किया अप भी अपने न्यूज़ पेपर की वेब साईट बनाना चाहते है या फिर न्यूज़ पोर्टल बनाना चहाते है तो कॉल करें 9860450452 / 9028982166 /9595154683

سماج کے کمزور طبقات کیلئے فاصلاتی تعلیم کی ضرورت و اہمیت

تحریر: ڈاکٹرمرضیہ عارف

ہندوستان کا محکمہ تعلیم دنیا کا دوسرا بڑا اور ہمہ گیر تعلیمی نظام ہے جس کے تحت ۲۰ کروڑ سے زیادہ اسکول کام کررہے ہیں اور کوئی ۱۸ لاکھ بستیاں ہیں ، جہاں ایک کلو میٹر کے فاصلے پر پرائمری اسکول قائم ہیں اور اُن سے ہر سال لاکھوں شہری تعلیم یافتہ بن رہے ہیں مگر یہ تصویر کا ایک رُخ ہے ، دوسرا رُخ ہمیں بتاتا ہے کہ پہلی کلاس میں داخلہ لینے والے ہر تین بچوں میں سے دو بچے آٹھویں کلاس تک پہنچتے ہی اپنی تعلیم ترک کر دیتے ہیں اور بعض بچّے دوسرے کلاس میں داخل ہونے سے پہلے ہی اسکول چھوڑ جاتے ہیں۔
اقوامِ متحدہ کے ادارے یونیسیف کی رپورٹ کے مطابق ۲۱ویں صدی میں داخلہ کے وقت ہندوستانی قوم کی ۳۰ فیصد تعداد ناخواندہ تھی اور اس ناخواندہ آبادی کا دو تہائی حصّہ عورتوں پر مشتمل تھا، کیونکہ پرائمری اسکول میں داخلہ لینے والے ہر تین بچوں میں سے صرف ایک بچی ہوتی ہے ، اِس کا مطلب یہ ہوا کہ والدین عموماً لڑکیوں کی تعلیم کو اہمیت نہیں دیتے اور اسکول میں داخلہ لینے والی لڑکیاں عام طور سے چند کلاسوں کے بعد تعلیم کا سلسلہ ختم کر دیتی ہیں ، اسکولوں میں جانے والے طلباء کی تعداد اب بڑھتے بڑھتے ساڑھے چار کروڑ ضرور ہوگئی ، لیکن تشویشناک پہلو یہ ہے کہ اِتنے ہی بچے آج اسکولوں سے باہر ہیں، یہ ہمارے تعلیمی نظام کے لئے ایک سنجیدہ مسئلہ ہے اور اُس سے بھی زیادہ فکر کی بات یہ ہے کہ قومی تعلیم کے معیار کو بہتر بنانے میں اب تک گہری غفلت برتی گئی ہے، ریاست کیرالہ جو پورے ملک میں خواندگی کے لحاظ سے سب سے آگے ہے وہاں بھی تعلیمی معیار قابل اطمینان نہیں ہے ۔ درسی کتابوں کی ترتیب و اشاعت پر کروڑہا روپے سالانہ خرچ کئے جارہے ہیں ، اِس کے باوجود تعلیم کے مقصد کی تکمیل نہیں ہورہی ہے بلکہ یہ کہا جائے تو غلط نہ ہوگا کہ ملک میں تعلیمی سہولتوں کی قابلِ لحاظ توسیع کے باوجود ’’سب کے لئے تعلیم ‘‘ کا مقصد اب تک ایک خواب ہے ، دیہی اور شہری علاقوں کی آبادی کے ایک بڑے طبقے کو بنیادی ، ثانوی اور اعلیٰ تعلیم کی سہولتیں میسر نہیں اور جو کچھ ہیں وہ بھی طلباء کی روز افزوں تعداد کے لحاظ سے کافی کم ہیں ۔
ایک اندازے کے مطابق ملک میں روایتی تعلیم کے موجودہ نظام کے تحت آبادی کے صرف ۱۵ فیصد حصہ کو ہی تعلیمی سہولتیں دستیاب ہیں ، یونیورسٹیوں کو میسر وسائل کی غیر معمولی قلت کی وجہ سے مسائل مزید پیچیدہ ہوگئے ہیں ، تعلیم کے خواہشمندوں کی تعداد اور تعلیمی سہولتوں کی کمی سے مختلف بدعنوانیاں پنپ رہی ہیں۔ رشوت ، سفارش اور سیاسی دبائو نے کمزور طلباء کے لئے روایتی طریقہ تعلیم حاصل کرنا ناممکن نہیں تو دشوار ضرور بنا دیا ہے اور اِسی لئے تعلیم کے ایک ایسے متبادل نظام کی ضرورت محسوس ہورہی ہے جو تمام لوگوں کو تعلیم یافتہ بنا سکے ، وہ ہے غیر رسمی تعلیم جس کو مراسلاتی تعلیم ، ہوم اسٹڈی (گھر پر تعلیم)، آزاد تعلیم ، اُوپن لرننگ، ایکسٹرنل اِسٹڈی وغیرہ ناموں سے پکارا جاتاہے ۔ اِس نظام تعلیم کا تعلق ان تمام تعلیمی پروگراموں سے ہے جو ایک اسکول یا کالج کے طالب علم کو امتحان میں شرکت کرنے کااہل بناتا ہے ، نیز تعلیمی اداروں کے باقاعدہ کلاسوں میں شامل ہوئے بغیر اُن میں تعلیم کی لیاقت پیدا کرتا ہے ، اِس کے علاوہ غیر رسمی تعلیم کے طلباء کو مضامین کے انتخاب اور اُن کے مطالعہ کے لئے مواقع بھی فراہم کرتا ہے ۔
مراسلاتی نصاب یعنی (ڈسٹنسن ایجوکیشن ) کے ذریعہ حاصل کی جانے والی تعلیم کے بارے میں عام طور پر یہ تصّور پایا جاتا ہے کہ وہ معیاری نہیں ہوتی یا پرائیویٹ طلباء علم کے حصول میں سنجیدگی کا مظاہرہ نہیں کرتے ، لیکن دنیا میں اور ہمارے ملک میں جس تیزی کے ساتھ اِس طریقہ تعلیم کو فروغ حاصل ہورہا ہے اس کو دیکھتے ہوئے اب اس بارے میں لوگوں کے شکوک و شبہات ختم ہورہے ہیں ، سرکار کی طرف سے بھی یہ یقین دہانی کرائی گئی ہے کہ طلباء فاصلاتی نصاب کے ذریعہ جو تعلیم حاصل کررہے ہیں وہ معیاری ہے جبکہ یونیورسٹی گرانٹ کمیشن کا تو یہ کہنا ہے کہ رسمی تعلیم کے مساوی فاصلاتی تعلیم کی اسناد کو وزن ومقام حاصل ہے ۔
فاصلاتی تعلیم کا آغاز آج سے ایک سو اسّی سال پہلے ۱۸۴۰ء میں اسحاق پٹ مین کے شارٹ ہینڈ کورسیز سے ہوا تھا ، لیکن غیر رسمی تعلیم کے میدان میں اِس کا عام رواج ۱۸۶۹ء کے دوران انگلینڈ میں ملٹن کینز میں اوپن یونیورسٹی کے قیام کے بعد ہوا اور آج پوری دنیا میں اِس غیر رسمی تعلیم کے ۷۸۰ ادارے کام کررہے ہیں جن میں ڈھائی کروڑ طلباء کا رجسٹریشن ہے۔
ہندوستان میں یہ تعلیمی نظام سب سے پہلے ۱۹۶۲ء میں دہلی یونیورسٹی سے شروع ہوا ، ڈاکٹر ڈی ایس کوٹھاری کی زیر صدارت قائم کئے گئے تعلیمی کمیشن (۶۶۔۱۹۶۴) کی سفارشات پر پنجاب ، میرٹھ اور میسور میں مراسلاتی تعلیم کے مراکز قائم ہوئے ۔ اِس سلسلہ کی اہم پیش رفت ۱۹۸۲ ء میں حیدرآباد کی آندھرا اوپن یونیورسٹی کے قیام کی صورت میں ہوئی ، اِس کے بعد ۱۹۸۵ء میں اندرا گاندھی نیشنل اوپن یونیورسٹی (اگنو) ۱۹۸۷ء میں کوٹہ اوپن یونیورسٹی ، ۱۹۹۲ میں مدھیہ پردیش کی بھوج اوپن یونیورسٹی اور مولانا آزاد نیشنل اُردو نیورسٹی ۲۰۰۲ء کے لیے ترغیب ملی آج ملک کی ۵۰ یونیورسٹیاں غیر رسمی تعلیم کا پروگرام چلا رہی ہیں جن میں برکت اللہ یونیورسٹی بھوپال شامل ہے، اِس کا شعبہ فاصلاتی نصاب ۱۹۷۵ء سے مختلف کورسوں کا امتحان لے رہا ہے اور اب تک دس لاکھ طلباء یہاں سے مختلف کورسوں میں داخلے لے چکے ہیں اور فارغ ہوکر سرگرم زندگی میں مؤثر رول ادا کررہے ہیں۔ فی الوقت بی اے بی کام ، ایم اے ، لائبریری سائنس، مینجمنٹ کے کورسیز اور ڈپلوما سائیکلو لاجی کونسلنگ پر مشتمل کورسیز یہاں چل رہے ہیں ۔
آج ملک کی چودہ کھلی (اُوپن) یونیورسٹیاں صرف فاصلاتی تعلیم کے لئے مخصوص ہیں، جن میں اِگنو کو مرکزی حیثیت حاصل ہے اور یہ بین الاقوامی سطح کی یونیورسٹی بن گئی ہے ۔
دیگر اُوپن یونیورسٹیاں اگنو کے نقشِ قدم پر چل رہی ہیں اور اگر یہ دعویٰ کیا جائے تو مبالغہ نہ ہوگا کہ اگنو آج دنیا کی سب سے بڑی یونیورسٹی شمار ہوتی ہے ۔جس میں ۲۵۰ تعلیمی پروگرام چل رہے ہیں اور سب کا اپنا ایک مقام ہے، اِس کے ماتحت ۳۶ تعلیمی مرکز سرگرم عمل ہیں ، جن کی ڈگریاں ، ڈپلوما اور سرٹیفکٹ اے آئی یو کی تمام ممبران یونیورسٹیوں کے ذریعہ منظور شدہ ہیں۔
جہاںتک فاصلاتی تعلیم میں اُردو کی نمائندگی کا سوال ہے تو جامعہ اردو علی گڑھ کواس میں اولیت حاصل ہے۔ اس کے ادیب، ادیب ماہر اور ادیب کامل کے امتحانات عرصۂ دراز تک بہت مقبول رہے۔ دوسری طرف ملک میں گریجویشن اور پوسٹ گریجویشن کی سطح پر تقریباً ۲۰ یونیورسٹیوں میں اُردو زبان و ادب کی تدریس دو طریقوں سے ہورہی ہے، ایک تو یہ کہ طلباء اردو کو بطور ذریعہ تعلیم (میڈیم)کے اختیار کئے ہوئے ہیں یا پھر اُردو کو ایک مضمون کے طور پرپڑھ رہے ہیں، لیکن ایسے طلباء میں بیشتراردو کو روزگار سے مربوط زبان نہیں مانتے اور اُنہیں یہ خوف دامن گیر رہتا ہے کہ اُردو میڈیم سے ڈگری کے حصول کے بعد روزگار ملے گا یا وہ نا اہل مانے جائیں گے ۔
اِس نفسیاتی تذبذب کو دور کرنے کے لئے ضروری ہے کہ اُردو میں ایسے فنّی اور پیشہ وارانہ کورسیز شروع کیے جائیں، جن سے طلباء کو روزگار کے حصول میں آسانی ہو ۔ اِس تعلق سے جب ہم مولانا آزاد نیشنل اُردو یونیورسٹی حیدرآباد پر نظر ڈالتے ہیں تو وہ اندھیری رات میں روشن مینارہ کی طرح نظر آتی ہے، یہ ہندوستان کی پہلی قومی اُردو یونیورسٹی ہے ، جسے روایتی اور فاصلاتی دونوں طریقہ تعلیم کا اختیار دیا گیا ہے اور اِس کے ذریعہ جہاں جدید علوم و فنون کی تعلیم کا منضبط نظام چلایا جارہا ہے ، وہیں اِس کے وسیلہ سے طلباء کی بڑی تعداد گھر بیٹھے ڈگری یافتہ بن رہی ہے، خاص طور پر پیشہ ورانہ اورتکنیکی تعلیم سے لیس ہوکر وہ روزگار کے حصول کی دوڑ میں شامل ہو رہی ہے۔ تغیر پذیر معاشرہ میں تبدیلی کی یہ لہر اور تیز ہوگی ، گلوبلائزیشن کے موجودہ دور میں جیسے جیسے نوکریوں کا دائرہ محدود ہورہا ہے یا ریزرویشن کو بوجھ مانا جارہا ہے تو مادری زبان میں تعلیم پانے والوں کا مستقبل تابناک نظر آرہا ہے ۔
یہ حقیقت بھی ذہن میں رہے کہ آج ہندوستان میں فاصلاتی تعلیم کا نیٹ ورک اتنا وسیع ہوگیا ہے کہ اِس نظام کے اداروں سے استفادہ کرنے والے طلباء کی تعداد پچاس لاکھ کے قریب پہنچ گئی ہے ،جو اعلیٰ تعلیم سے داخل طلباء کا ۱۹ء۳۰ فیصد ہے ، جوطلباء فاصلاتی نظام تعلیم کے ذریعہ اعلیٰ تعلیم حاصل کررہے ہیں ، وہ اُن طلباء سے زیادہ متحرک ہیں ، جو کالجوں میں ریگولر کورسیز سے روایتی تعلیم پارہے ہیں، اِس لئے ترقی یافتہ ممالک میں اُنہیں زیادہ قدر و قیمت کی نظر سے دیکھا جاتا ہے کیونکہ یہ نظام تعلیم پسماندہ طبقہ کو اوپر اٹھانے میں لگا ہوا ہے ، لہٰذا اِس کا رول اہم ہے ، اِس پر جولاگت آتی ہے ، وہ روایتی تعلیم کے مقابلہ میںنصف سے بھی کم ہے اور اِس سے استفادہ کرکے لڑکیاں اور عمر رسیدہ خواتین سماج کے مختلف شعبوں میں پیش رفت کر سکتی ہیں جیسا کہ قومی تعلیمی پالیسی کے بارے میں سرکاری رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ موجودہ صورتِ حال میں حکومت اپنی آبادی کے نصف حصّہ کے لئے جس میں دو تہائی لڑکیاں شامل ہیں، تعلیم کا موثر نظم نہیں کرسکتی ، اِس لئے مذکورہ غیر رسمی تعلیم کے بندوبست سے تعلیمِ نسواں کی اِس کمی کو دور کیا جاسکتا ہے ۔

Shaikh Akram

Shaikh Akram S/O Shaikh Saleem Chief Editor aitebar news, Nanded (Maharashtra) Mob: 9028167307 Email: akram.ned@gmail.com

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے