किया अप भी अपने न्यूज़ पेपर की वेब साईट बनाना चाहते है या फिर न्यूज़ पोर्टल बनाना चहाते है तो कॉल करें 9860450452 / 9028982166 /9595154683

سیاحوں کے بغیر کشمیر،جیسے ساز کے بغیر نغمہ۔۔۔!

تحریر: ایم شفیع میر،جموں وکشمیر

کشمیر، جسے زمین پر جنت کہا جاتا ہے، آج ویرانی کی چادر اوڑھے سوگوار بیٹھی ہے۔ وہ وادیاں جن میں کبھی خوشبوئیں بکھرتی تھیں، قہقہے گونجتے تھے، اور دریا سیاحوں کی ہنسیوں سے سنگیت چھیڑتے تھے، پھول سیاحوں کے چہروں سے مسکراہٹ حاصل کرتے تھے ،آج بے رنگ ہو چکی ہیں۔ خاص طور پر پہلگام کی بیسرن وادی، جو کبھی اپنی خوبصورتی کے باعث ہر دلعزیز تھی، آج بھی ایک ہولناک سانحے کے زخموں کو لیے خاموشی سے بین کر رہی ہے، ایسی وادی جو اپنی گود میں مہمان سیاحوں کو لطف اندوز کرنے میں مشہور تھی آج سیاحوں کے خون سے لت پت اْس وقت لمحے کا ماتم منا رہی جس لمحے میں بیسرن کی وادی پر موت کا ننگا ناچ کھیلا گیا۔
بے شک جب قدرتی حسن سے مالامال پْرسکون مقام پر انسانیت کا خون بہتا ہے تو منظر بے حد تکلیف دہ ہو جاتا ہے۔ کچھ ہفتے قبل بیسرن کی دلکش وادی میں بھی دو درجن سے زائد معصوم سیاحوں کی جان بے رحمی سے لے لی گئی۔ نہ اْن کا کوئی قصور تھا، نہ کسی کا کسی سے دشمنی کا کوئی جواز۔ وہ محض فطرت کے دامن میں چند لمحے سکون کے گزارنے آئے تھے، لیکن سفاکی کے ہاتھوں اْن کی مسکراہٹیں ہمیشہ کے لیے خاموش ہو گئیں۔
بیسرن کی وہ خاموش وادی آج بھی گواہ ہے اْن لمحوں کی، جب خوشیوں سے بھرے قدم ایک نئے سفر کی امید لیے نکلے تھے، مگر وقت نے ایسی کروٹ بدلی کہ ہر مسکراہٹیں چیخوں میں بدل گئیں، پْرسکون لمحے ماتم میں بدل گئے۔ آج بھی بیسرن کی ہواؤں میں وہ سسکیاںسنائی دے رہی ہیں جو ایک بیوی نے اپنے شوہر کے لاشے سے لپٹ کر بھری تھیں۔ درخت، پہاڑ، زمین سب کچھ اْس دْکھ کے بوجھ تلے دبا ہوا ہے۔ بیسرن وادی کا ذرہ ذرہ یہ پوچھتا ہے: یہ ظلم کیوں ہوا؟ وہ لمحہ آج بھی زندہ ہے، وہ زخم آج بھی تر و تازہ ہے۔بیسرن وادی میں پھول کھلے ہیں، مگر پھولوں میں رنگ نہیں، خوشبو نہیں، ندیاں بہتی ہیں مگر بہتی ہوئی ندیوں میں نغمے نہیں خاموشی طاری ہے۔ سورج نکلتا ہے، مگر روشنی میں اْداسی گھلی ہوئی ہے۔
پہلگام سانحہ صرف چند خاندانوں کے لیے نہیں، بلکہ پوری انسانیت پر ایک سوالیہ نشان ہے۔ کشمیر، جو محبت کا پیغام تھا، جو امن کا پیکر تھا، آج دہشت کے سائے میں سہم گیا ہے اور جب سیاح وہاں جانا چھوڑ دیتے ہیں، تو کشمیر صرف جغرافیہ نہیں کھوتا، بلکہ اپنی روح کا ایک حصہ گنوا بیٹھتا ہے۔
سیاحت کشمیر کی رگوں میں دوڑتا ہوا خون ہے۔ جب سیاح آتے ہیں تو مقامی لوگوں کے چولہے جلتے ہیں، ہنر کو پذیرائی ملتی ہیاور بھائی چارے کو ایک نئی زندگی نصیب ہوتی ہے،لیکن آج جب شہر سنسان ہیں، ہوٹل ویران ہیںاور دکاندار اْداس بیٹھے ہیں، تو ایسا لگتا ہے جیسے کشمیر کا دل ہی نکال دیا گیاہو۔
حکومتوں کو چاہیے کہ ایسے سانحات پر صرف مذمتی بیانات نہ دیں، بلکہ ایسے موثر اقدامات کریںکہ کشمیری، سیاح اور پوری دنیا یہ محسوس کرے کہ کشمیر محفوظ ہے، مہمان نواز ہیاور ہر خوشی کا حق دار ہے۔
آخر میں، کشمیر کی خاموش وادیوں سے ایک سوال اٹھتا ہے کب آئیں گے وہ قافلے جو پھر سے زندگی لائیں؟ کب بجیں گے وہ ساز جو وادی کو پھر سے گنگنانے پر مجبور کریں؟ کب کھلیں گے وہ دروازے جن پر ’’خوش آمدید‘‘کے بورڈ ہوں گے، اور دلوں میں خوف نہیں، محبت بسی ہو گی؟بیسرن کی پہاڑیاں اب بھی امید کی نظروں سے آسمان کو تک رہی ہیں… شاید کوئی پھر آئے، اور اس جنت کو جہنم سے بچا لے۔

Shaikh Akram

Shaikh Akram S/O Shaikh Saleem Chief Editor aitebar news, Nanded (Maharashtra) Mob: 9028167307 Email: akram.ned@gmail.com

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے