किया अप भी अपने न्यूज़ पेपर की वेब साईट बनाना चाहते है या फिर न्यूज़ पोर्टल बनाना चहाते है तो कॉल करें 9860450452 / 9028982166 /9595154683

دماغ مغرب کا ،دل اسلام کا؟ذہنی غلامی کا فریب

تحریر: ڈاکٹر محمد سعیداللہ ندوی

ملت اسلامیہ اس وقت دوہری آزمائش سے گزر رہی ہے۔ ایک طرف بیرونی چیلنجز ہیں، جو صہیونی اور دجالی قوتوں کی صورت میں دن بہ دن شدید تر ہوتے جا رہے ہیں، تو دوسری طرف اندرونی زوال ہے، جو کہیں زیادہ مہلک اور خطرناک ہے۔ بیرونی حملے تو وقتاً فوقتاً آتے رہے ہیں، مگر جب اندر ہی سے بنیادیں کھوکھلی ہو جائیں تو کوئی بھی عمارت سلامت نہیں رہتی۔ سب سے گہرا وار اس وقت ہماری نسل نو پر کیا جا رہا ہے، جو فکری اور تہذیبی اعتبار سے مغرب کی بھٹی میں ڈھل چکی ہے۔ہماری نئی نسل ایک ایسا کورا کاغذ بن چکی ہے، جس پر اغیار نے اپنی مرضی سے لکھا، اور ہم خاموش تماشائی بنے رہے۔ یہ نسل نہ صرف اپنی تاریخ سے ناواقف ہے بلکہ اپنی تہذیب، زبان، اقدار اور دینی شعور سے بھی بے نیاز ہے۔ جب اس نے ہوش سنبھالا تو ہر طرف مغربی انداز زندگی کا غلغلہ تھا۔ اس کے ارد گرد ہر چہرہ مغربیت سے مرعوب نظر آیا۔ یوں اس کے دل میں یہ بات بیٹھ گئی کہ ترقی، کامیابی اور تہذیب صرف مغرب کے نقش قدم پر چلنے ہی سے حاصل ہو سکتی ہے۔
یہ کیسا تضاد ہے کہ زبان پر اسلام کی مدح سرائی ہے، لیکن زندگی کا طرز مغربی ہے۔ ہمارے تعلیمی ادارے، معاشرتی نظام، فکری سانچے اور یہاں تک کہ طرز گفتگو اور رہن سہن بھی مغرب کے آئینے میں ڈھل چکے ہیں۔ دل مسلمان ہے مگر دماغ مغربی بہاؤ میں تیر رہا ہے۔ جب یہ داخلی زوال اپنی جڑیں مضبوط کر لیتا ہے تو بیرونی طاقتوں کی کامیابی خود بخود یقینی ہو جاتی ہے۔ ہم دشمن کی چالوں کو تو زیر بحث لاتے ہیں، احتجاج کرتے ہیں، ہنگامے برپا کرتے ہیں، لیکن اپنے گھر کے اندر جلتی آگ کی طرف دیکھنے کی زحمت نہیں کرتے۔جب ایک قوم کا شعور مر جاتا ہے، جب اس کے افراد مغلوب قوموں کی طرح زندگی گزارنے کو فخر سمجھنے لگیں، تو وہ محض جسمانی وجود رہ جاتی ہے، روحانی طور پر وہ مردہ ہو جاتی ہے۔ بدقسمتی سے آج ملت اسلامیہ اسی کیفیت سے دوچار ہے۔ یہ ذہنی غلامی اتنی شدید ہے کہ ہمیں اپنے جرم کا احساس تک نہیں ہوتا۔ ہمارا ذہن اس درجہ ماؤف ہو چکا ہے کہ اپنی دنیا آپ بنانے کا حوصلہ ہی جاتا رہا۔ ہمیں اب اغیار کی زبان، ان کی ثقافت، ان کی تہذیب، اور ان کے سائے ہی میں امن محسوس ہوتا ہے۔
ہمارے لیے لمحۂ فکریہ یہ ہے کہ آج جو نسل ہم اپنے گھروں، اسکولوں اور اداروں میں تیار کر رہے ہیں، وہ آنے والے کل کی قیادت کرے گی۔ اگر ان کے اندر دینی شعور، ملی غیرت، تہذیبی وابستگی اور فکری خودمختاری نہ رہی تو وہ محض ایک ایسی بھیڑ بن جائے گی جو صرف دوسروں کی پیروی کرے گی۔ بدقسمتی سے آج ہم اس سمت میں بڑھ رہے ہیں جہاں اپنی زبان، اپنی تہذیب، اپنی اقدار سب کچھ کھو کر بھی ہمیں سکون محسوس ہوتا ہے۔ یہ سکون نہیں، بلکہ ذہنی موت ہے۔ذہنی غلامی کی سب سے خطرناک شکل یہ ہے کہ انسان اپنے غلام ہونے کو ہی سعادت سمجھنے لگے۔ وہ اپنے حالات پر سوال اٹھانے کے بجائے، ان کو تقدیر سمجھ کر قبول کر لے۔ مغلوب ذہن کبھی حریت کی بات نہیں کرتا، وہ صرف اسی کو دیکھتا ہے جو غالب ہے۔ اور افسوس کی بات یہ ہے کہ یہ غلامی محض سیاسی یا عسکری نہیں، بلکہ فکری اور تہذیبی ہے۔ ہماری شناخت مغربی خانوں میں قید ہو چکی ہے، اور ہمیں اس پر فخر ہے۔
یہ بات کہی جاتی ہے کہ خارجی حملوں سے پہلے اگر داخلی قوت مضبوط ہو تو کوئی طاقت قوم کو مٹا نہیں سکتی۔ اس کے برعکس، اگر داخلی طور پر قوم کھوکھلی ہو جائے تو خارجی امن بھی کسی کام کا نہیں۔ امریکہ جیسی سپر پاور کی مثال ہمارے سامنے ہے، جہاں اندرون خانہ سماجی رشتے بکھر چکے ہیں، خاندانی نظام تباہ ہو چکا ہے، اور روحانی و اخلاقی اقدار ختم ہو چکی ہیں۔ کل کو یہی اندرونی زوال اس کی عالمی برتری کا خاتمہ بن سکتا ہے۔آج ہمارے نوجوانوں کے شب و روز جن اداروں میں گزر رہے ہیں، وہ انہیں مغرب کا مطیع بنا رہے ہیں۔ ہمارے ہاتھوں ایسی نسل تیار ہو رہی ہے جو دنیا کی چمک دمک کے پیچھے سب کچھ قربان کر دینے کو تیار ہے۔ اس نسل کے اندر وہ غیرت، وہ حمیت، وہ کردار سازی ناپید ہے جس نے کبھی مسلمانوں کو سربلند رکھا تھا۔ اگر یہ روش جاری رہی تو آنے والے وقت میں ہم صرف اپنے ماضی کو یاد کر کے آنسو بہاتے رہ جائیں گے۔
اب بھی وقت ہے کہ ہم جاگ جائیں۔ وہ لوگ جو ملت کے درد سے آشنا ہیں، جن کے سینے میں زندہ دل ہے، انہیں چاہیے کہ نسل نو کے شعور کی تربیت کو اپنی ترجیح بنائیں۔ اگر ہم چاہتے ہیں کہ امت کا مستقبل روشن ہو، تو ہمیں اپنی داخلی اصلاح کرنی ہوگی۔ ہمیں اپنے بچوں کو مغربیت کی اندھی تقلید سے نکال کر فکری آزادی، ملی شعور اور دینی غیرت کی راہ دکھانی ہوگی۔ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ صرف نعرے لگانے اور جلوس نکالنے سے کچھ نہیں بدلے گا۔ اصل تبدیلی اس وقت آئے گی جب ہم ذہنی غلامی کی زنجیروں کو توڑیں گے، اپنی پہچان کو دوبارہ دریافت کریں گے اور اپنے عقیدے کو عمل کی سطح پر اتاریں گے۔ اگر ہمارے دل میں یقین زندہ ہو جائے تو کوئی زنجیر ہمیں روک نہیں سکتی۔
غلامی میں نہ کام آتی ہیں شمشیریں نہ تدبیریں
جو ہو ذوقِ یقیں پیدا تو کٹ جاتی ہیں زنجیریں

Shaikh Akram

Shaikh Akram S/O Shaikh Saleem Chief Editor aitebar news, Nanded (Maharashtra) Mob: 9028167307 Email: akram.ned@gmail.com

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے