किया अप भी अपने न्यूज़ पेपर की वेब साईट बनाना चाहते है या फिर न्यूज़ पोर्टल बनाना चहाते है तो कॉल करें 9860450452 / 9028982166 /9595154683

علم، قرآن اور مسلمان: زوال کی وجوہات اور بیداری کی راہیں

خان اجمیری (عرف خان میڈیم)
زوجہ ڈاکٹرزبیر خان
B.sc [Cs & C.B.Z ] B.Ed MCA .
ڈائریکٹر اسٹڈی اسمارٹ کوچنگ کلاسیس اردھاپور ضلع ناندیڑ مہاراشٹرا

اسلام کا آغاز تعلیم سے ہوا۔ قرآن کی پہلی وحی "اقْرَأْ” یعنی "پڑھ” کے حکم سے نازل ہوئی، جو اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ علم، انسان کی ہدایت، فلاح، اور ترقی کی بنیاد ہے۔ مگر افسوس، جس امت پر تعلیم کو فرض کیا گیا، آج وہی امت دنیا میں تعلیمی پسماندگی کا شکار ہے۔
مسلمانوں میں علم سے دوری کی کئی وجوہات ہیں۔ سب سے پہلی وجہ دینی اور دنیاوی تعلیم میں تفریق ہے۔ قرآن نے علم کو ایک جامع شے قرار دیا، مگر آج ہم نے اسے مذہبی اور دنیاوی خانوں میں بانٹ کر اس کی روح کو کمزور کر دیا ہے۔ مدارس اور اسکول الگ الگ راستوں پر چل رہے ہیں، جب کہ قرآن کا پیغام یہ ہے کہ دین و دنیا کا علم باہم مربوط ہو۔
معاشی مشکلات بھی ایک اہم رکاوٹ ہیں۔ غریب خاندان بچوں کو تعلیم دلانے کی سکت نہیں رکھتے۔ لیکن اس کے باوجود، مسلمان شادی بیاہ، رسوم و رواج، اور فضول خرچی پر لاکھوں خرچ کر دیتے ہیں، مگر تعلیم پر خرچ کرنا بوجھ محسوس کرتے ہیں۔ قرآن نے مال کو فی سبیل اللہ، یعنی اللہ کی راہ میں خرچ کرنے کی ترغیب دی ہے، اور تعلیم اس راہ کا بہترین مصرف ہے۔
آج کا نوجوان تعلیم میں محنت کے بجائے شارٹ کٹ تلاش کرتا ہے۔ وہ چاہتا ہے کہ کم محنت میں زیادہ فائدہ حاصل ہو جائے۔ محض ڈگری، عہدہ یا نوکری مقصود بن چکے ہیں، جب کہ قرآن غور و فکر، تدبر اور تحقیق کو اصل علم قرار دیتا ہے۔
ایک اور المیہ یہ ہے کہ جب کوئی فرد علم و شعور میں آگے بڑھتا ہے تو معاشرہ اسے برداشت نہیں کرتا۔ ایسے افراد کو تنقید، مخالفت اور رکاوٹوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ بجائے حوصلہ افزائی کے، لوگ ان پر دیدہ شاہی اور غرور کا الزام لگا کر پیچھے دھکیل دیتے ہیں۔ قرآن کا حکم ہے: "وَتَعَاوَنُوا عَلَى الْبِرِّ وَالتَّقْوَى” یعنی نیکی اور تقویٰ میں ایک دوسرے کی مدد کرو، نہ کہ ایک دوسرے کی راہ میں کانٹے بچھاؤ۔
یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ مسلمان دوسروں کی کامیابی سے جلتے ہیں۔ اگر کوئی فرد علم یا عمل میں آگے نکل جائے تو اس پر تنقید شروع کر دی جاتی ہے۔ یہ منفی سوچ تعلیمی ترقی کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔ قرآن نے حسد، بدگمانی، اور غیبت کو سختی سے منع کیا ہے، اور اخلاص و خیر خواہی کی تلقین کی ہے۔
خواتین کی تعلیم سے غفلت بھی ہماری پسماندگی کی وجہ ہے۔ حالانکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "علم حاصل کرنا ہر مسلمان مرد اور عورت پر فرض ہے۔” تعلیم یافتہ ماں ہی تعلیم یافتہ نسل پیدا کر سکتی ہے۔ اگر عورت کو زیورِ تعلیم سے محروم رکھا جائے گا تو آئندہ نسل بھی اندھیرے میں رہے گی۔
ایک بڑا المیہ یہ بھی ہے کہ مسلمانوں نے سائنس و ٹیکنالوجی جیسے جدید شعبوں سے کنارہ کشی اختیار کر لی ہے۔ حالانکہ ماضی کے مسلمان سائنس دانوں نے دنیا کو نئی راہیں دکھائیں، مگر آج ہم تحقیق، ایجاد اور ایجادکاری میں بہت پیچھے ہیں۔
قرآن علم والوں کو بلند مقام دیتا ہے: "قُلْ هَلْ يَسْتَوِي الَّذِينَ يَعْلَمُونَ وَالَّذِينَ لَا يَعْلَمُونَ”۔ یعنی: کیا جاننے والے اور نہ جاننے والے برابر ہو سکتے ہیں؟ تعلیم نہ صرف دنیاوی کامیابی کا ذریعہ ہے بلکہ روحانی بلندی، معاشرتی اصلاح اور فکری بیداری کا راستہ بھی۔
اب وقت آ چکا ہے کہ ہم تعلیم کو ایک دینی فریضہ سمجھ کر اپنائیں۔ والدین، اساتذہ، علماء اور نوجوان سب کو مل کر ایسی فضا بنانی ہو گی جس میں علم، تحقیق اور خلوص کے ساتھ فروغ پا سکے۔ ہمیں چاہیے کہ ہم علم پر خرچ کریں، اہلِ علم کی قدر کریں، ان کی راہ میں رکاوٹیں نہ ڈالیں، بلکہ اُن کی رہنمائی سے فائدہ اُٹھائیں۔
تبھی ہم زوال کی تاریکی سے نکل کر قرآن کی روشنی میں وہ مقام حاصل کر سکتے ہیں، جو کبھی ہمارا ماضی تھا اور جسے ہم پھر سے پا سکتے ہیں — اگر ہم سچے دل سے علم کو اپنی زندگی کا مرکز بنائیں۔

Shaikh Akram

Shaikh Akram S/O Shaikh Saleem Chief Editor aitebar news, Nanded (Maharashtra) Mob: 9028167307 Email: akram.ned@gmail.com

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے