किया अप भी अपने न्यूज़ पेपर की वेब साईट बनाना चाहते है या फिर न्यूज़ पोर्टल बनाना चहाते है तो कॉल करें 9860450452 / 9028982166 /9595154683

عصرِ حاضر میں مسیح الملک حکیم اجمل خاں کی معنویت

تحریر:ڈاکٹر مرضیہ عارف( بھوپال)

۲۰ویں صدی کے ابتدائی حصّہ میں جن فرزندانِ وطن نے اپنا تن من دھن ملک و ملت کی خدمت کے لیے وقف کردیا تھا، اِن محب وطن ہستیوں میں مسیح الملک حکیم اجمل خاں کا نام سرِفہرست ہے۔ حکیم اجمل خاں کی پیدائش دہلی کے ایک معروف خاندان میں ہوئی، اُن کے والد حکیم غلام محمود خاں اعظم اپنے عہد کے مشہور طبیب ہونے کے ساتھ نہایت خداپرست، دیندار اور پرہیزگار بزرگ تھے، ۱۸۵۷ء کے پُرآشوب حالات میں اُنھوں نے دہلی میں ہی قیام کرکے انگریز حاکموں سے سفارش کے ذریعہ سیکڑوں بے گناہ شہریوں کو رہا کرایا اور اُن کی ضبط شدہ املاک واپس دلوائیں۔
حکیم اجمل خاں کے آباء و اجداد بابر کے عہد میں سمرقند سے ہندوستان آئے تھے، والد کے پردادا حکیم واصل خاں اورنگزیب کے زمانے میں آگرہ سے دہلی منتقل ہوئے اور شاہی طبیب کی حیثیت سے اُنھیں جاگیریں عطا ہوئیں جو ۱۸۵۷ء کے بعد انگریزوں نے ضبط کرلیں بعد میں اُس کی جگہ کچھ وظیفے مقرر کیے گئے۔
حکیم اجمل خاں نے نوعُمری میں قرآن پاک حفظ کیا، منطق وفلسفہ کا درس مولانا عبدالحق دہلوی اور مولانا عبدالرشید سے حاصل کیا، عربی فارسی پڑھ کر فنِ طب کی کتابیں اپنے بھائیوں سے پڑھیں اور والد حکیم غلام محمود سے طب کی عملی تربیت حاصل کی، وہ ۱۱؍فروری ۱۸۶۸ء کو پیدا ہوئے اور ۲۹؍دسمبر ۱۹۲۷ء کو وفات پائی۔ حکیم اجمل خاں کی پیشہ ورانہ زندگی کی طرح عملی اور سیاسی سرزمین بھی کافی زرخیز ثابت ہوئی، اٹلی نے جب طرابلس پر حملہ کیا تو پورے عالمِ اسلام میں بے چینی کی لہر دوڑگئی اور ہندوستان میں خلافت تحریک اِس مقصد سے وجود میں آئی کہ ترکی میں خلافت کا ہر قیمت پر تحفظ ہو، لہٰذا اِس تحریک سے ملک کے تمام بڑے لیڈر وابستہ ہوگئے، مقصد یہ تھا کہ ترکی کی عثمانی سلطنت، جو وقت آنے پر برطانیہ سے مقابلہ کرسکتی ہے بلالحاظ مذہب وملت سب اُس کی حمایت کریں، مہاتماگاندھی سے لے کر محمد علی جوہرؔ، مولانا آزاد، پنڈت نہرو، ڈاکٹر انصاری، حکیم اجمل خاں، بی آر داس سبھی خلافت کمیٹی کے ہمنوا بن گئے۔
حکیم اجمل خاں دہلی کے بے تاج بادشاہ تھے، وہ کانگریس ورکنگ کمیٹی کے زندگی بھر ممبر رہے، دہلی کے عوام اُن پر دل و جان سے فدا تھے، یہ ہندومسلم اتحاد کا سنہرا دور تھا، کانگریس اور مسلم لیگ شانہ بشانہ کام کرتی تھیں، اُن کے سالانہ اجلاس بھی اکثر ساتھ ساتھ ہوا کرتے تھے، حکیم اجمل خاں دونوں کے مقتدر رہنما تھے، اُنھوں نے گاندھی جی کے بارے میں اُسی زمانہ میں کہا تھا کہ ’’یہ شخص نہایت سچا، بلند حوصلہ اور اعلیٰ پایہ کا انسان ہے، اگر زندہ رہا تو ایک روز کانگریس بلکہ تمام ہندوستان کو بڑے مرتبہ تک پہونچائے گا‘‘۔ سیاست میں حکیم اجمل خاں کے عروج و مقبولیت کا یہ عالم تھا کہ وہ نہ صرف کانگریس، مسلم لیگ اور خلافت کمیٹی کے مشترکہ اجلاسوں کی صدارت کرتے بلکہ یہ امتیاز بھی مسلمانوں میں صرف اُنھیں حاصل ہوا کہ دہلی میں ہندومہاسبھا نے جب اپنا سالانہ اجلاس کیا تو حکیم اجمل خاں کو مجلسِ استقبالیہ کا صدر بنایا، اُنھیں زندگی میں جو قبولیت مختلف میدانوں میں ملی وہ بھی قابلِ رشک ہے، ایک معالج اور حکیم کی حیثیت سے حکیم اجمل خاں نے انسانی جسم کے امراض کا ہی علاج نہیں کیا، قومی امراض کی بھی تشخیص کی یعنی اُن کی نبض شناسی مریضوں تک ہی محدود نہیں تھی، اُنھوں نے قوم کی اجتماعی زندگی کی نبض پر بھی ہاتھ رکھ کر نفاقِ باہمی، گروہی تعصب اور سیاسی آویزش کے خلاف متوجہ کیا، وہ زندگی بھر مسلمانوں کے مسائل کے لیے ہی فکرمند نہیں رہے، اُنھوں نے ہندوستان کے ہر طبقہ اور مذہب کے لوگوں کی فلاح و بہبود کے لیے جہاں بھی موقع ملا آواز بلند کی اور کندھے سے کندھا ملاکر قومی اتحاد کے لیے کام کرتے رہے۔
محسن الملک حکیم اجمل خاں کی یہ کرشماتی شخصیت کا ہی نتیجہ تھا کہ اُنھوں نے تادمِ آخر ہندو مسلم اتحاد کے تانے بانے کو بکھرنے نہیں دیا، مہاتماگاندھی سے اپنی بات منوالینا ہر کسی کے بس کی بات نہیں تھی لیکن حکیم اجمل خاں نے اُن سے بھی ضرورت پڑنے پر آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کی اور بہت سے باتیں منوائیں، اُن کا ذہن ہر قسم کے تعصب سے پاک تھا، یہی وجہ ہے کہ ہر پلیٹ فارم پر وہ اپنی بات مدلل انداز میں کہتے اور اکثر منوا بھی لیتے تھے، وہ مخالفت و موافقت کی پرواہ کیے بغیر اپنی راہ پر گامزن رہے، انھوں نے قربانیاں بھی دیں اور ضرورت پڑنے پر انگریزوں سے مقابلہ کرنے کی ہمت دکھائی اور وقت آیا تو ’’صادق الملک‘‘ کا خطاب بھی حکومت کو لوٹادیا، جس کے بعد قوم نے اُنھیں ’’مسیح الملک‘‘ کے خطاب سے سرفراز کیا۔ حکیم صاحب نے اپنے دواخانے کا نام یونانی دواخانہ نہ رکھ کر ہندوستانی دواخانہ رکھا اور طبّیہ کالج کے افتتاح کے لیے کسی طبیب کا نہیں مہاتماگاندھی کا انتخاب کیا۔
حکیم اجمل خاں کی دوررس نگاہیں سو سال بعد کے ہندوستان کو دیکھ رہی تھین، جس کا ثبوت یہ ہے کہ انھوں نے ایک صدی پہلے دیسی طریقۂ علاج کے جس تعلیمی و تحقیقی ادارے کی بنیاد رکھی تو اُس میں آیورویدک اور یونانی طبّی تعلیم دونوں کا مشترکہ نظام قائم کیا اور جو تنظیم قائم کی اُس کا نام بھی آل انڈیا آیورویدک و یونانی طبی کانفرنس رکھا، اُنھوں نے علم و ادب اور زبان کے مختلف شعبوں کی خدمت کو اپنا مشن بنائے رکھا تھا، دہلی میں اُن کے قائم کردہ دو تعلیمی ادارے آج بھی اُن کا نام روشن کررہے ہیں، اوّل جامعہ ملیہ اسلامیہ نئی دہلی، ایک مرکزی یونیورسٹی کی حیثیت سے کاروبارِ علم و ادب میں مصروف ہے، دوسرے قرول باغ میں اُن کا قائم کیا ہوا آیورویدک اور یونانی طبیہ کالج جو طب یونانی اور آیورویدک طریقۂ علاج کی تعلیم میں ایک صدی کا عرصہ مکمل کرچکا ہے۔
حکیم اجمل خاں کے مذکورہ تاریخی کاموں کے جائزہ سے واضح ہوجاتا ہے کہ انھوں نے ملک و قوم کی خدمت کو اپنا مشن بنائے رکھا اور آنے والی نسلوں کے لیے یہی پیغام چھوڑا کہ ہندوستان کا مستقبل گروہ بندی میں نہیں، مل جل کر رہنے اور سب کی بھلائی کے لیے کام کرنے میں ہے۔

Shaikh Akram

Shaikh Akram S/O Shaikh Saleem Chief Editor aitebar news, Nanded (Maharashtra) Mob: 9028167307 Email: akram.ned@gmail.com

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے