اس زندگی کے تاروں میں بیدار یا خوابیدہ موجود ہیں۔ لیکن غالب کو اپنا فن پختہ کرنے اور اپنی راہ نکالنے میں کئی تجربات کرنے پڑے۔ اول اول تو بیدل کا رنگ اختیار کیا لیکن اس میں انہیں کامیابی نہ ہوئی۔ اسی طرح اردو زبان فارسی کی طرح دریا کو کوزے میں بند نہیں کرسکتی تھی مجبوراًانہیں اپنے جوش تخیل کو دیگر متاخرین شعرائے اردو اور فارسی کے ڈھنگ پرلانا پڑا۔ صائب کی تمثیل نگاری ان کے مذاق کے مطابق نہ ٹھہری میر کی سادگی انہیں راس نہ آئی آخر کار عرفی ونظیری کا ڈھنگ انہیں پسند آیا اس میں نہ بیدل جیسااخلاق تھا نہ میر کی سی سادگی۔اس لیے اس متوازن انداز میں ان کا اپنا رنگ نکھر سکا اور اب غیب سے خیال میں آتے ہوئے مضامین کو مناسب اور ہم آہنگ نشست میں غالب نے ایک ماہر فن کار کی طرح طرفہ دل کش اور مترنم انداز میں پیش کرنا شروع کردیا۔ عاشقانہ مضامین کے اظہار میں بھی غالب نے اپنا راستہ نیا نکالا شدت احساس نے ان کے تخیل کی باریک تر مضامین کی طرف رہنمائی کی۔گہرے واردات قلبیہ کا یہ پر لطف نفسیاتی تجزیہ اردو شاعری میں اس وقت تک (سوائے مومن کے )کسی نے نہیں برتا تھا۔ اس لیے لطیف احساسات رکھنے والے دل اور دماغوں کو اس میں یک طرفہ لذت نظر آئی۔ولی ،میر و سودا سے لے کراب تک دل کی وارداتیں سیدھی سادی طرح بیان ہوتی تھیں۔ غالب نے متاخرین شعرائے فارسی کی رہنمائی میں اس پرلطیف طریقے سے کام لے کر انہیں معاملات کو اس باریک بینی سے برتا کہ لذت کام ودہن کے نازتر پہلونکل آئے۔ غرض کہ ایسا بلند فکر گیرائی گہرائی رکھنے والا وسیع مشرب، جامع اور بلیغ رومانی شاعر ہندوستان کی شاید ہی کسی زبان کو نصیب ہوا ہو موضوع اور مطالب کے لحاظ سے الفاظ کا انتخاب (مثلا ًجوش کے موقع پر دفارسی کا استعمال اور دردوغم کے موقع پر میر کی سادگی کا )بندش اور طرز ادا کا لحاظ رکھنا غالب کا اپنا ایسا فن ہے جس پر وہ جتنا ناز کر یں کم ہے۔ جس پر چمنستان اردو صدیوں تک رشک کرتی رہے گی اورسدا اس کے مشک وعنبر سے عطر بیز ہوتی رہے گی۔

Shaikh Akram

Shaikh Akram S/O Shaikh Saleem Chief Editor aitebar news, Nanded (Maharashtra) Mob: 9028167307 Email: akram.ned@gmail.com

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے