किया अप भी अपने न्यूज़ पेपर की वेब साईट बनाना चाहते है या फिर न्यूज़ पोर्टल बनाना चहाते है तो कॉल करें 9860450452 / 9028982166 /9595154683

سید حبیب الدین کی شخصیت کاایک جمالیاتی مطالعہ

از: محمد عبدالعلیم
(موظف مدرس، مدینۃ العلوم ہائی اسکول ناندیڑ)

کبھی کبھی زندگی کے ہجوم میں ایک ایسی شخصیت ملتی ہے جو شور میں خامشی کی مہک بن کر ابھرتی ہے، جو موجود تو ہوتی ہے مگر اپنی موجودگی کا اعلان کبھی نہیں کرتی — بس عمل کے چراغوں سے اپنے راستے کو روشن کرتی چلی جاتی ہے۔ کچھ لوگ ایسے بھی ہوتے ہیں جو وقت کے تعاقب میں نہیں دوڑتے، بلکہ وقت خود ان کی سمت جھکتا ہے۔ ان کی زندگی ایک ایسی بے آواز نغمگی ہوتی ہے جو سننے والے کے دل میں گھر کر لیتی ہے۔
سید حبیب الدین صاحب بھی ایک ایسی ہی ہستی کا نام ہے — جن کے بارے میں لکھنا گویا لفظوں کو آئینے کے سامنے لا کھڑا کرنے جیسا ہے، جہاں ہر حرف اپنا لباس سنوار کر حاضر ہو، ہر جملہ تہذیب سے جھک کر اظہار کرے، اور ہر خیال ادب کی چادر اوڑھ کر جلوہ گر ہو۔
30 جون 2025 کو، جب آپ 58 برس کی عمر مکمل کر کے تدریسی سفر سے رخصت ہوئے، تو یہ محض ایک اداری مرحلے کی تکمیل نہ تھی، بلکہ ایک ایسے روشن عہد کا وقار بھرا اختتام تھا جو برسوں سے علم، ادب، اخلاق اور تہذیب کے رنگوں سے مزین تھا۔ آپ کے تقریباً بتیس برس تدریس و خدمت میں صرف نہ ہوئے، بلکہ ہر دن ایک فکری چراغ بن کر روشن ہوا۔ یہ سفر صرف ملازمت کا نہ تھا، بلکہ ایک خاموش ریاضت تھی، ایک ایسا علمی کارواں جس کے نقوش آنے والے وقتوں میں بھی نمایاں رہیں گے۔
سید صاحب کی گفتگو میں سنجیدگی، متانت اور ادب کی مہک رہی۔ مزاح کا ہلکا سا رنگ ان کی باتوں کو دلنشین بناتا اور ان کی نصیحتیں سامع کے دل میں اترتی چلی جاتیں۔ سامنے والے کو مکمل سُن کر بات کرنا، دوسروں کو عزت دینا اور نرم لب و لہجہ ان کے طرزِ گفتگو کا خاصہ رہا۔
آپ کی علمی و انتظامی صلاحیتیں صرف کلاس روم تک محدود نہ رہیں۔ آپ نے مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی، حیدرآباد کے Distance Education Programme کے تحت ناندیڑ مرکز کے کوآرڈینیٹر کی حیثیت سے بھی خدمات انجام دیں، اور وہ بھی اُس وقت جب یہ مرکز اپنے ابتدائی ایّام میں تھا۔
یہ مرکز، جسے تأسیس کے دنوں میں ہی ریجنل ہب کا درجہ حاصل ہوا، آپ جیسے پرعزم اور سلیقہ شعار منتظم کی موجودگی میں 8 برسوں تک قوم کے اُن نوجوانوں کے لیے امید کا چراغ بنا رہا جو رسمی تعلیم کے مواقع سے محروم تھے۔ خاص طور پر لڑکیوں کی اعلیٰ تعلیم کے فروغ میں یہ ادارہ ایک خاموش انقلاب کی مانند ابھرا۔
اگرچہ بعد ازاں اس مرکز کو سینئیر کالج کے دائرے تک محدود کر دیا گیا، لیکن جو علمی چراغ روشن کیے گئے، وہ آج بھی سینکڑوں طالبات کے مستقبل میں جگمگا رہے ہیں۔ ان خدمات کے پس منظر میں سید صاحب کی دور اندیشی، تنظیمی ہنر اور اخلاص پر مبنی ملی و تعلیمی جذبہ کارفرما رہا۔
اسی علمی اور تنظیمی بصیرت کا تسلسل اُس وقت سامنے آیا جب سید صاحب نے اردو تحقیق کے میدان میں قدم رکھا۔ اُن کی پی ایچ ڈی کا موضوع — ”رثائی ادب میں ڈاکٹر تقی عابدی کا حصہ” — صرف ایک تنقیدی مطالعہ نہیں، بلکہ ادبی بصیرت اور شعری شعور کا عالمانہ اظہار تھا۔
ڈاکٹر تقی عابدی جیسے ہمہ جہت محقق و نقاد پر کام کرنا گہرے مطالعے، تنقید کی چابکدستی، اور زبان کی شائستگی کا تقاضا کرتا ہے، اور سید صاحب نے ان تمام تقاضوں کو علمی وقار اور تحقیقی سنجیدگی کے ساتھ نبھایا۔
ان کے اندر ایک سنجیدہ محقق، شائستہ قاری اور باوقار لکھنے والا بستا ہے، جو خاموشی سے علم کے صحرا میں فکر کی ندی بہاتا ہے۔ ان کی تحریر میں استدلال بھی ہے، جذبہ بھی؛ حوالہ بھی ہے، حوالت بھی — اور یہی وہ جامعیت ہے جو اُن کی علمی شخصیت کو منفرد بناتی ہے۔
وہ اپنے پی ایچ ڈی کے مقالے کو شائع کرنے کا عزم رکھتے ہیں — یہ ایک ایسا ارادہ ہے جسے وہ اپنے فاضل اوقات میں بروئے کار لانے کے خواہاں رہے ہیں۔
سید صاحب کی شخصیت کا پہلو جو پہلی ہی ملاقات میں دل کو چھو لیتا ہے، وہ ان کی گفتگو کا وقار، لب و لہجے کی متانت، اور خیالات کی تہذیب ہے۔ وہ بات کو بلند آواز سے مسلط نہیں کرتے تھے، بلکہ شائستگی سے پیش کرتے۔ ان کی گفتگو میں دلیل، نرمی، سچائی اور سلیقہ ہوتا۔ وہ مکالمے کو مناظرے میں بدلنے کے قائل نہ تھے، بلکہ سامع کو موقع دیتے کہ وہ اپنی بات مکمل کرے، اور پھر وقار کے ساتھ اپنی بات رکھتے — الفاظ میں اثر، لہجے میں سکون، اور بات میں بصیرت ہوا کرتی تھی۔
ان کی مجلس، خواہ وہ عملے کے ساتھ ہو یا طلبہ کے ساتھ، ہمیشہ ادب، علم، نکتہ فہمی اور نرم مزاح کی فضا میں گُندھی ہوئی محسوس ہوتی۔ وہ کبھی کبھار ایسا لطیف جملہ کہتے کہ پورا ماحول خوشگوار ہو جاتا، مگر اس میں نہ تمسخر ہوتا، نہ تحکمانہ طنز — بلکہ ایک مشفق مسکراہٹ کا احساس ہوتا۔
د فتری امور میں ان کی مہارت نے انھیں ایک خاموش مگر مؤثر ستون بنا دیا تھا۔ ایم سی وی سی شعبے کی پیچیدہ فائلوں، اسکیموں، سرکاری خطوط اور وقتاً فوقتاً بدلنے والی ہدایات کو جس خوش اسلوبی، ترتیب اور قانونی فہم سے وہ سنبھالتے، وہ انہی کا خاصہ تھا۔ مراٹھی ڈرافٹنگ میں ان کی گرفت اتنی پختہ تھی کہ نہ صرف ساتھی اساتذہ بلکہ اکثر اوقات اعلیٰ حکام بھی اُن کے تیار کردہ خطوط اور نوٹسز پر انحصار کرتے۔
ادارے میں کوئی بھی ملازم، جب کسی انتظامی اُلجھن میں پھنستا یا کسی کاغذی کارروائی میں رکاوٹ محسوس کرتا، تو سید صاحب کی طرف رجوع کرنا گویا مسئلے کے حل کی ضمانت ہوتا۔ وہ ہمیشہ دامے، درمے، سخنے ہر ممکن مدد کرتے — چاہے وقت ہو، علم ہو یا ذاتی مشورہ — ان کا دروازہ ہر ایک کے لیے کھلا رہتا۔ اور یہ سب محض رسمی ذمے داری کے تحت نہیں، بلکہ دل کی صفا، نیت کی خیر اور خدمت کے جذبے کے تحت ہوتا تھا۔
تاہم، وہ خوددار مزاج کے آدمی تھے۔ اگر کبھی کسی کے رویے میں مفاد پرستی، وعدہ شکنی یا شکریے سے گریز دیکھتے تو اس پر دل گرفتہ ہو جاتے۔ ان کا جملہ اکثر یاد آتا ہے:
”کام ہونے تک لوگ پاس آتے ہیں، پھر وہی فاصلوں کی دیواریں اُگ آتی ہیں۔”
سید صاحب کی زندگی کا ایک گوشہ جو کم نظر آتا ہے مگر دل پر گہرا اثر چھوڑتا ہے، وہ ان کی سادہ مگر سلیقہ مند گھریلو زندگی ہے۔ وہ شخص جو دفتر میں ادارے کا نظم و نسق سنبھالتا ہے، کاغذات اور فائلوں کی پیچیدگیوں کو ترتیب دیتا ہے، وہی شخص جب گھر آتا ہے تو نرمی، عاجزی اور خاموشی کا مجسمہ بن جاتا ہے۔ ان کی گھریلو سادگی محض ”طرزِ حیات” نہیں، بلکہ ایک وراثت تھی۔
وہ اکثر مسکرا کر سناتے تھے کہ:
”دادا جی فرمایا کرتے تھے: بیٹا! اپنے کپڑوں پر جو داغ لگتے ہیں، اُن کی اصل نوعیت ہم خود بہتر جانتے ہیں، اس لیے دوسروں کے انتظار میں نہ رہو — خود صفائی کی عادت ڈالو۔”
وہ عام طور پر خاموش طبع، تنہائی پسند اور خود کفیل رہے۔ اکیلا پن کبھی ان کے لیے مسئلہ نہیں بنا، بلکہ وہ اپنے اندر کی وسعتوں میں خود کو آباد رکھتے۔
ان کی فکری تربیت میں کئی رفاقتیں شامل رہیں۔ ان میں مرحوم محمد مجید اللہ صاحب کا ذکر خصوصی اہمیت رکھتا ہے — وہ نہ صرف دفتری امور میں صاحبِ رائے اور صاحبِ دل تھے، بلکہ ادب، تہذیب اور خلوص کے ایسے امین، جن کے ساتھ بیتے لمحات آج بھی سید صاحب کے حافظے میں ایک خوشبو کی مانند رچے بسے ہیں۔
ادارے میں بیتا ہوا وقت، کبھی خوشیوں سے لبریز رہا، کبھی ناگواریوں سے آشنا۔ لیکن حبیب الدین صاحب کی مضبوط شخصیت، پختہ اعصاب اور دل سے نکلنے والی خالص نیت نے کبھی انھیں تھکنے نہ دیا۔ اُنہوں نے حالات کی تلخیوں کو کبھی زبان پر نہ آنے دیا، بلکہ اپنے وقار، صبر، اور شعور کی مدد سے ہر آزمائش کو تحمل، دانش اور خامشی سے شکست دی۔
30 جون 2025 کو جب سید حبیب الدین صاحب تدریسی خدمات سے سبکدوش ہوئے، تو یہ رخصت محض ایک سرکاری تقاضا نہ تھی، بلکہ ادارے کی تاریخ سے ایک روشن باب کا ورق پلٹنے جیسا لمحہ تھا — وہ باب جس پر علم و تہذیب کے خوشخط حروف، خلوص و خدمت کی روشن سطریں، اور متانت و مروّت کے ابدی نقوش ثبت ہیں۔
ایسے افراد کی رخصتی دراصل ادارے کی روح میں ایک وقفہ جیسی ہوتی ہے — جہاں کچھ دیر کے لیے وقت بھی رک سا جاتا ہے، اور دیواریں بھی شاید خاموشی سے اُن قدموں کو سلام کہتی ہیں جو برسوں ان پر علم کی چھاپ چھوڑتے رہے۔
سید صاحب کا تعلق اُن گنے چنے افراد سے ہے، جو جب جاتے ہیں تو صرف کرسی خالی نہیں ہوتی، بلکہ ایک اعتبار، ایک روایت، اور ایک دعاؤں بھری فضا بھی ساتھ لے جاتے ہیں۔ لیکن اُن کی اصل کامیابی یہی ہے کہ وہ خود کو ”مکمل ریٹائر” ہونے نہیں دیں گے۔ علم سے رشتہ رکھنے والے کبھی پوری طرح رخصت نہیں ہوتے — وہ نئی شکلوں میں، نئے انداز میں، اور نئی نسلوں میں سانس لینے لگتے ہیں۔
ہمیں یقین ہے کہ سید حبیب الدین صاحب کا سفر یہاں ختم نہیں ہوتا — وہ اپنی سادگی، وقار، مطالعے، تحریر، اور فکر کی روشنی کے ساتھ آگے بڑھتے رہیں گے۔ اُن کے لیے ہماری دعائیں، نیک تمنائیں، اور بے پایاں محبتیں ہمیشہ ہمراہ رہیں گی۔
وہ روشنی جو انھوں نے جلائی، وہ چراغ جو انھوں نے سنبھالا — وہ اب موجودہ اسٹاف کی ذمہ داری ہے۔

 

Shaikh Akram

Shaikh Akram S/O Shaikh Saleem Chief Editor aitebar news, Nanded (Maharashtra) Mob: 9028167307 Email: akram.ned@gmail.com

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے