किया अप भी अपने न्यूज़ पेपर की वेब साईट बनाना चाहते है या फिर न्यूज़ पोर्टल बनाना चहाते है तो कॉल करें 9860450452 / 9028982166 /9595154683

سقوط حیدرآباد تاریخ کے آئینے میں

تحریر:مفتی محمد احمد خان قاسمی
(امام وخطيب مسجد قریشہ بارہ امام منیار گلی ناندیڑ)
8605132315

نظام الملک حیدرآباد جنہیں عموماً نظام دکن کے نام سے بھی جانا جاتا تھا اور (جانا جاتا ہے) 1724ءسے1948ءتک قائم ریاست حیدرآباد کے حاکموں کو کہاجاتا تھا مغلیہ سلطنت 1526ءسے 1857ء تک بر صغیر پر حکومت کرنے والی ایک مسلم سلطنت تھی، جس کی بنیاد ظہیر الدین بابر نے 1556ء میں پہلی جنگ پانی پت میں دہلی سلطنت کے آخری سلطان ابراہیم لودھی کو شکست دے کر رکھی تھی. مغلیہ سلطنت اپنے عروج میں تقریباً پورے برصغیر پر حکومت کرتی تھی، یعنی موجودہ دور کے افغانستان، پاکستان، بھارت، اور بنگلہ دیش کے ممالک پر مشتمل خطے پر ان کا دور دورہ تھا. اسی مغلیہ سلطنت کے زوال کے بعد مسلمانوں کی جو خود مختار ریاستیں بر صغیر میں قائم ہوئیں ان میں سب سے بڑی اور طاقت ور ریاست حیدرآباد دکن کی مملکت آصفیہ تھی.
حیدر آباد:
حیدرآباد بھارت کی ریاست تلنگانہ کا دارالحکومت اور صوبہ کا سب سے بڑا شہر ہے دریائے موسی کے کنارے واقع اس شہر کا کل رقبہ 650 مربع کلومیٹر (250 مربع میل) ہے سطح سمندر سے 542میٹر 1778 فٹ کی اونچائی پر واقع یہ شہر کئی پہاڑوں اور تالابوں سے مالا مال ہے. شہر کا مشہور حسین ساگر حیدر آباد کی تاسیس سے بھی پرانا ہے اور یہ بھارت کا چھٹا بڑا میٹرو پولیٹن شھر ہے. جہاں چاند منیار جیسی عظیم چیز ہے، تو دوسری طرف حسین و جمیل تاریخی جامعہ مسجد ہے. اولیاء اللہ کی یہ زمین معاشی اعتبار سے بھی بڑی مالدار زمین ہے ،جس کی معیشت کی کل مالیت 74 بلین امریکی ڈالر ہے اور اس لحاظ سے یہ بھارت کی پانچویں بڑی شہری معیشت ہے.
مملکت آصفیہ:
اس مملکت کے بانی نظام الملک آصف جاہ تھے چنانچہ اسی نسبت سے اس ریاست کو مملکت آصفیہ یا آصف جاہی مملکت کھاجاتا ہے، آصف جاہی مملکت کے حکمرانوں نے کبھی بادشاہت کا دعویٰ نہیں کیا، وہ نظام کہلاتے تھے اور جب تک آزاد رہے مغل بادشاہ کی بالادستی تسلیم کرتے رہے، انہی کے نام کا خطبہ اور سکہ جاری رہا اور مسند نشینی کے وقت انہی سے فرمان حاصل کرتے تھے، اس لحاظ سے دکن کی مملکت آصفیہ در اصل مغلیہ سلطنت ہی تھی جو دہلی کے زوال کے بعد دکن میں منتقل ہوگئی تھی، اور جس کو میر قمرالدين صدیقی نے قائم کی تھی جنہوں نے 1725ء آصف جہاں کا لقب اختیار کیا تھا اور خود مختار ہوگئے تھے، اور آپ کی قائم کردہ حکومت 1725ء سے 1948ء تک قائم رہی اور 17 ستمبر 1948ءکو ہندوستانی فوجوں نے خون کا کھیل کھیل تے ہوئے اور مسلمانوں کی جان ومال اور عزت وآبروں کو نقصان پہنچاتے ہوئے نظام کی حکومت کو ختم کیا جس کو مملکت آصفیہ کھا جاتا تھا.
سقوط حیدرآباد کا پس منظر:
مملکت آصفیہ سیاسی طور پر مکمل اس پر آصف جاہی حکمرانوں کا اقتدار تھا. 1919ء سے انتظام مملکت میں ایک نئے نظم ونسق کا آغاز ہوا. 1927ء کے آس پاس مجلس اتحاد المسلمین، کا قیام عمل میں آیا، جس کے ساتھ ساتھ آریہ سماج، ہندو مہاسبا، اور حیدرآباد اسٹیٹ کانگریس، بھی وجود میں آئیں اور مملکت میں فرقہ وارانہ سیاست فروغ پانے لگی. ادھر انگریزوں سے طویل جنگ کے بعد ہندوستان آزاد ہوگیا اور ملک تقسیم ہوا اور پاکستان وجود میں آیا. چنانچہ حیدرآباد کے ہندو اکثریتی اور سیاسی اور فرقہ پرست جماعتوں نے مطالبہ شروع کر دیا کے حیدرآباد میں بھی جمہوری حکومت قائم کی جائے اور ریاست حیدرآباد کو ہندو یونین (بھارت) میں انظمام کیا جائے. بھارت کی حکومت انڈین نیشنل کانگریس اور حیدرآباد اسٹیٹ کانگریس اور دیگر ہندو جماعتوں کو دعویٰ یہ تھا کہ جمہوری دور میں اکثریت پر اقلیت کی بالادستی جائز نہیں. اس بنیاد پر وہ حکومت حیدرآباد (مملکت آصفیہ) سے غیر مشروط طور پر بھارت میں شمولیت پر اسرار کرتی رہیں، ان کے مقابلے میں حیدر آباد کے مسلمانوں کا یہ مطالبہ تھا کے حیدرآباد بھارت اور پاکستان دونوں سے علاحدہ رہے اور ایک آزاد اور خودمختار مملکت کی حیثیت سے جنوبی ایشیاء میں اپنے نئے دور کا آغاز کرے. لیکن اگست 1948ء سے ہندو تحریکوں اور سازشوں کے نتیجے میں اور بھارتی حکومت کی سرپرستی میں مملکت آصفیہ کے سرحدی علاقوں میں مسلمانوں کے خلاف سخت ہنگامے شروع ہوگئے اور مسلمان آبادیوں پر مسلح ہندوؤں، اور بھارتی فوج کے حملے وقتاً فوقتاً ہونے لگے اور اچانک بھارت کی فوج نے بیک وقت پانچ محاذوں پر بڑے بڑے پیمانے پر حملہ شروع کردیا 12 اور 13 ستمبر کی رات میں. اور اس حملہ میں بھارتی فضائیہ نے بھی حصہ لیا اور بیدر ورنگل کے ہوائی اڈوں پر زبردست بمباری کی، اور اسے پولس ایکشن کا نام دیا اور اس پانچ سے چھ دن کی لڑائی میں دکن کے کئی علاقوں میں اور مراٹھواڑے کے بعض علاقوں میں بے انتہا ظلم وستم کیا گیا، مؤرخین کے مطابق آپریشن پولو کے نام پر اس وقت دو لاکھ مسلمانوں کو شہید کیا گیا تھا، اور نوجوان لڑکیوں اور خواتین کی عزت لوٹی اور ظلم وبربریت کی انتہا کی گئی چنانچہ 18 ستمبر کو حکومت حیدر آباد کی ہدایت پر حیدرآبادی فوج نے ہتھیار ڈال دیئے، اس طرح دکن میں مسلمانوں کی چھ سو سالہ حکومت قابل رشک اور قابل فخر حکومت کا خاتمہ ہوگیا.
ملک کی موجودہ حکومت:
ملک میں موجود بی جی پی حکومت آصف جاہی سلطنت کو ظلم وستم سے تعبیر کرتی ہے اور یہ بیان کرتی ہے کہ اس حکومت میں رعایا پر ظلم وستم ڈھایا جاتا تھا، اور یہاں کی عوام حکومت سے پریشان تھی، بالخصوص ہندو طبقہ انتہائی ظلم کا شکار تھا. یہ تمام کی تمام باتیں جھوٹ پر مبنی ہے، اور عوام کو گمراہ کرنے کے لئے پہلائی جارہی ہے آصف جاہی سلطنت میں تمام رعایا خوش حال تھی، اور کسی بھی طبقے سے تعلق رکھنے والے افراد پر کوئی ظلم نہیں ڈھایا جاتا تھا اور عوام ہر اعتبار سے خوش حال تھی.
خلاصہ کلام:
مملکت آصفیہ نے کبھی بھی فرقہ پرستی پر مبنی حکومت نہیں کی ہے بلکہ ان کے دور حکومت میں سب ہی مذہب کے ماننے والے مل جل کر رہا کرتے تھے اور نظام حکومت میں کئی غیر مسلم افراد اہم عہدوں پر فائز تھے. نظام نے ہمیشہ ہندوؤں اور مسلمانوں کو اپنی دونوں آنکھوں سے تعبیر کیا تھا. سقوط حیدرآباد کے درمیان ہزاروں مسلمانوں کو شہید کیا گیا اور عورتوں کی عزت لوٹی گئ اور آج کی موجودہ حکومت *اس دن کو جشن مناتی ہے. 17 ستمبر کو بی جی پی اور اس کی ہم خیال تنظیمیں جشن مناتی ہیں، اور نظام کے خلاف حد سے زیادہ زہر افشانی کرتی ہیں جو سراسر غلط ہے. اور جشن منانا فرقہ پرستی کو بڑھاوا دینے کے مترادف ہے. ہمیں چاہیے کہ ہم اپنی تاریخ کو یاد رکھیں اور آئندہ نسلوں کے قلب وذہن میں ان کے قابل فخر ماضی کی یاد کو تازہ رکھیں. بقول اقبال….
ہاں، یہ سچ ہے چشم بر عہد کہن رکھتا ہوں میں
اہل محفل سے پرانی داستاں کہتا ہوں میں
یاد عہد رفتہ میری خاک کو اکسیر ہے
میرا ماضی میرے استقبال کی تفسیر ہے
سامنے رکھتا ہوں اس دور نشاط افزا کو
دیکھتا ہوں دوش کے آئینے میں فردا کو میں

Shaikh Akram

Shaikh Akram S/O Shaikh Saleem Chief Editor aitebar news, Nanded (Maharashtra) Mob: 9028167307 Email: akram.ned@gmail.com

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے