किया अप भी अपने न्यूज़ पेपर की वेब साईट बनाना चाहते है या फिर न्यूज़ पोर्टल बनाना चहाते है तो कॉल करें 9860450452 / 9028982166 /9595154683

عشرہ ذی الحجہ کی فضیلت و اہمیت

از قلم :مولانا سید اطہر محمدی
(جنرل سیکرٹری جمعیۃ علماء پھلمبری
مدرس ایف ایم کے اُردو اسکول پھلمبری )

اللہ تعالی نے بعض مقامات و ایام کو وہ خصوصیت و فضیلت، عظمت و اہمیت عطا فرمائی ہیں ، کہ ان مقامات اور ایام میں انجام دی جانے والی عبادت کا اجر و ثواب بڑھا دیا جاتا ہے، اُن ہی فضیلت مآب ایام میں عشرہ ذی الحجہ (ابتدائی دس روز) ہے، قرآن و حدیث میں اس کی فضیلت گرانقدر انداز میں وارد ہوئی ہے، چنانچہ اللہ تعالی نے سورہ فجر میں متعدد چیزوں کی قسم کھائی ہیں ، جن میں والفجر سے حضرت ابن عباس، حضرت مجاہد رح ، حضرت عکرمہ رح ، اور حضرت ضحاک کے نزدیک عیدِ قرباں کی فجر مراد ہے، (معارف القرآن ) اور ولیالٍ عشر کے بارے میں حضرت جابر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ اس سے ابتدائی عشرہ ذی الحجہ مراد ہے، (درمنثور) حضرت إبن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صل اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ ذی الحجہ کے ان دس دنوں میں نیک عمل کرنا، دوسرے تمام دنوں میں نیک عمل کرنے سے افضل ہے، صحابہ کرام نے عرض کیا یا رسول اللہ کیا ان دنوں کا عمل دوسرے دنوں میں جہاد کرنے سے افضل ہے، آپ نے فرمایا جہاد کرنے سے بھی افضل ہے، إلا یہ کہ کوئی شخص اس حالت میں نکلا کہ اس نے اپنی جان و مال کو دشمنوں سے مقابلہ کرتے ہوئے ختم کردیا، پھر کچھ لے کر واپس نہ ہوا، (صحیح بخاری)
حضرت ضحاک رح فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے تمام ایام پر ان کی فضیلت کی وجہ سے ان کی قسم کھائی، حضرت مسروق رح فرماتے ہیں کہ عشرہ ذی الحجہ کے دن سال کے افضل ترین دن ہے، (در منثور) حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ عبادت کرنے کے لئے اللہ کے نزدیک سب دنوں میں عشرہ ذی الحجہ سب سے افضل ہے، اس کے ہر دن کا روزہ ایک سال کے روزوں کے برابر ہے، اور اس میں ہر رات کی عبادت شبِ قدر کے برابر ہے، (ترمذی) حضرت إبن عباس رضی اللہ عنہ نے فرمایا یہ دس راتیں وہی ہیں ، جو حضرت موسیٰ علیہ السلام کے قصّے میں آئی ہیں و اتممنھا بعشرٍ یہی دس راتیں سال کے ایام میں افضل ہے، امام قرطبی رح فرماتے ہیں کہ حضرت جابر رضی اللہ عنہ کی حدیثِ مذکور سے عشرہ ذی الحجہ کا افضل ایام ہونا معلوم ہوا، اور اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے لئے یہی دس راتیں ذی الحجہ کی مقرر کی گئی تھی، (معارف القرآن) ان ایام کی اس سے بڑھ کر فضیلت و عظمت اور کیا ہوگی کہ وہ عبادتیں جو سال بھر کے دیگر ایام میں انجام نہیں دی جاسکتی ان کی انجام دہی کے لیے اللہ تعالیٰ نے ان ہی ایام کو منتخب فرمایا، حج ایک ایسی عبادت ہے جو صرف ان ہی ایام کے ساتھ خاص ہے سال کے دیگر ایام میں انجام نہیں دی جاسکتی ہے، اس کے علاوہ دیگر عبادات مثلاً نماز، روزہ ،زکوٰۃ کو دیگر اوقات و ایام میں نفلی طور پر ادا کیا جاسکتا ہے، مگر حج میں وقوفِ عرفات، مزدلفہ میں رات گزارنا، رمی جمرات کرنا، نمازوں (ظہر عصر ،اور مغرب عشاء) کو اکٹھا کرنا، خطبہ، حج کے ساتھ مخصوص ہے، سال کے دیگر ایام میں ان افعال کو ادا کرنا عبادت نہیں ہے، دوسری عبادت قربانی ہے جو ذی الحجہ کے تین یوم، دس، گیارہ، بارہ میں ادا کی جاتی ہے اس کے علاوہ سال کے دیگر ایام میں جانور کی قربانی کرنا عبادت نہیں ہے، یہ صرف ذی الحجہ کے ساتھ خاص ہے، اسی لئے علماء کرام نے احادیث مبارکہ کی روشنی میں فرمایا کہ رمضان المبارک کے بعد سب سے زیادہ افضل اور فضیلت مآب ایام ذی الحجہ کے ہے، ان میں رحمتِ خداوندی وافر مقدار میں بندگانِ خدا پر سایہ فگن ہوتی ہے، اس لیے اس ماہِ میں اور خصوصاً ابتدائی دس روز میں عبادات و اطاعت کا خاص اہتمام کرنا چاہیے تلاوتِ قرآن مجید، استغفار، ذکر اذکار کے ساتھ ساتھ روزہ کابھی اہتمام رکھیں، اور معصیت و گناہوں سے مکمّل اجتناب کریں، کیونکہ ان ایام میں گناہ کی سنگینی بڑھ جاتی ہے، اس لئے اس کے علاوہ بعض اعمال کا بھی اہتمام کریں،
عرفہ کا روزہ:
حضرت قتادہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صل اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا میں اللہ تعالیٰ سے امید رکھتا ہوں کہ عرفہ کا روزہ ایک سال پہلے اور ایک سال بعد کے گناہوں کا کفارہ کردے گا (ترمذی)
مطلب یہ ہے کہ عرفہ کے روزے کی وجہ سے آئندہ سال گناہوں سے محفوظ رہے گا، یا اتنا ثواب ملے گا کہ آئندہ سال زندہ رہے تو اس میں جو گناہ ہوں گے ان کا کفارہ ہوجائے گا، گناہوں سے مراد صغيرہ گناہ ہے، کبیرہ گناہ توبہ کے بغیر معاف نہیں ہوتے، علّامہ نووی رح فرماتے ہیں کہ اگر گناہ نہ ہوں گے تو رفعِ درجات کا سبب ہوجائے گا، (معارف مدنیہ سوم)
حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنھا فرماتی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا سال بھر میں کوئی روزہ مجھے عرفہ کے دن سے زیادہ محبوب نہیں (مصنف إبن أبي شيبه)
علامہ طیبی رح فرماتے ہیں کہ سال کے دنوں میں سب سے افضل دن یومِ عرفہ ہے اور ہفتہ کے دنوں میں سب سے افضل دن جمعہ کا دن ہے، (مرقاة المفاتيح)
مسئلہ عرفہ کا روزہ غیر حاجی کے لیے مستحب ہے:
مسئلہ عرفہ کے روزہ میں اگر کوئی شخص رمضان کے روزے کی قضاء کی نیت کرے تو رمضان کا قضاء روزہ ہی ادا ہوگا، لیکن محض نیت سے عرفہ کا ثواب بھی مل سکتا ہے، (حاشیہ الاشباہ والنظائر)
شیطان کی رسوائی کا دن:
حضرت طلحہ بن عبید اللہ بن کریز کہتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ایسا کوئی دن نہیں، جس میں شیطان اتنا زیادہ ذلیل و خوار ، حقیر اور غیظ سے پُر دیکھا گیا ہو جتنا وہ عرفہ کے دن ہے، جب کہ وہ اللہ تعالی کی جانب سے نازل ہوتی ہوئی رحمت اور اس کی طرف سے بڑے بڑے گناہوں کی معافی دیکھتا ہے ۔( مشکوة المصابيح)
ایک عجیب واقعہ :
ابن جارود رح ایک مرتبہ اپنے کسی ساتھی کے ساتھ یومِ عرفہ کی شام کو سفر میں نکلے، تو قومِ لوط کے شہروں سے ان کا گذر ہوا ، انہوں نے اپنے ساتھی سے کہا کہ آؤ اس عذابِ الہی سے ہلاک شدہ شہروں کو دیکھ چلیں، تا کہ عبرت و نصیحت حاصل ہو، کہتے ہیں کہ ابھی تو اس بستی میں داخل ہو رہے تھے کہ ایک کوسج ( بے داڑھی والا ) گرد آلود چہرہ لیے ہوئے ہمیں ملا ، ہم نے پوچھا کہ کون ہو؟ تو وہ غافل سا ہو گیا ، ہمیں شک ہوا کہ ہو نہ ہو، یہ شیطان ہی ہے، تحقیق کرنے پر اس نے اقرار کیا کہ میں ہی بدنامِ زمانہ شیطان ہوں ، ہم نے کہا کہ اس وقت کہاں سے گڑ بڑ گھوٹالا کر کے آیا؟ کہنے لگا کہ سچی بات یہ ہے کہ آج یومِ عرفہ میں میدانِ عرفات سے مایوسی کے ساتھ کچھ تسلی حاصل کرنے کے لیے آیا ہوں، کیوں کہ میں نے دیکھا کہ جو لوگ سالہا سال سے گناہوں میں مبتلا تھے آج یومِ عرفہ میں رحمتِ الہی کی بارش نے ان کی مغفرت کر دی اور میری ساری محنت برباد ہو گئی، اس لیے اب اپنے سر پر خاک ڈالتا ہوا قومِ لوط کی بستی میں ان معذبین کو دیکھنے آیا ہوں ، تاکہ میرا غم و غصہ ذرا ٹھنڈا ہو ۔ ( نزہۃالمجالس جلد ١ص ٤٩٠ مترجم )
عشرہ ذی الحجہ میں بال اور ناخن کاٹنے کا حکم
حضرت اُم سلمہ رضی اللہ عنھا فرماتی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا جب تم ذی الحجہ کا چاند دیکھ لو اور تم میں سے کسی کا قربانی کا ارادہ ہو تو وہ جسم کے کسی حصہ کے بال اور ناخن نہ کاٹے (صحیح مسلم و نسائی)
مسئلہ قربانی کرنے والے کے لیے یہ مستحب ہے کہ بقرہ عید کی نماز کے بعد قربانی کرکے ناخن اور بال وغیرہ کاٹے، اور قربانی نہ کرنے والے بھی قربانی کرنے والوں کی مشابہت اختیار کر کے عام لوگوں کی قربانی کے بعد بال، ناخن کاٹیں گے تو وہ بھی ثواب سے محروم نہیں ہوں گے
(قربانی کے مسائل کا انسائیکلوپیڈیا)
مسئلہ زیرِ ناف کے بال اور ناخن وغیرہ کو چالیس دن سے زائد ہوگئے تو کاٹنا ضروری ہے ( فتاویٰ شامی)
تکبیرات تشریق:
الله اكبر الله اكبر لا اله الا الله و الله اكبر الله اكبر ولله الحمد
حضرت شعبی سے روایت ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ یوم عرفہ (٩ ذی الحجہ) کی فجر سے ایامِ تشریق کے آخری دن (١٣) ذی الحجہ کی عصر تک تکبیر تشریق پڑھتے تھے، (مصنف إبن أبي شيبه)
اسی وجہ سے فقہاء کے نزدیک ٩ ذی الحجہ کی فجر سے تیرہ ذی الحجہ کی عصر تک ہر فرض نماز کے فوراً بعد ایک مرتبہ پڑھنا واجب ہے،
مرد حضرات بلند آواز سے پڑھیں اور خواتین آہستہ پڑھیں
سلام پھرنے کے بعد فوراً تکبیرات تشریق ادا کرنی چاہئیں، یہاں تک کہ اگر بات چیت کی یاجان بوجھ کر وضو توڑ ڈالا، تو تکبیرات تشریق ساقط ہوجائیں گی،
اگر ایام تشریق کے دوران کوئی نماز فوت ہوگئی، اور اسی سال ایام تشریق کے دوران ادا کی گئی، تو اس صورت میں بھی فرض نماز کے سلام پھرنے کے بعد تکبیر کہنا لازم ہے،
تکبیر تشریق کہنا مقیم پر لازم ہے، اسی طرح مسافر پر بھی اقتداء کی وجہ سے تکبیر کہنا لازم ہے
باجماعت نماز پڑھنے والے، اور تنہا نماز پڑھنے والے اسی طرح مرد و عورت دونوں پر تکبیرات تشریق کہنا واجب ہے،
تکبیر تشریق ایک دفعہ کہنا واجب ہے اس سے زیادہ واجب نہیں،
(قربانی کے مسائل کا انسائیکلوپیڈیا)

Shaikh Akram

Shaikh Akram S/O Shaikh Saleem Chief Editor aitebar news, Nanded (Maharashtra) Mob: 9028167307 Email: akram.ned@gmail.com

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے