किया अप भी अपने न्यूज़ पेपर की वेब साईट बनाना चाहते है या फिर न्यूज़ पोर्टल बनाना चहाते है तो कॉल करें 9860450452 / 9028982166 /9595154683

علم اور عمل

تحریر : مولانا میر ذاکر علی محمدی ،پربھنی
9881836729
بذریعہ ضلع نامہ نگار اعتبار نیوز محمد سرور شریف

ایک زمانہ تھا حصول علم کے لیے ہمارے اسلاف دور دراز کا سفر کرتے تھے اور اس زمانہ میں تیز رفتار سواری اور آمد و رفت کا کوئ معقول انتظام نہیں تھا۔ لیکن علم کی اہمیت اور اسکی افادیت کو مد نظر رکھتے ہوے۔ دور دورتک ایک حدیث کےحصو ل کے لیے طویل پیدل یا پھر اونٹ پر سفر طے کرتے تھے۔ اور علم پر عمل پیرا ہوا کرتے تھے۔ حصول علم کے ذرائع کم تھے۔ لیکن علم پر عمل پیرا ہونا ان کی رگ رگ میں بسا ہوا تھا۔ حضرت عبدالقادر جیلانی رح ایک پایہ کے ولی گذرے ہیں۔ جب وہ حصول علم کے لیے رخت سفر باندھاتو ان کی والدہ نے بطور خرچ ان کے آستینوں میں چالیس اشرفیاں سی دی کہ کہیں چور ڈاکو اچک نہ لیں۔ اور انہیں نصیحت کی کہ ہمیشہ سچ بولنا گرچہ کہ جان پر باری آجاے۔ جب عبدالقادر جیلانی رح علیہ حصول علم کے لیے رخت سفر باندھا ۔راستہ میں میں چور ڈاکوؤں نے قافلہ پر حملہ کیا اور مال و زر لوٹا۔ جب عبدالقادر جیلانی رح سے ڈاکو نے پوچھا آپ کے پاس کیا ہے؟ انہوں نے کہا میرے پاس چالیس اشرفیاں ہیں . جو میری ماں نے آستین میں سی رکھی ہیں۔ ڈاکو مذاق سمجھ کر سردار کے پاس لے گیا۔ وہاں پر بھی سچ ہی کہا۔ اور کہا کہ میری ماں نے ہمیشہ سچ کہنے کو کہا ہے اگرچہ کہ جان پر کیوں نہ آے۔ ڈاکوؤں پر حضرت عبد القادر جیلانی کا اثر ہوا اور وہ تمام نے چوری اور ڈکیتی سے توبہ کیا۔ اور سچے پکے مسلمان بن گیۓ۔ دین پر عمل پیرا ہونا دوسروں کو اچھے کاموں کی طرف دعوت سخن دینے کے مترادف ہے۔ پہلے علم حاصل کرنے کے ذرائع کم تھے۔ اور آج علم دین اور علم دنیا عام ہے۔ علم کی بھر مار ہے۔ خانقاہیں ، مدارس دینیہ جامعات اور یونیورسٹیاں موجود ہیں۔ مسلمانوں کے پاس لٹریچر اتنا ہے کہ شاید کسی اور قوم کے پاس ہو۔ لیکن اگر ہم جائزہ لیں تو معلوم ہوگا کہ جتنا علم کا انبار ہے۔ اس سے زیادہ ہمارا اخلاقی معیار گرا ہوا ہے۔ عمل کا فقدان ہے۔ علم کے ساتھ عمل لازمی جز ہے، ورنہ قرآن نے کہا ہے۔ ان لوگوں کی مثال گدھے جیسی ہے۔ جو پیٹھ پر کتب کا بوجھ اٹھاے ہوے ہو، اور اس سے کچھ نفع حاصل نہ ہو۔ ماضی بعید میں مدارس دینیہ میں طلباء اپنے اساتذہ کی جوتیاں سیدھی کرنے میں فخر محسوس کرتے تھے ۔ اور جوتیاں سیدھی کرنے میں پہل کرتے تھے۔ لیکن آج یہ حال ہے کہ استاتذہ کو شاگردوں کی عزت و احترام کرنا پڑ رہا ہے۔ ہمارے مدارس دینیہ کے فارغین یہ بھول گیۓ کہ آپ ﷺ نے فرمایا ۔ سلام ہر اس شخص کو کیا کرو جس کو آپ جانتے ہو ، اور جس کو نہیں جانتے۔ لیکن یہاں پر اس کے برعکس معاملہ ہے۔ علم تو ہے لیکن اس حدیث پر عمل نہیں ہے۔ اور یہ سب انانیت اور ego کا سبب ہے۔ اللہ کا ارشاد ہے۔ زمین پر اکڑ کر مت چو آپ کے اکڑ سے نہ زمین پر کوئ فرق ہوگا اور نہ ہی پہاڑ اثر انداز ہوں گے۔ شیطان کو اللہ نے حضرت آدم کو سجدہ کرنے کا حکم دیا تھا۔ لیکن شیطان کو یہ غرور تھا کہ میں اوپر اٹھنے والی آگ سے پیدا ہوا ہوں ۔اور حضرت آدم نیچے رہنےوالی مٹی سے۔ اور اس نے انکار کیا۔ اس کے اس جرم کے سنگین نتائج ملے۔ آج ہم اہل علم میں بھی اس عمل شیطان کی آمیزش پائ جاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہماری دعایں عرش تک نہیں جاتی اور نہ ہی قبول ہوتی ۔ علم کے ساتھ ادب و احترام اشد ضروری ہے۔ ہم نے دیکھا ہے کہ جو غبی اور کند ذہن تھے لیکن اساتذہ کا ادب و احترام کرتے تھے اللہ نے انہیں عزت اور شہرت بخشی۔ آج علم تو بہت ہے۔ لیکن دینی مدارس میں بھی ادب و احترام فقدان ہے۔ ابن انشاء اردو کے ایک مشہور شاعر اور تنز مزاح نگار تھے۔ ایک مرتبہ وہ ٹوکیو یونیورسٹی میں پروفیسر دوست سے ملنے گیۓ۔ جب وہ دوست محو گفتگو تھے ابن انشاء نے دیکھا کہ پروفیسر کے عقب سے طلباء کود کود کر جارہے ہیں۔ تو ابن انشاء کو حیرت اور تعجب ہوا۔ انہوں پروفیسر دوست سے پوچھا کہ طلباء آپ کے پیچھے سے جمپ لگاکر جارہے ہیں ۔کیا بات ہے؟ پروفیسر نے کہا وہ میرے ادب کو ملحوظ رکھتے ہوے نہیں چاہتے کہ سایہ کو روند کر جاے۔ اس لیے وہ کود کود کر جا رہے ہیں۔ یہ ہوتا علم سیکھنے کے بعد اس پر عمل اور عمل اخلاقیات کی دعوت دیتا. ماڈرن ایجوکیشن اور کالیجیس میں طلباء اپنے اساتذہ کے تئیں ادب و احترام کو ملحوظ رکھتےہیں۔ یہاں تک کہ کالج کے سیکیو ریٹی گارڈ کی ڈانٹ پر بھی طلباء خاموشی کا اظہار کرتے ہیں ۔ اور ہم بنیادی علم دین سیکھ کر مسجد کے منبر پر وعظ و نصیحت کرکے ایک دوسرے سے عداوت اور مطلب پرستی کو ترجیح دیتے ہیں۔ قرآن نے کہا ہے ۔ تم جو کہتے ہو وہ نہیں کرتے ۔ لچھے دار تقاریر پھر رنجش اور ایک دوسرے سے قطع کلام ۔ ہم حدیث پیش کرتے ہیں کہ تین دن سے زیادہ قطع کلام کرنا گناہ اور دوزخ میں جانے کا سبب ہے۔ اور ہم ہی قطع کلام کے مرتکب ہوتے. یہاں تک کہ ہمارے کچھ اہل علم ایک دوسرے کو ملنا بھی پسند نہیں کرتے۔ اور جب کوئ سیاسی لیڈر کی آمد ہوتی ہےتو ان کی بغل اور پہلو میں بیٹھنا قابل فخر سمجھتے ہیں۔ مشہور عالم دین اور کئ کتب کے مصنف یوسف القرضاوی رح نے اپنی کتاب میں رقم کیا ہے کچھ نوجوانوں نے صرف کتاب پر اعتماد کیا ہے ۔ اسلیۓ کہ انہیں پیشہ ور علماء جو فرمارواؤں کے قریب ہوتے ہیں اعتماد نہ رہا ۔ اس لیۓ کہ وہ حاکموں کی خوش نودی حاصل کرنے میں مصروف رہتے ہیں۔ جن کے فیصلے اللہ کی اتاری ہوئ شریعت کے خلاف ہوتے ہیں۔ اور یہ اس سے اچھی طرح واقف بھی ہوتے ہیں۔ پھر یہ علماءظالم کو ظالم کہنے سے خاموشی پر اکتفاء نہیں کرتے ، بلکہ ان فرمارواؤں کو تعریف اور تحسین کے کلمات سے نوازتے۔آپ بڑے انصاف پرور ہیں، آپ بہت ہی عظیم ترین ہیں،آپ ہیرو ہیں۔کاش حق بات کہنے سے یہ لوگ خاموش رہتے ہیں تو باطل کو حق بتانے کی کوشش تونہ کرتے۔ جس سے اسلام کو تقویت ملنے کے بجاے منفی اثرات کا سامنا کرنا پڑے۔ حق و باطل میں امتیاز کرنے والا وقت کےظالم بادشاہ کے سامنے بھی حق بات کہنے سے نہیں ڈرتا۔ اور دین اسلام کو اور اللہ کی اتاری ہوئ شریعت کو اس ظالم بادشاہ پر آشکارہ کرتا۔ چنانچہ علماء انبیاء کے وارث ہوتے ہیں ۔ اور جو عالم اپنے علم پر جو اس نے سیکھا ہے۔ اس پر عمل پیراء نہ ہو اور اس کے برخلاف کام کرتا ہو تو وہ وارثین انبیاء میں شمار نہیں۔

Shaikh Akram

Shaikh Akram S/O Shaikh Saleem Chief Editor aitebar news, Nanded (Maharashtra) Mob: 9028167307 Email: akram.ned@gmail.com

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے