किया अप भी अपने न्यूज़ पेपर की वेब साईट बनाना चाहते है या फिर न्यूज़ पोर्टल बनाना चहाते है तो कॉल करें 9860450452 / 9028982166 /9595154683

سی بی آئی شروع سے حکومت کی مرضی پر چل رہی ہے

تحریر:عارف عزیز(بھوپال)

ہندوستان کی اہم تحقیقاتی ایجنسیوں میں شمار ہونے والی ’’سینٹرل بیورو آف انویسٹی گیشن (سی بی آئی) کا استعمال سیاسی مفادات کے حصول اور مخالفوں کو دبانے کیلئے ہونے کے بارے میں خبریں عرصہ دراز سے مل رہی ہیں لیکن کچھ عرصہ سے اس میں غیر معمولی اضافہ ہوگیاہے ۔ ساٹھ کی دہائی میں سی بی آئی کا قیام امریکہ کے ’’فیڈرل بیورو آف انویسٹی گیشن‘‘ (این بی آئی) اور برطانیہ کے ’’اسکاٹ لینڈ یارڈ‘‘ کے طرز پر عمل پر ہوا تھا تو اس وقت دعویٰ کیا گیا تھا کہ یہ تحقیقاتی ایجنسی ایک آزاد اور خودمختار ادارے کی حیثیت سے کام کریگی اور اس کے مقاصد میں سرکاری مشنری کے اندر پھیلی ہوئی رشوت خوری کی وبا کے انسداد کیلئے فوری اقدام کرکے مجرموں کو سزا دلانا شامل ہوگا، ملک میں اس وقت سیاسی کرپشن ابتدائی مرحلہ میں تھا لیکن ۱۹۷۵ء میں ایمرجنسی کے دوران سی بی آئی کا جس طرح استعمال ہوا،اس سے اس نوخیز ادارے کی مکمل طور پر سیاست کاری ہوگئی جس کے لئے ساری ذمہ داری اندراگاندھی پر عائد کی گئی، جنہوں نے ملک میں ہنگامی حالات کا اعلان کرکے انتظامیہ کو مفلوج، پارلیمنٹ کو گونگا اور عدلیہ کو اپنے ماتحت بنالیا تھا، ان حالات میں سی بی آئی اندرا مخالفوں کو دبانے کا ایک کارگر ذریعہ بن گئی لہذا جے پرکاش نرائن کی تحریک کو کچلنے، جماعت اسلامی، سنگھ پریوار اور آنند مارگیوں کا بہانہ بناکر مخالفوں کو نظر بند کرنے، چیف جسٹس اے این اے کے قتل کی خیالی سازش بناکر بے شمار بے قصور لوگوں کو سزادلوانے، کانگریسیوں کے قتل اور غیر ملکی سازشوں کاہواکھڑا کرکے ایمرجنسی مخالفوں کو قید کرنے، جیسے اقدامات سی بی آئی کے وسیلہ سے انجام پائے، ۱۹۷۶ء کا تاریخی بڑودہ ڈائنا مائٹ سازش کیس جس کے ۲۲ ملزموں میںبعد کے وزیر ریل جارج فرنانڈیز ، مغربی بنگال کے گورنر اور ممبئی کے مشہور صنعت کار ویرین شاہ، تامل ناڈو کے بعد میں بنے گورنر اور گجرات کے سرودئے لیڈر پربھو داس پٹواری، مدراس کے انگریزی روزنامہ ’’ہندو‘‘ کے جنرل منیجر اور ممبر پارلیمنٹ سی بی ریڈی وغیرہ شامل تھے، اسی وقت سے سی بی آئی کو حکمرانوں کی لونڈی بنکر ان کی مرضی ومنشاء کے مطابق کام کرنے کی جو عادت پڑی تو آج تک جاری ہے، سی بی آئی کا نیا اور متنازعہ چہرہ دوہزار کی دہائی کے دوران اس وقت سامنے آیا جب کانگریسی وزیراعظم پی وی نرسمہارائو نے اپنے سیاسی حریفوں کو صاف کرنے کیلئے اس کا استعمال کیا، کئی کانگریسیوں کو حوالہ اسکینڈل میں پھنساکر ان کا ٹکٹ کٹوادیا لیکن بعد میں سبھی ملزم عدالت سے بڑی ہوگئے لیکن خود نرسمہارائو سی بی آئی کے چنگل میں پھنس گئے اور لکھو بھائی واقعہ، جھارکھنڈ اسکینڈل، سنٹ کٹس معاملہ وغیرہ میں وہ ماخوذ رہے۔
اس عرصہ میں سی بی آئی نے بے قصور لوگوں کو جرائم میں پھنسانے کے ساتھ ساتھ مجرموں کو تحفظ دینے کا کام بھی کیا ہے پریہ درشنی مٹو کے مشہور مقدمہ میں سپریم کورٹ کی رائے سے یہ حقیقت اجاگر ہوئی کہ دہلی یونیورسٹی کی قانون کی اسٹوڈینٹ کشمیری لڑکی پریہ درشنی مٹو کی آبروریزی اور پھر اس کا قتل ہوا ہے لیکن سی بی آئی نے جان بوجھ کر اس مقدمہ کو کمزور کردیا جس کے نتیجہ میں مجرم بری ہوگئے، سی بی آئی کا عذر تھا کہ ایک گھریلو نوکر اصل گواہ تھا جو غائب ہوگیا ہے اس لئے کیس نہیں بن سکا، حالانکہ بعد میں ایک اخباری نمائندے نے بہار جاکر سیوان ضلع کے گائوں میں اسے ڈھونڈ نکالا اور نوکر نے بیان دیا کہ سی بی آئی نے اس سے رابطہ قائم کرنے کی ضرورت بھی نہیں سمجھی،ا س انکشاف پر سی بی آئی کے ڈائریکٹر آر کے راگھون کو غلطی تسلیم کرکے دوبارہ تحقیقات کرانے کا وعدہ کرنا پڑا۔
بعد میں جب این ڈی اے کی حکومت برسراقتدار آئی تو اس کے وزیر داخلہ لال کرشن اڈوانی نے جو خود حوالہ اسکینڈل کے باعث گیارھویں لوک سبھا کے الیکشن میں گاندھی نگر پارلیمانی حلقہ سے کھڑے نہ ہوسکے تھے، سی بی آئی کو غیر جانبدار، ایماندار اور صاف ستھری شبیہ والی تحقیقاتی ایجنسی بنانے کے بجائے اس کا اپنی حکومت اور پارٹی کے حق میں استعمال شروع کردیا، بابری مسجد انہدام مقدمہ میں اڈوانی کے خلاف جو کیس چل رہا تھااس میں اپنے رسوخ کا بھرپور طریقہ سے استعمال کرتے ہوئے انہوں نے سی بی آئی کے ذریعہ داخل کی جانے والی چارج شیٹ سے کئی اہم شقیں نکال دیں جس کی وجہ سے اڈوانی کو سزا ہوسکتی تھی اور وہ ایک اہم ملزم بن کر کٹہرے میں کھڑے ہوسکتے تھے بعد میں ہائی کورٹ کو ہدایت دینا پڑی کہ وہ شقیں دوبارہ چارج شیٹ میں داخل کی جائیں، اسی طرح حکومت کے اشارہ پر سی بی آئی نے جو دیوکے معاملہ میں ان کے اقرار کے باوجود ایف آئی آر درج نہ کرکے محض سیاسی مصلحت سے چھتیس گڑھ کے سابق وزیر اعلیٰ اجیت جوگی کے خلاف مقدمہ دائر کرنے میں عجلت سے کام لیا لیکن ڈی ڈی اے بدعنوانی کی چارج شیٹ داخل کرنے میں وہ ٹال مٹول کرتی رہی تاکہ بی جے پی قیادت کو پریشانی کا سامنا نہ کرنا پڑے، بدنام زمانہ ’’تہلکہ اسکینڈل‘‘ میں بھی سی بی آئی کا یہی رویہ سامنے آیا کہ اس نے این ڈی اے حکومت کے وزیر دفاع جارج فرنانڈیز کو بچانے کی کوشش کی لیکن تہلکہ کے ایڈیٹروں کو ہراساں کرنے کیلئے ان کی ویب سائٹ کو تباہ کردیا۔ اس وقت کے وزیر اعظم واجپئی نے برسرعام کنٹرولر اینڈ ایڈیٹر جنرل پر اس لئے تنقید کی کہ اس نے حکومت میں ہونے والی مالی بدعنوانیوں کا پردہ فاش کردیا تھا۔ وزیر اعظم شاید یہ نہیں چاہتے تھے کہ سی اے جی وہ باتیں عوام کو بتائیں جو حکومت کی تصویر خراب کرتی ہوں، سی بی آئی نے لکھنؤ کی عدالت میں بی جے پی کے بعض بڑے لیڈروں کے خلاف بھی چارج شیٹ داخل کی، جس کا مقصد انصاف کا سربلند کرنا نہیںتھا بلکہ بی جے پی کے حریف لیڈروں کو داغدار بناکر ان کے وزیراعظم بننے کے امکان کو معدوم کرنا تھا ، جس کے بعد باہمی مفاہمت ہونے پر سی بی آئی نے قلابازی کھالی۔ سی بی آئی کی ’’نیک نامی‘‘ اس سے پہلے ’’بوفورس معاملہ‘‘ میں بھی دنیا پر ظاہر ہوچکی ہے۔ اس معاملہ کی تحقیقات کے دوران کئی وزراء اعظم آئے اور رخصت ہوگئے سی بی آئی کے کئی سربراہ ایک کے بعد ایک کام کرتے رہے لیکن یہ ایجنسی آج تک یہ واضح کرنے میںناکام رہی کہ بوفورس دلالی میں آخر کس کا ہاتھ تھا؟
حقیقت یہ ہے کہ سی بی آئی پر لگنے والے الزامات اور جوبی الزامات نے عرصہ ہوا اس ایجنسی کا اعتبار ختم کردیا ہے۔ اگر کوئی ایماندار افسر غلط کام کرنے سے انکار کرتا تو راستے کا پتھر سمجھ کر سزا کے طو رپر اس کا تبادلہ کردیا جاتا ، مایاوتی نے اپنے دور حکومت میں سینکڑوں ایماندار افسروں کا تبادلہ کردیا، بی جے پی کے وزیراعلیٰ راج ناتھ سنگھ نے بھی یہی کیا، گجرات میں نریندر مودی، پنجاب میں پرکاش سنگھ بادل، تمل ناڈو میں جے للیتا اور مدھیہ پردیش میں اومابھارتی بھی یہی کرچکی ہیں۔ بہار میں لالو پرساد یادو سمیت کئی رہنمائوں کو سی بی آئی نے این ڈی اے حکومت کی منشاء پر مقدمات میں ماخوذ کیا تو یوپی اے کے دو رمیں ان سے نرمی برتی گئی۔
اس بات سے بھلاکون انکار کرسکتا ہے کہ جمہوریت کی بقا کیلئے ملک میں آزاد عدلیہ کے ساتھ خود مختار اور غیر جانبداراداروں کا جو حکمرانوں کے زیر اثر کام نہ کریں، وجود ضروری ہے۔ اس میں سی بی آئی ایک اہم کردار ادا کرسکتی تھی لیکن افسوس کا مقام یہ ہے کہ اس ایجنسی کو بیشتر برسراقتدار جماعتوں اور حکومتوں نے اپنے مفاد کیلئے استعمال کیا ہے جس میں یوپی اے سرکار کویہ ’’اعزاز‘‘ بھی حاصل ہے کہ اس کے دور حکومت میں اس تحقیقاتی ایجنسی کو سپریم کورٹ کی سرزنش کا سامنا کرنا پڑا ایک مرتبہ فروری ۲۰۰۹ء میں اور دوسری بار مئی ۲۰۱۳ء میں، پہلے عدالت عظمیٰ کے ایک حج کو یہ کہنا پڑا تھا کہ ’’اے خدا ہماری مدد کر‘‘کیونکہ فاضل جج کے خیال میں سی بی آئی مرکزی حکومت اور وزارتِ قانون کے ایماپر کام کررہی تھی۔ بعد میں بھی یہی ہوا ہے کہ ہزاروں کروڑ روپے کے کوئلہ اسکام کی تحقیقات میں سی بی آئی نے سپریم کورٹ کی ہدایت کو نظر انداز کرکے اپنی رپورٹ مرکزی وزیر قانون اشونی کمار اور دیگر ذمہ داروں کو دکھادی، جس پر سپریم کورٹ کو اسے ’’بند پنجرے کے طوطے‘‘ سے تعبیر کرنا پڑا یعنی اپنے مالک (حکومت) نے اسے جورٹادیا ہے وہی اس کی زبان سے ادا ہورہا ہے۔ اس ریمارک کی ادائیگی سے جہاں حکومت اور سی بی آئی کے خلاف عدالت عالیہ کی شدید ناراضگی کا اظہار ہوا وہیں یہ بھی واضح ہوگیا ہے کہ حکومت میں بیٹھے لوگ اس اہم تحقیقاتی ایجنسی کو اپنے سیاسی مقاصد کیلئے استعمال کے کتنے عادی ہوگئے ہیں، دوسری طرف سی بی آئی بھی سپریم کورٹ کے منع کرنے کے باوجود اپنی رپورٹ وزیر قانون کے علاوہ وزیر اعظم کے دفتر اور کوئلہ وزارت میں تعینات افسروں کو دکھانے اور ان کی مرضی کے مطابق اس میں ردوبدل کرنے پر تیار ہوگئی۔ عدالت نے حکومت کی نیت پر سوالیہ نشان لگاتے ہوئے اسے یہ واضح کرنے کی ہدایت بھی دی ہے کہ وہ اس تحقیقاتی ایجنسی کو کب اپنے قبضہ سے آزاد کرے گی۔
سی بی آئی کے غیر قانونی استعمال کے بارے میں پہلے بھی کئی حکومتیں بدنام ہوچکی ہیں لیکن موجودہ حکومت نے نیا طریقہ وضع کیا ہے کہ جن کا تعلق اس کی پارٹی سے ہے، اس کے سات خون معاف ،کتنے ہی الزامات لگ جائیں، ایف آئی آر درج ہوجائیں کارروائی نہیں ہوتی اپوزیشن کے رہنمائوں کو چن چن کر نشانہ بنایا جارہا ہے تحقیقاتی ایجنسیاں ان کے خلاف سرگرم ہیں، ان میں سے جو بھی حکمراں جماعت کی پناہ میں آجاتے ہیں وہ بھی دودھ کے دھلے پاک وصاف بن جاتے ہیں۔ مثال کے طو رپر مہاراشٹرا کے اجیت پوار پرفل پٹیل او رچھگن بھجبل سمیت کئی لیڈروں کے خلاف کارروائی ہورہی تھی لیکن انہوں نے اپنی پارٹی سے جیسے ہی انحراف کیا انہیں جانچ ایجنسی کی چارہ جوئی سے تحفظ مل گیا ہے۔ مختلف مقدمات میں ایسے ہی رویہ سے اخلاقیات کا جنازہ نکل رہا ہے اور حکومت کا خوف بڑھتا جارہا ہے جمہوری نظام کے لئے یہ بڑا خطرہ ہے جانچ ایجنسیاں اوپر کے اشارے من مانی کررہی ہیں ان کے عتاب سے کیجریوال اور سورین جیسے وزراء اعلیٰ بھی محفوظ نہیں تو کمزوروں کو کہاں پناہ ملے گی سوائے اس کے وہ برسراقتدار کے آگے خود سپردگی کردیں۔

Shaikh Akram

Shaikh Akram S/O Shaikh Saleem Chief Editor aitebar news, Nanded (Maharashtra) Mob: 9028167307 Email: akram.ned@gmail.com

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے