किया अप भी अपने न्यूज़ पेपर की वेब साईट बनाना चाहते है या फिर न्यूज़ पोर्टल बनाना चहाते है तो कॉल करें 9860450452 / 9028982166 /9595154683

سوگ اور تعزیت -اسلامی نقطۂ نظر

تحریر: مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ،پٹنہ

اس دنیا میں جو آیا ہے اسے ایک نہ ایک دن مرنا ہے اس میں کسی کی تخصیص نہیں،سب کاایک دن مقرر ہے اور مقررہ وقت آجانے پر سیکنڈوں بلکہ پلک جھپکنے تک کی تاخیر نہیں ہوتی ہے اور انسان اس دنیا کوچھوڑکر چلاجاتاہے،اللہ رب العزت کاارشادہے:ہرنفس کوموت کامزہ چکھناہے اوریہ بھی کہ جب اللہ کی جانب سے وقت آجائے تو اس میں تاخیر نہیں ہوتی؛اس لئے طاقت و قوت،جاہ و منصب،عظمت وشوکت اورکسی کی سفارش سے اسے روکانہیں جاسکتا،موت ایک ایسی حقیقت ہے جو بدیہی ہے اور اس کے لئے کسی دلیل وبرہان کی ضرورت نہیں، یہ روزمرہ کا مشاہدہ ہے، جسے جھٹلایانہیں جاسکتا۔
جانے والے کے جانے کے بعد جو اعزواقرباء دوست واحباب رہ جاتے ہیں ان کیلئے جدائی کاصدمہ بڑا شاق ہوتاہے، اس صدمہ میں لوگ روتے چلاتے ہیں، آہ وبکا کرتے ہیں، گریباں چاک کرتے اور مردہ کی خوبیاں بیان کرکے روتے ہیں پھر ان غمزدہ خاندان کو دلاسہ دینے کے لئے لوگ یاد آتے ہیں اور ہمدردی کے کلمات کہہ کر تسلی دیتے ہیں۔
شریعت میں تعزیت اور سوگ منانے کے بھی کچھ اصول بیان کئے گئے ہیں، سوائے شوہر کے کسی کی موت پر تین دن سے زیادہ سوگ منانا جائزنہیں ہے؛ البتہ شوہر کے انتقال پر چارماہ دس دن سوگ مناناجائز ودرست ہے، سوگ چاہے سہ روزہ ہو یا چار ماہ دس دن، دونوں میں چیخنے،چلانے،کہرام مچانے اور مردہ کے حالات بیا ن کرکے گریہ وزاری کرنا درست نہیں ہے،اسی طرح غم میں کپڑا پھاڑنا،گریبان چاک کرنا، سیاہ کپڑا پہننا،چہرے کونوچنا، سرپر مٹی ڈالنا، سینہ پیٹنا،بالوں کو بکھیرنا یہ سب غیر شرعی عمل ہیں،جس سے اجتناب کرناضروری ہے، عورت بھی اپنے شوہر کی موت پر یہ سب نہیں کرسکتی،، صرف زیب وزینت،آزائش و زیبائش ترک کرکے اپنے سوگ اورغم کا اظہار کرے گی۔ بخاری شریف کی روایت ہے:جو شخص چہرے پر طمانچہ مارے،گریبان چاک کرے اور جاہلانہ انداز میں نعرہ بازی کرے وہ ہم میں سے نہیں۔(صحیح بخاری:1-173)عرب میں نوحہ کرنے کے لئے مستقل عورتیں بلائی جاتی تھیں،وہ ان کا پیشہ تھا،جس طرح آج کل رقاصائیں بلائی جاتی ہیں،آقاﷺ نے ارشاد فرمایا کہ نوحہ کرنے والی عورت نے اگر توبہ نہیں کیاتوقیامت کے دن اس حال میں کھڑی کی جائیں گی کہ ان کے اوپر تارکول اور خارش کاقمیص ہوگا۔(المسلم1/3 رقم 934) اللہ کے رسول ﷺ نے نوحہ کرنے والی اور نوحہ سننے والی عورتوں پر لعنت فرمائی ہے۔(ابودؤد2/446،رقم:3128) اس طرز سے غم کے اظہارکا ایک بڑا نقصان یہ بھی ہے کہ اس کی وجہ سے مرد ے پر پرعذاب ہوتاہے۔مسلم شریف کی روایت ہے کہ جس میت پر نوحہ کیاجاتاہے تو اس نوحہ کے سبب مردے کوقیامت کے دن عذاب دیاجائے گا۔(صحیح بخاری:1/174،رقم: 1277) وجہ اس کی یہ ہے کہ اس نے اپنے بعدرہنے والوں کی ایسی تربیت کیوں نہیں کی کہ وہ اس عمل سے باز رہتے یا پھر اس نے نوحہ سے روکنے کی وصیت کیوں نہیں کی۔اس روایت کی بعض دوسری تاویلات بھی اہل علم سے منقول ہیں۔
اس کا مطلب قطعاً یہ نہیں ہے کہ مرنے والے کے غم میں آنسو نہ بہایاجائے،غم کے موقع پرآنکھوں کا آنسوؤں سے بھرآنا، قلب کا بے چین ہوناا فطرت انسانی ہے،اسلام دین فطرت ہے، اس لیے وہ فطری ا عمال پر روک نہیں لگاتا؛بلکہ اس پر نکیر بھی نہیں کرتااللہ کے رسول ﷺ کے صاحب زادہ حضرت ابراہیم ؓکے انتقال کے وقت خود آپ کی آنکھوں سے آنسو بہہ رہے تھے، حضرت عبدالرحمن بن عوف ؓ نے عرض کیاکہ یارسول اللہ ﷺ آپ بھی روتے ہیں آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا:میری آنکھیں آنسوبہاتی ہیں،دل غمگین ہے؛لیکن ہم وہی کہتے ہیں جسے ہمارا رب پسند فرماتاہے۔(البخاری:1/174)اسی طرح جب حضرت زینب ؓکے صاحب زادہ کا انتقال ہواتوآپ نے انہیں گود میں لیااور آپ کے آنکھوں سے آنسو جاری ہوگئے،حضرت سعد بن عبادہ ؓ نے عرض کیا کہ یارسول اللہ آپ بھی روتے ہیں،فرمایا یہ رحمت اور نرم دلی ہے،جسے اللہ رب العزت نے اپنے بندے کے دلوں میں رکھی ہے، اللہ رب العزت انہیں بندوں پر رحم فرماتاہے جو رحم دل ہوتے ہیں۔(مسلم:1/30/923)جولوگ عزیز واقارب کی موت پر صبر کرتے ہیں ان کے لئے اللہ رب العزت فرشتوں کو حکم دیتے ہیں کہ ان کے لئے جنت میں ایک گھر بنایاجائے اور اس کانام بیت الحمدرکھاجائے۔(ترمذی:1/198)
میت کے عزیز واقارب کوتسلی دینا، صبر کے کلمات کہنا،ان کے سامنے صبر کے فضائل بیان کرنا کار ثواب ہے،اسی کو تعزیت اور ہمارے علاقے میں ”پرُسا“کہتے ہیں چوں کہ سوگ عام مُردوں پر صرف تین دن ہے، اس لئے مرنے والے کے اعزواقرباسے تعزیت کرناتین دن ہی سنت ہے، اس سے زیادہ نہیں ہے،پھرچوں کہ تعزیت کرنے والاصبر کی تلقین کے لئے گیاہے؛اس لئے وہ خود رونانہ شروع کردے،رونا آوے تو بھی برداشت کرے؛ چونکہ تعزیت کرنے والا جب رونے لگتاہے تو اہل خانہ کاغم اور تازہ ہوجاتاہے،تعزیت کرنے والا تو ایک بار روتاہے اوراہل خانہ کوہررونے والے کے ساتھ روناہوتاہے،اس لئے تعزیت کرنے والے کو پہلے اپنے دل پر صبر کی موٹی سِل رکھنی چاہئے پھر تعزیت کرنی چاہئے، بعض مخصوص حالت میں اگر تعزیت کرنے والا دور ہویا موقع پر موجود نہ ہوتو اس خاص صورت میں تین دن کے بعد بھی صبر کے کلمات کہے جاسکتے ہیں؛ البتہ تعزیت کرنے والوں کی وجہ سے تین دن کے بعد بھی سوگ میں بیٹھے رہنے کی گنجائش نہیں ہے۔
تعزیت کے وقت مرنے والے کے لئے مغفرت کی دعااور پس ماندگان کو صبر کی تلقین کرنی چاہئے،اس سلسلے میں سب سے اچھاجملہ وہ ہے جو آقاﷺ نے اپنے نواسہ حضرت زینبؓ کے صاحبزاہ کے انتقال کے وقت فرمایاتھا۔”للّٰہ ماأخد ولہ ماأعطی وکل شیئ عندہ بأجل مسمیٰ“۔(مسلم 1/30رقم 923) یعنی اللہ ہی کاتھا جو اس نے لے لیا اوراللہ ہی تھا جواس نے عطاکیاتھا، اللہ کے یہاں ہر چیز کاایک وقت متعین ہے، تعزیت کایہ عمل عام ہے مشرک پڑوسی بھی مرجائے تواس کے اہل وعیال سے تعزیت کی جائے؛البتہ مغفرت کاجملہ نہ کہاجائے، اس لئے کہ کفر کے ساتھ مرنے پر مغفرت کی دعاکاکوئی معنی ومطلب نہیں۔
تعزیت کرنے سے مرنے والے کے اعزواقرباکوتوتسکین ہوتی ہی ہے، خود تعزیت کرنے والے کوبھی اس کا ثواب ملتا ہے، اسے قیامت میں عزت وتکریم کے جوڑے پہنائے جائیں گے اور مصبیت زدہ کے بقدر اس کوثواب دیاجائے گا،جس گھر میں میت ہوگئی ہوا ن کے یہاں اتناکھانا بھیجنا کہ وہ ایک دن رات شکم سیرہو کر کھاسکیں بہتر ہے؛ البتہ کسی پر بارنہ ہو، اس کاخیال ضروررکھناچاہئے، مہمانوں کی کثرت کو دیکھ کر بعض جگہ کئی گھروں سے کھاناآتاہے اس میں بھی کوئی مضائقہ نہیں،اگر کوئی خود اپنے گھر ہی کھانا بناکر لوگوں کوکھلادے یاگھر والوں کوکھلائے تواس کابھی برا نہیں ماننا چاہئے، اصل میں دوسرے گھر سے کھاناآنے یا پڑوسیوں کی جانب سے کھانابھیجنا گھروالوں کے غم زدہ ہونے کی وجہ سے ہے،غم کی حالت میں بھی اکرام ضیوف کاحکم باقی رہتا ہے اس لئے جس قدر ممکن ہوان کاخیال رکھناچاہئے۔
بعض جگہوں پرجنازہ میں آنے والے چہارم،دسوا ں،بیسواں کے انتظار میں بیٹھے رہتے ہیں ایک تویہ خود ہی رسم ہے جو شریعت کی نظر میں درست نہیں ہے،مہمانوں کوبھی چاہئے کہ وہ غم کی اس گھڑی میں میت کے گھروالوں پر بوجھ نہ بنیں،تجہیز وتکفین کے بعداپنی راہ لیں ہاں اگر کوئی ایسا شخص ہے جس کے رک جانے سے گھروالوں کاغم ہلکا ہویاانہیں راحت ملے توضرور رکناچاہئے،بے ضرورت بھیڑ لگائے رکھناپسندیدہ عمل نہیں ہے۔
بعض لوگ ہندؤوں کی طرح مرنے والے کے سارے کپڑے غرباء کودیدیتے ہیں،اسی طرح گھر میں جوغلہ ہے اسے قبرستان پر لے جاکر بانٹتے ہیں۔
مرنے والے کے کپڑے اور چھوڑے ہوئے غلہ سب میں وارثوں کاترکہ متعلق ہوتاہے،اس لیے کسی ایک شخص کاایساکرنا درست نہیں؛ البتہ اگر سارے ورثاء اجازت دیں جس میں کوئی نابالغ نہ ہو توایساکرنا درست ہوگا،لطیفہ یہ ہے کہ کپڑے تو ثواب کی نیت سے فقراء وغرباء میں تقسیم کردیتے ہیں لیکن مرنے والے یاوالی کی ہاتھ کی گھڑی،ناک و کان کے زیورات،انگوٹھیاں کوئی غریب کونہیں دیتا؛ بلکہ جس کے ہاتھ لگاوہ ٹپادیتاہے۔یہ بدترین عمل ہے کیوں کہ ان تمام چیزوں میں میت کے ورثاء کاحق متعلق ہے اگر وہ ایک سوئی چھوڑ کر گیاہے تووہ کسی ایک کی ملکیت نہیں ہے۔
اسی طرح زمین وجائداد میں بھی وارثین مذکر ومونث سب کاحق ہے دیکھایہ جارہاہے کہ ماں اپنی لڑکی کا اور بھائی اپنی بہنوں کاحصہ جبراًہڑپ کر جاتے ہیں،ماں بیٹے کی طرف داربن جاتی ہے اور بیٹیوں کاحصہ نہ خود دیتی ہے اورنہ بیٹیوں کودینے کی تلقین کرتی ہیں،ایسی مائیں اور بھائی چاہے جس قدر بھی متقی ہوں اورجتنا دعوت و تبلیغ کاانہوں نے کام کیاہو،اس عمل کی وجہ سے وہ قیامت میں اللہ کے عذاب سے بچ نہیں سکتے؛کیوں کہ یہ حقوق العباد اور اللہ کے مقرر کردہ حدود ہیں،اس میں جو کوتاہی کرے گادردناک عذاب قیامت میں پائے گا،جن لوگوں کو اللہ نے اب بھی موقع دے رکھا ہے وہ اپنی بہن اور بیٹیوں کاحق پائی پائی اداکردیں کہ یہ ان کے لئے دنیا اور آخرت میں فو ز وفلاح کاذریعہ ہے۔

Shaikh Akram

Shaikh Akram S/O Shaikh Saleem Chief Editor aitebar news, Nanded (Maharashtra) Mob: 9028167307 Email: akram.ned@gmail.com

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے