किया अप भी अपने न्यूज़ पेपर की वेब साईट बनाना चाहते है या फिर न्यूज़ पोर्टल बनाना चहाते है तो कॉल करें 9860450452 / 9028982166 /9595154683

عجیب سی دنیا

تحریر: ایمن فردوس بنت عبدالقدیر

وہ کلاس میں میم کے لیکچرر میں یوں ہی کھ۔۔۔۔ک کرتے ہوئے ہنس پڑی ،میم بہت غصہ ہوگئیں اور وہیں اسے زوردار تھپڑ رسید کیا۔ وہ خاموش ہوگئی لیکن وہ چھٹی ہوتے ہی وہ اسٹاف روم گئی پوچھا میم؟ اندرآنے کی اجازت ہے؟؟ وہاں اور بھی اساتذہ موجود تھے۔وہ ان تمام کے درمیان نظریں جھکائے شرمند گی محسوس کرتے ہوئے ، میم آپ ہمیں معاف کر دیجیے ۔۔آی ایم سوری میم کہنے لگی ، ریلی .
I am sorry mam , really really sorry
میم کو اپنی آنکھوں پراعتبار ہی نہیں ہوا کہ انھوں نے تھپڑ لگایا اور پوری کلاس میں اس کی توہین کی ۔طعنوں کی کسر بھی باقی نہ رکھی اور وہ ان سے تمام اساتذہ کے سامنے اس طرح معافی کی گذارش لیے آئی !! میم نےکہاکہ میں تو یوں سمجھی کہ تم اپنی امی کو ساتھ لیے مجھ سے بحث کرنے آئی ہو۔۔۔میم دوسرے اساتذہ سے کہنے لگیں آج پہلی مرتبہ ایسا ہوا ،ورنہ یہ دور تو ہمارے بچپن کے ساتھ ہی ہمیشہ کے لیے چلا گیا تھا کہاں استاد ؟؟کہاں شاگرد؟؟،۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اور گھنٹی بج گئی میم باتوں میں مصروف تھیں،اس نے دوبارہ کہا میم معاف کیا کہ نہیں؟؟؟ میم نے مسکراتے ہوئے ہاں میں سر ہلایا اور وہ ہنستے ہوئے وہاں سے چلی گئی اور پھر یہیں سے ان کی عجیب سی دنیا کا آغاز ہوا۔۔
میم اب اس پر کافی دھیان دینے لگیں،ایک دفعہ اس کا رزلٹ بہت برا آیا ، میم نے اسے اسٹاف روم میں بلایا ڈانٹ۔۔۔ غصہ۔۔۔اور کتنے ہی طمانچے! اور وہ معافی کی طلب گار کہنے لگی آپ ناراض ہیں؟؟ آئی ایم سوری۔۔۔ میں آئندہ کے رزلٹ سے آپ کو خوش کردوں گی، فی الحال کے لیے سوری!!
اس کے ان تین لفظوں نے میم کو بے حد متاثر کیا ، چھوٹی چھوٹی باتوں پر اسے ڈانٹنا اور یوں ہی طمانچے رسیدکرنا عام بات ہوگئی تھی۔ نہ میم دوسرے اساتذہ کا لحاظ کیا کرتیں نہ ہی اس کے سہیلیوں کا ،ادھرآ طمانچہ ادھر تھپڑ ۔ ۔۔کبھی اس کے آنکھوں میں آنسو آتے تو پھر میم بھی بھرے مجمع میں اسے اپنے سینے سےلگایا کرتیں یا ماتھے پر بوسہ دیتیں اور میم خود ہی معافی کی درخواست کیا کرتیں!!
ان کی محبت اتنی بڑھ گئی کہ میم نے اپنے اکلوتے بیٹے سے بیاہ ہی کروادیا ۔ اس کی ایک اور وجہ یہ بھی تھی کہ وہ لڑکی یتیم تھی میم تو اور خوش ہوگئیں کہ وہ اس کام کو نیک سمجھا کرتیں تھیں!!
وہ ہمیشہ ہنستے ،مسکراتے رہتی ،ہمیشہ اپنے چہرے پر چہچہاہٹ قائم رکھتی اور خوب باتیں کیا کرتی ،اس بات کو لیے بھی کئی دفعہ تھپڑ لگ جاتے اور بھری بھیڑ بھاڑ میں میم اسے سنجیدگی کا درس دیا کرتیں ، کبھی وہ خاموش ہوجاتی تو میم اس سے پوچھا کرتیں میرا بچہ کہیں تو کسی بات سے ناراض تو نہیں ؟؟؟ اوروہ شرمندہ ہوتے ہوئے مسکرا دیتی اور میم کے کان میں سرگوشی کرتی کہ میں اتنی بڑی ہونے کےباوجود آپ مجھے اس شرمناک الفاظ (منہ بناتے ہوئے) میرا بچہ سے کیوں مخاطب کرتی ہیں؟؟ مجھے یہ لقب بالکل پسند نہیں !!! اور میم بڑے فخر سے اسی بھیڑ بھاڑ میں کہہ پڑتیں کہ میرا بچہ مجھے تم سے بہت محبت ہے !!! اور اسی نقطہء نظر کو لیے میم بھی اس سے کہا کرتیں کہ تم نے آج تک مجھے امی لفظ سے مخاطب نہیں کیا؟؟ وہ کہتی امی کا لفظ بالکل اچھا نہیں لگتا، اگر کہو تو مام(MOM) ماما ، کا مما ،کہہ سکتی ہوں، اچھا ہے اور پھر میم کے زوردار طمانچے کی آواز گونجتی۔۔۔
ایک دفعہ میم نے پوچھا کوئی خاص وجہ اس نے بس یوں ہی، کہہ کے ٹال دیا ،میم نے کہا لیکن میں اس کی وجہہ جانتی ہوں ،اور میم اس کے قریب گئیں اس سے کہا تم جب بھی امی کا لفظ سنتی ہو تمہیں اپنی فوت ہوئے ماں کی یاد آتی ہے وہ سارے مناظر تمہارے آنکھوں کے بالکل سامنے آجاتے ہیں۔۔۔ اور میم نے اسے سینے سے لگایا ماتھے پر بوسہ دیا اور میرا بچہ کہتے ہوئے اس کے آنسو صاف کرنے لگیں، اور کہا میرا بچہ ۔۔ یہ میرا بچہ کا لفظ سنتے ہی اس نے منہ بنایا ہی تھا کہ کہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔کہ میم نے غصیلے انداز سے اس مرتبہ تھپڑ کی بجائے اسے دوبارہ سینے سے لگایا ۔۔۔۔۔

Shaikh Akram

Shaikh Akram S/O Shaikh Saleem Chief Editor aitebar news, Nanded (Maharashtra) Mob: 9028167307 Email: akram.ned@gmail.com

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے