किया अप भी अपने न्यूज़ पेपर की वेब साईट बनाना चाहते है या फिर न्यूज़ पोर्टल बनाना चहाते है तो कॉल करें 9860450452 / 9028982166 /9595154683

عصر حاضر اور مدارس عربیہ

ازقلم مولانا میر ذاکر علی محمدی پربھنی 9881836729
بذریعہ ضلع نامہ نگار اعتبار نیوز محمد سرور شریف

علم کی اہمیت اور افادیت اور اس کے حصول اور اسکی فرضیت قرآن اور حدیٹ سے ثابت ہے۔ اور اللہ کی معرفت حقیقت علم سے عیاں ہوتی ہے۔ اور دنیا میں سب سے عظیم علم کے حصول کا نظم مدارس عربیہ اور علماء کرام ہیں۔ چنانچہ اسی پیراے میں حدیث کے مبارک الفاظ ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ سلم نے ارشاد فرمایا عالم بنو یا متعلم بنو یا ان کو سننے والے بنو یا پھر ان سے محبت رکھنے والے بنو۔ اور یاد رہے کہ ان سے ہرگز مخا لفت نہ کریں یہ ہلاکت کا سبب ہے۔ اور دنیا میں قیامت تک امت کی تشنگی کو سیراب کرنے کی اور اللہ کے معرفت کی ایک ہی شکل ہے ۔اور وہ علم جو صرف اور صرف مدارس دینیہ میں علماء کرام درس و تدریس میں مصروف عمل ہیں۔ چونکہ قرآن کی پہلی آیت اقرآ ہے۔ جہاں سب سے پہلے علوم و فنون کے حصول کی فرضیت ہے۔ یعنی طلب العلم فریضة علی کل مسلم و مسلمة۔ دنیا کے سب سے پہلے معلم آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہیں۔ فرمایا انا بعثت معلما۔ کہ آپ معلم اور اخلاق کی درستگی کے لیے مبعوث فرماے گئے۔ اور یہی وجہ تھی کہ سب سے پہلے جو مدرسہ کی بنیاد ڈالی گئ وہ اصحاب صفہ کی تھیں ۔ جو ایک جماعت کی شکل پر مشتمل تھیں۔ یہ لوگ جنہیں اصحاب صفہ کہتے ہیں۔ عربی میں صفہ چبوترے کو کہتے ہیں۔ چونکہ ان اصحاب کو کوئ گھر و غیرہ نہ تھا۔ یہ لوگ چبوترے پر علم و فضل درس و تدریس میں منہمک رہتے تھے۔ خدا ترس , تعلق مع اللہ ہونے کے ساتھ آپ صلی اللہ علیہ سے گہری محبت رکھتے تھے۔ اور مادہ پرستی خود غرضی سے کنارہ کشی, فکر آخیرت سے معمور تھے۔ جو علم و عمل اور خدا کی معرفت کا درس دیتے تھے۔ جو ایک مکمل روحانیت اور خدا کی معرفت کی درس گاہ تھی۔ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے حجة الوداع میں یہ واضح کیا کہ میں آج تمہارا دین تمہارے لیے مکمل کیا ہے۔ اور نعمتوں کو اور دین اسلام ہی کو محبوب اور مکرم کیا ہے۔ امام مالک رح کہتے ہیں۔ کہ دین میں کسی نے نئ ایجاد کی ہو اور بدعت و خرافات کی آمیزش کرکے یہ سمجھا کہ یہی دین اور نیکی ہے۔ تو نعوذ باللہ اس نے یہ گمان اور یقین کیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مکمل دین کو پہنچانے میں خیانت کی نعوذ باللہ۔ چونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے امت تک مکمل دین کی رسائ ہم تک کی۔ اور اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے علماء اور اہل علم کو اپنا وارث اور رہنما قرار دیا ۔ اور مزید فرایا ۔ لانبی بعدی , میرے بعد کوئ نبی نہیں۔
حدیث کے الفاظ ہیں۔ العلماء ورثة الانبیاء۔ علماء اور اہل علم انبیاء کے وارث اور دینی مقصد اور فریضہ کو لیکر چلنے والے ہوتے ہیں۔ اب حالات یکسر بدل گیے ہیں۔ جہاں عصر حاضر میں علم کی تو بہتات ہے۔ اور یہ بھی حقیقت ہے کہ, علماء اور اہل علم اور دینی مدارس ایک مضبوط قلعوں کی حیثیت رکھتے ہیں۔ جہاں آج جامعات ہیں۔ بڑی بڑی عربک یونیورسٹیاں, اور خانقاہیں ہیں۔ لیکن آج وہ خاطرخواہ نتائج کا فقدان ہیں۔ اصحاب صفہ کو کوئ مستقل رہنے کے لیے گھر نہیں تھا۔ خورد و نوش کا بھی کوئ نظم نہیں تھا۔ چبوترے پر اپنا قیام اور دینی تعلیم و تعلم میں مصروف عمل رہتے تھے۔ ٹھیک ہے آج حالات بدل گیے ہیں۔ ترقی کازمانہ ہے۔ لیکن مدارس دینییہ میں وہ تعلیم و تعلم کے ساتھ اصحاب صفہ جیسا عمل خدا ترسی مادیت پرستی سے کنارہ کشی اور انانیت سے دور رہکر تدریسی فرایض بحسن خوبی انجام دینے پر ہم اپنے مذہب اسلام کے اور قرآن کے دستور اور آئین کو حکومت کے ایونوں تک پہچا سکتے ہیں ۔ اور یہی دین اسلام پوری دنیا پر راج کرنے کے لیے آیا ہے۔ یہی دین لوگوں کو عدل و انصاف دینے اس دنیا میں نمودار ہوا ہے۔ اور یہی دین پوری انسانیت کے لیے فتح اور کامیابی کا ضامن ہے۔ اس بات سے قطعی انکار نہیں کیا جاسکتا کہ اس دنیا میں امت کی بقاء اور اسکے ترقی کا ضامن اگر کو ئ شعبہ ہے تو وہ صرف اور صرف مدارس دینیہ ہیں۔ پھر ایسی کیا بات ہے کہ مدارس خانخاہوں اور بڑی بڑی جامعات ہونے کے بعد بھی وہ دور رس نتائج بر آمد نہیں ہوتے ۔جو از حد ضروری ہے۔ جس طرح اصحاب صفہ میں خدا ترسی مادیت پرستی سے کنارہ کشی۔ للہیت تعلق باللہ خوف خدا اور آخرت کی فکر اور اعلاے کلمة اللہ کی جو فکر انہیں لاحق تھی۔ ان جیسے اوصاف جمیلہ اور اوصاف حمیدہ فکر آخرت ہمارے دلوں میں داخل ہوجایں۔ اور مادیت اور انانیت سے کنارہ کشی اختیار کریں تو۔ ہماری تعلیم کے اثرات یقینا حکومت کے ایوانوں تک پہنچ سکتے ہیں اور ہم اپنی پاکیزہ تہذیب و ثقافت سے دنیا کو روشناس کرا سکتے ہیں۔ لیکن افسوس کہ یہی ہمارے پاس نہیں ہے۔ اور اسی وصف کا دان ہے۔ ہمارے پاس سب سے زیادہ لٹریچر سب سے یادہ کتب سب سے زیادہ مدارس دینیہ سب سے زیادہ خانخاہیں اور سب سے زیادہ جامعات ہیں۔ لیکن ہم میں وہ روحانیت کا قدان ہے۔ وہ روحانیت نہیں جو اصحاب صفہ کی تھیں۔ ہمارے پاس مدارس دینیہ میں تعلیمی نظم و نسق خالص قرآن وحدیث کے پیراے اور اسکی روشنی اور اس کے طرز عمل پر ہے۔ اس سے ہٹ کر نہیں۔ لیکن آج اکثر وبیشتر یہ دیکھنے میں آتا ہے کہ, مادیت پرستی اور خودغرضی کی طرف زیادہ میلان ہے۔ اور ۔بعض ارباب مدارس , مدارس کو اپنی اجارہ داری سمجھتے ہیں۔ جسکی وجہ سے اخلاص اورخشیت الاہی کا فقدان پایا جاتا ہے۔ اور اس کے معاشرہ پر منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ علامہ یوسف القرضاوی نے اپنی کتاب اسلامی بیداری میں رقم طراز ہیں کہ کچھ نوجوانوں نے صرف کتاب پر اعتماد کیا ہے۔ اس لیے کہ انہیں پیشہ ور علماء اور خاص کرکے ان علماءجو فرمانرواوں کے قریب ہوتے ہیں, اعتماد نہ رہا, اس لیے کہ وہ ان حاکموں کی خوشنودی حاصل کرنے میں لگے رہتے ہیں۔ جن کے فیصلے اللہ کی اتاری ہوئ شریعت کے خلاف ہوتے ہیں۔اور یہ اسے جانتے بھی ہیں۔پھر یہ علماء ظالم کو ظالم کہنےسے خاموش رہنے پر اکتفاء نہیں کرتے بلکہ تعریف و تحسین کے کلمات سے نوازتے ہیں۔ آپ بڑے انصاف پرور ہیں۔ آپ بہت ہی عظیم ہیں۔ آپ ہیرو ہیں۔ وغیرہ غیرہ۔ کاش اگر حق بات کہنے سے یہ لوگ خاموش رہتے ہیں تو باطل کو حق بتابے کی کوشش تو نہ کرتے۔ پھر ایسےاہل علم جو حاکموں کے طواف کرتے , اور ان کی ہاں میں ہاں ملاتے۔ایسی صورت ہال میں دور رس اور مفید کن نتائج کی امید نہیں کی جاسکتی۔ ہمارےایک دوست لکھتے ہیں کہ , ہم دارالعلوم سے فراغت کے بعد کئ سالوں بعد ملے۔ ہمارے ایک ساتھی جنہوں نے کم اجرت والی نوکری چھوڑ کر ایک کار خانہ میں نوکری اختیار کی۔ ہم استاذ محترم سے ملنے کا عزم کیے تو وہ ساتھی خجلت اور شرمندگی کی وجہ سے استاذمحترم سے ملاقات کے لیے آمادہ نہیں تھے۔ بہر حال جب ملاقات ہوئ تو استاذ محترم نے انہیں خوب کھری کھری سنائ۔ اور کہا ایسا نہیں لگتاکہ آپ کسی مدرسہ کے طالبعلم بھی رہ چکے ہو۔ کہا میرے سامنے سے دفع ہوجاو۔ اسی اثناء میں ایک شخص کلین شو سوٹ بوٹ میں ملبوس قیمتی کار سے اترا, تو مولانا موصوف نے آگھے بڑھکر اس کو خوش آمدید کہا ۔ اور کرسی منگواکر چاے کافی اور ناشتے کا حکم صادر کیا۔ میرے ساتھی نے کہا یہ کون ہے؟ تب دوست نے کہا یہ بھی دارالعلوم کے فارغ التحصیل ہیں۔اور یہ اہل ثروت اور بڑے بڑے کارخانوں کے مالک ہیں۔ اور مولانا کو ان سے بڑی رقم اور تعاون کی امید رہتی ہے۔ تو یہاں یہ کہنا مناسب ہوگا کہ, نہ عیسی پیر نہ موسی پیر سب سے بڑا ہے پیسہ پیر۔ اللہ ہمیں دنیا کی لالچ اور حرص و طمع سے بچاے۔ اور دینی علمی مدارس کے فروغ اورمشن کو آگھے بڑھانے میں کوشاں رہنے کی توفیق عطا فرماے۔

Shaikh Akram

Shaikh Akram S/O Shaikh Saleem Chief Editor aitebar news, Nanded (Maharashtra) Mob: 9028167307 Email: akram.ned@gmail.com

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے