
تحریر : عبدالرحمٰن ناندیڑ
معلم پی ایم شری ضلع پریشد اردو اسکول دیولگاؤں مہی (ضلع بلڈھانہ)
abdulrehmannanded@gmail.com
سترہویں نمازِ تراویح ادا کرکے ہم خوشی خوشی گھر لوٹ رہے تھے۔ ہمارا ارادہ تھا کہ گھر پہنچے ہی دراز ہو جائیں گے اور سحر کے چار بجے تک خوب میٹھی نیند سوئیں گے۔ چناں چہ ہم نیم خوابیدہ حالت میں آنکھوں میں خوابیدگی کے خواب سجائے گھر پہنچے۔ ابھی ہم اپنی خواب گاہ میں داخل بھی نہیں ہوئے تھے کہ دفعتاً ہمارے موبائیل کی گھنٹی بج اٹھی۔ ہم نے گھنٹی کا جواب دیا تو دوسری طرف سے محترم حنیف سر بول رہے تھے۔ اچانک محترم ضمیر سر کی بھی آواز آنے لگی۔ حالانکہ ان دونوں بزرگوں کے درمیان کم و بیش پچیس کلومیٹر کا فاصلہ ہوگا۔ ایک ہی کال پر دو ہستیوں کی آوازیں سن کر ایسا لگا کہ ہم خواب دیکھ رہے ہیں کیوں کہ ایسی عجیب و غریب وارداتیں خوابوں میں ہی ہوتی ہیں۔ لیکن جب بیگم کی گرج دار آواز گھر میں گونجی تو یقین آیا کہ یہ خواب نہیں، حقیقت ہے۔ ہمیں بتایا گیا تھا کہ اس طرح کے ہمہ شخصی رابطے کو مواصلات کی زبان میں ‘کانفرنس کال کہتے ہیں۔ بہر کیف ان دونوں بزرگوں نے ہمیں یہ خوش خبری سنائی کہ ہماری صلاحیت کے فروغ کا حسین موقع آچکا ہے اور اگلی صبح ہمیں اس بابرکت کام کو انجام دینے کے لیے شیواجی ہائی اسکول، چکھلی جانا ہے جہاں اُردو میڈیم اسکولوں کے معلمین کی تعمیری صلاحیت کے فروغ کے لیے سہ روزہ تربیتی کیمپ منعقد ہورہا ہے۔ یہ خوش خبری ہم پر بجلی بن کر گری۔ ایسا لگا کسی نے ہماری شب خوابی پر شب خون ماردیا ہو۔ لیکن چوں کہ ہمارے پیشۂ درس و تدریس اختیار کرنے میں کسی کی زور زبردستی شامل نہیں تھی بلکہ ہم اپنی مرضی و شوق سے معلم بنے تھے اس لیے اپنی صلاحیت کو فروع دینا بھی ہماری ہی ذمہ داری تھی۔ تاہم امور خارجہ سے تعلق رکھنے والے اس کام کے لیے ہمیں اپنی وزیرِ داخلہ کی اجازت درکار تھی۔ جب ہم نے ان سے اجازت طلب کی تو وہ فوراً گرج پڑیں اور اپنے خالص حیدرآبادی لہجے میں بولیں، ” تنخواہ دالرا نئیں، خالی ٹریننگاکچ بلارا۔ نئیں جانے کا کئیں بی۔” ہم نے بیگم کو سمجھایا کہ تنخواہ آج نہیں تو کل ہوہی جائے گی لیکن ہماری صلاحیت کو فروغ دینا انتہائی قابلِ توجہ امر ہے۔ ہم نے ان کے سامنے ایک معلم کی صلاحیت کے فروغ کی اہمیت و افادیت پر روشنی ڈالی۔ پتہ نہیں ہماری غیر اُردوداں بیگم کو ہماری بات سمجھ میں آئی یا نہیں لیکن انہوں نے اس شرط پر اجازت دے دی کہ صلاحیت کو فروغ دیتے ہی فوراً گھر واپس تشریف لائیں۔ ویسے بیگم کی بات بھی درست تھی۔ پچھلے ایک ماہ میں ہم دو ٹریننگ کیمپوں میں شرکت کرچکے تھے اور اب تیسری بار ٹریننگ کے لیے جارہے تھے۔ فروری میں دیولگاؤں راجا بلاکر مراٹھی میڈم اساتذہ کے ساتھ ہماری صلاحیت کا فروغ کیا گیاتھا۔ پھر مارچ و رمضان کی بالکل شروعات میں بلڈھانہ بلاکر پی ایم شری اساتذہ کے ساتھ ہماری صلاحیت کا اسپیشل فروغ کیا گیا۔ اب اردو میڈیم کے معلمین کے ساتھ ہماری صلاحیت کا فروغ کیا جارہا ہے۔ بہر حال میٹھی نیند کی حسرت لیے ہم بستر پر دراز ہوگئے۔ نیند کیا خاک آتی۔ رات بھر ٹریننگ کیمپ کے ڈراؤنے خواب آتے رہے۔ چار بجے اٹھ کر سحور تناول فرمایا اور نماز فجر کے بعد چکھلی کے لیے روانہ ہوگئے۔ ہم جلدی پہنچ کر تربیت گاہ کے آخری کونے میں نشست پکڑنا چاہتے تھے تاکہ گزشتہ شب کی بے خوابی کی تلافی اور اپنی صلاحیت کا فروغ دونوں کام بہ یک وقت انجام دیے جاسکیں۔ ہمیں لال پری بھی وقت پر دستیاب ہوگئی۔ جب ٹکٹ خریدنے کی ہماری باری آئی تو کنڈکٹر صاحب نے ہم سے ایک روپیہ چلر طلب کیا جو ہمارے پاس نہیں تھا۔ ہمیں اندیشہ ہوا کہ موصوف ہمیں بس سے نہ اتار دیں گے اور ہم اپنی صلاحیت کو فروغ دینے سے محروم نہ رہ جائیں۔ لیکن ایسا نہیں ہوا۔ ان حضرت نے کمال فراخ دلی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ہمارا ایک روپیہ معاف کردیا۔ چکھلی بس اسٹیشن پر اتر کر ہم پتہ پوچھتے پوچھتے صبح سوا سات بجے ہی شیواجی ہائی اسکول پہنچ گئے۔ وہاں اسکول کے ایک بزرگ معلم نے ہمارا استقبال کیا اور ہماری تشریف آوری کی غرض و غایت دریافت کی۔ ہم نے بتایا کہ ہم اپنی صلاحیت کے فروغ کے لیے آپ کے اسکول میں ساڑھے سات بجے منعقد ہورہے تربیتی کیمپ میں شرکت کے لیے تشریف لائے ہیں تو اُنہوں نے بتایا کہ مذکورہ کیمپ پڑوس کے شیواجی ڈی ایڈ کالج میں منعقد ہوگا۔ ساتھ ہی ان جہاں دیدہ و تجربہ کار معلم نے ہمیں نصیحت کی کہ ایسے کیمپ میں شرکت کے لیے دیے گئے وقت سے ڈیڑھ دو گھنٹے کی تاخیر سے پہنچنا چاہیے۔ ہم نے ان کی اس زریں نصیحت پر عمل کرنے کا وعدہ کرلیا۔ اسکول میں پیش درس شروع ہو رہا تھا۔ ہم نے راشٹرگیت میں شرکت کی اور پڑوس کے ڈی ایڈ کالج کے لیے روانہ ہوگئے۔ وہاں ہم سے پہلے مہرہ (خرد) کے عرفان سر اپنی صلاحیت کو فروغ دینے ہم سے پہلے پہنچ چکے تھے۔ ہم نے ڈی ایڈ کالج کے پیشِ درس اور راشٹرگیت میں بھی شرکت کی۔ پھر ہم دونوں مل کر تربیتی کیمپ شروع ہونے کا بے چینی سے انتظار کرنے لگے کیونکہ ہم دونوں کو اپنی صلاحیت کے فروغ کی بہت جلدی تھی۔ ہمارا انتظار رائیگاں نہیں گیا اور نو بجے کے آس پاس تربیتی کیمپ شروع ہوا۔ ہم بہت خوش تھے کہ بالآخر ہم اپنی صلاحیت کا فروغ کرنے جارہے ہیں۔ ہمارے ساتھی معلم حافظ عبد الرحیم صاحب کی مترنم تلاوتِ کلامِ پاک سے اس تربیتی کیمپ کا آغاز ہوا۔ پھر تمام شرکا کے ساتھ ہم نے بھی راشٹرگیت میں شرکت کی۔ اس طرح ہمیں ایک ہی صبح تین تین مرتبہ راشٹرگیت گانے کا شرف حاصل ہوا۔ گل پوشی وغیرہ کی رسم کے بعد جاوید خان سر نے صلاحیت کے فروغ کے لیے تشریف لائے ہوئے تمام شرکا کا استقبال کیا۔ اس کے بعد محترم سعید سر نے تعارفی کلمات پیش کیے۔ موصوف نے تربیتی کیمپ کے اغراض و مقاصد پر روشنی ڈالتے ہوئے بیان کیا کہ مارچ کا مہینہ رواں دواں ہے۔ شعبۂ تعلیم کے لیے مختص حکومتی امداد کی رقم اگر خرچ نہ ہو تو اس ماہ کے اواخر تک واپس چلی جاتی۔ اس رقم کو واپس جانے سے بچانے کا ایک ہی طریقہ تھا کہ معلمین کی صلاحیت کا فروغ کردیا جائے۔ لہذا یہ تربیتی کیمپ منعقد کیا جارہا ہے۔ اس کے بعد محکمۂ تعلیمات کے عزت مآب افسر نے کلیدی خطاب کرتے ہوئے معلمین کی صلاحیت کے فروغ کی اہمیت و افادیت بیان کی اور اس میں تربیتی کیمپ کی ضرورت پر روشنی ڈالی۔ صاحب نے اس بات پر خوشی کا اظہار کیا کہ رمضان کے مہینے میں روزے کی حالت میں اتنی بڑی تعداد میں معلمین اپنی صلاحیت کے فروغ کے لیے تربیتی کیمپ میں حاضر ہیں۔ مزید خوشی کا اظہار اس بات پر کیا کہ شرکا کے لیے اکل و شرب کا انتظام نہیں کرنا پڑرہا ہے۔ محترم اظہار سر کے سیشن سے ہماری صلاحیت کے فروغ کا باقاعدہ آغاز ہوگیا۔ محترم نے بتایا کہ وہ معلمین کی تربیت کے لیے ریاستی درجے کے مربی ہیں، ایسے کئی تربیتی کیمپ میں رہنمائی کرچکے ہیں اور اب تک سیکڑوں معلمین کی صلاحیت کا فروغ کرچکے ہیں۔ موصوف نہایت دل سوزی کے ساتھ معلمین سے مخاطب تھے۔ بیچ بیچ میں خفگی و ناراضی اور سوز و گداز نمایاں طور پر جھلک رہے تھے جس سے اندازہ ہوا کہ موصوف ہماری صلاحیت کے فروغ کے لیے اپنے دل میں کتنی تڑپ رکھتے ہیں۔ اس کے بعد ہمارے نوجوان مربی مظہر سر نے ہماری صلاحیت کا فروغ کرنا شروع کیا۔ انہوں نے بتایا کہ وہ ریاضی کے بہت اچھے معلم ہیں اور اسکولی طلبہ سے لے کر ایم ایس سی کے طلبہ تک کو ریاضی پڑھا چکے ہیں۔ اس تربیتی کیمپ میں دو مائیک استعمال ہورہے تھے اور وہ بھی دو مختلف افراد کے ہاتھوں میں۔ ایک مائیک پر اعلان ہورہا تھا، ” اپنے اپنے موبائل فون نکالیے؛ لنک کھولیے؛ فارم پر کیجیے۔” وغیرہ ۔ تو اسی وقت دوسرے مائیک سے اعلان ہو رہا تھا، ” اپنے موبائیل فون رکھ دیجیے، پوری توجہ سے کیمپ اٹینڈ کیجیے۔” وغیرہ ۔ ہمیں سمجھ نہیں آرہا تھا کہ کیا کریں اور کیا نہ کریں۔ ایک اعلان سن کر ہم اپنا موبائیل فون نکال لیتے اور دوسرا اعلان سن کر اسے واپس جیب میں رکھ دیتے۔ بہر ہال خدا خدا کرکے پہلے دن کا تربیتی اجلاس ختم ہوا اور ہماری صلاحیت کا ایک تہائی فروغ ہوگیا اور ہم اپنے گاؤں اپنے گھر واپس آگئے۔ اس روز نمازِ عصر سے فارغ ہوکر ہم جامع مسجد سے باہر نکلے تو اسکول کے بچوں نے ہمیں گھیر لیا اور آج اسکول نہ آنے کی وجہ دریافت کرنے لگے۔ ہم نے ان بچوں کو بتایا کہ ہم اپنی صلاحیت کے فروغ کے لیے ٹریننگ پر جارہے ہیں اور مزید دو دن اسکول نہیں آئیں گے۔ ایک بچے نے پوچھا کہ یہ ٹریننگ کیا ہوتی ہے۔ ہم نے انہیں سمجھایا کہ جس طرح آپ بچے سال میں ایک بار 5 ستمبر کو ٹیچرز ڈے کھیلتے ہیں، کچھ بچے ٹیچر بنتے ہیں اور باقی بچے طلبہ بنتے ہیں ویسے ہی ہم سال میں کئی مرتبہ ٹیچرز ڈے کھیلتے ہیں جس میں کچھ معلمین ٹیچرز کا کردار نبھاتے ہیں اور باقی معلمین طلبہ کا کردار ادا کرتے ہیں۔
حسبِ وعدہ ہم نے دوسرے دن تاخیر سے پہنچنے کی کوشش کی لیکن عادت کے ہاتھوں مجبور تھے اس لیے زیادہ تاخیر نہ ہوپائی۔ ساجد سر نے جغرافیہ مضمون کا جامع تعارف پیش کرتے ہوئے اس کی مؤثر تدریس کے طریقوں پر روشنی ڈالی۔ موصوف نے بتایا کہ جغرافیہ کی تدریس کے لیے فراہم کردہ ‘جادو کی پیٹی کو کھولنا چاہیے۔ ہم تو اب تک یہ سمجھ کر اس پیٹی کو ہاتھ نہیں لگاتے تھے کہ ‘ جادو کی پیٹی ہے، پتہ نہیں اس میں سے کیا نکلے گا۔ بہر حال اس کے بعد سعید سر نے اصنافِ ادب، اظہار سر نے اردو قواعد اور مظہر سر نے آئی سی ٹی پر روشنی ڈالی۔ اس دوران ناظر تعلیمات بھی تشریف لائے تھے۔ موصوف نے طلبہ کی صلاحیتوں کے فروغ کے لیے حکومت کی جانب سے روبہ عمل لائے جانے والے مختلف پروگراموں جیسے ‘نپن اور ‘اسکاف کو سنجیدگی سے لینے کی تاکید کی۔ ان کی باتیں سن کر ہم نے دل ہی دل میں عزم کیا کہ جوں ہی ہماری صلاحیت کا فروغ ہوجائے گا، ہم طلبہ کی صلاحیت کے فروغ میں لگ جائیں گے۔ اس طرح تربیتی کیمپ کا دوسرا دن اختتام کو پہنچا اور ہماری صلاحیت کے دو تہائی حصے کا فروغ ہوا۔ صبح کا بھولا دوپہر کو پھر اپنے گھر لوٹ آیا۔
اب اسے حسن اتفاق کہیے یا سوء اتفاق کہ دوسرے روز ہی ہماری تنخواہ مل گئی اور اسی کے ساتھ ہی بیگم اور بچوں کے شاپنگ کے تقاضے شروع ہوگئے۔ ہم نے ان سب کو تلقین کی کہ ایک دن مزید صبر کرلیں۔ ابھی ہماری صلاحیت کا دو تہائی فروغ ہوا ہے۔ کل جیسے ہی ہماری صلاحیت کا مکمل فروغ ہو جائے گا، ہم جی بھر کر شاپنگ کریں گے۔
تیسرے روز ہم آخرکار تاخیر سے پہنچنے میں کامیاب ہوگئے۔ اس روز غبارے پھلانے کا کھیل، ادبی نشست، جبری مشاعرہ، ڈرامہ اور ثقافتی پروگرام وغیرہ سرگرمیاں لی گئیں۔ شرکا کو غبارے پھوڑنے کی ہدایت کی گئی تھی۔ ہم نے اپنا غبارہ پھوڑنے کی بجائے اپنی جیب میں رکھ دیا تاکہ ہمارا بچہ اس سے کھیل سکے۔ ایک سرگرمی ایسی بھی تھی جو تربیتی کیمپ کے تینوں دن چلتی رہی اور بار بار چلائی جاتی رہی۔ یہ تھی سفر بھتے کے لیے لنک پر جاکر فارم بھرنے کی سرگرمی۔ صرف اسی سرگرمی میں تمام شرکا نے سرگرم حصہ لیا۔ بہر حال اس کے بعد صحافت کے میدان سے تعلق رکھنے والی نامور شخصیت واثق نوید صاحب نے پیشۂ تدریس سے وابستہ شخصیات کی صلاحیت کے فروغ کے سلسلے میں گراں قدر رہنمائی کی۔ تربیتی کیمپ سے متعلق شرکا نے اپنے تاثرات پیش کیے۔ ہم بھی اپنے تاثرات پیش کرنا چاہتے تھے لیکن ہمیں اس بات پر شرحِ صدر نہیں تھا کہ آیا ہماری صلاحیت کا فروغ ہوا ہے یا نہیں۔ چنانچہ ہم نے خاموش رہنے میں ہی عافیت سمجھی۔ تاثرات لکھنے کے لیے ڈرائنگ کاغذ فراہم کیا گیا جو ہم نے اپنی تھیلی میں رکھ دیا تاکہ ہماری بچی اس پر ڈرائنگ کرسکے۔ اختتامی خطاب کے بعد منتظمین نے معلمین کی صلاحیت کے فروغ کے اس تربیتی کیمپ کے اختتام کا اعلان کیا۔ شرکا بہت خوش نظر آرہے تھے۔ شاید ان کی صلاحیت کا فروغ ہوچکا تھا۔ لیکن ہم کافی دیر تک تربیت گاہ سے باہر نہیں نکلے کیوں کہ ہمیں اب بھی یقین نہیں آرہا تھا کہ ہماری صلاحیت کا فروغ ہوچکا ہے۔ کافی دیر کے بعد ہم نے تربیت گاہ چھوڑی اور باہر آگئے۔ ہم ایک ایک معلم سے پوچھ رہے تھے کہ کیا ہماری صلاحیت کا فروغ ہوگیا لیکن کسی نے تشفی بخش جواب نہیں دیا۔ آخر ہم نے اپنے سب سے معتبر ساتھی حافظ عبدالرحیم صاحب سے پوچھا کہ کیا ہماری صلاحیت کا فروغ ہوگیا تو انہوں نے پرجوش انداز میں اثبات میں جواب دیا۔ حافظ صاحب کی توثیق کے بعد ہمیں اب اس بات میں کوئی شک نہیں رہا کہ ہماری صلاحیت کا فروغ ہوچکا ہے۔ چنانچہ ہم حافظ صاحب ہی کی سواری پر خوشی خوشی بس اسٹیشن روانہ ہوگئے۔ صلاحیت کے فروغ کی خوشی میں ہم نے چکھلی سے عمدہ مٹھائی خریدی۔ صلاحیت کے فروغ کی خوشی میں ہم اتنے مدہوش ہوگئے کہ ہمارے گاؤں جانے والی کئی بسیں آئیں اور چلی گئیں لیکن ہم کسی میں سوار نہیں ہوئے۔ لیکن آخر کار بدھو کو لوٹ کر گھر ہی جانا پڑتا ہے سو ہم بھی ایک بس میں سوار ہوکر گھر کے لیے روانہ ہوگئے۔ اپنی صلاحیت کے فروغ کی خوشی میں ہمارا سفر بہت جلد اور بہت مزے سے کٹ گیا۔ ہم گھر پہنچے تو بیگم نے پہلا سوال یہی پوچھا کہ کیا ہماری صلاحیت کا فروغ ہوگیا۔ جواب میں ہم نے انھیں مٹھائی کا ڈبا پیش کردیا۔ بہر حال معلمین کی صلاحیت کے فروغ کا یہ سہ روزہ کیمپ ہماری یادداشتوں میں ہمیشہ محفوظ رہے گا۔ ہم امید کرتے ہیں کہ مستقبل میں بھی صلاحیت کے فروغ کے اس طرح کے تربیتی کیمپ منعقد کیے جاتے رہیں گے۔
تعمیری صلاحیت کا فروغ زندہ باد!
معلمین کا تربیتی کیمپ پائندہ باد!
(نوٹ : اس مضمون میں تربیتی کیمپ کی صرف انہی باتوں کا احاطہ کیا گیا ہے جن سے ہم نے حالت شعور میں استفادہ کیا۔ جو باتیں ہماری نیند کی نذر ہو گئیں ان کا یہاں ذکر نہیں کیا جارہا ہے۔ ان کے متعلق وہی شرکا بتاسکتے ہیں جو اس وقت تربیت گاہ میں جاگ رہے تھے۔)