किया अप भी अपने न्यूज़ पेपर की वेब साईट बनाना चाहते है या फिर न्यूज़ पोर्टल बनाना चहाते है तो कॉल करें 9860450452 / 9028982166 /9595154683

خودکشی ___ دنیا وآخرت حرام:خودکشی غموں سے نجات کا ذریعہ نہیں ہے

تحریر:ثناء وقار احمد
بی ایڈ ، ایم اے سائیکالوجی ، ایم اے انگریزی ، ایم اے اردو
نواب پورہ ، اورنگ آباد (مہاراشٹر)

اب گھبرا کے کہتے ہیں کہ مرجائیں گے
مرکے بھی چین نہ پایا تو کدھر جائیں گے
خودکشی اپنی زندگی کو کسی نہ کسی طریقے سے خود ہی ختم کرلینا خودکشی کہلاتا ہے۔ زندگی اللہ تعالیٰ کا ایک عظیم تحفہ ہے لہٰذا اس نعمت عظمیٰ سے فائدہ اٹھانا چاہئے اور ہمہ وقت اپنی زندگی کو اللہ تعالیٰ کی یاد اور عبادت میں گزارنا چاہئے۔ خواہ کتنی پریشانی اور تکلیف کیوں نہ ہو ، انسانی زندگی اگرچہ خوشی اور غم کا حسین مرقع ہے۔ یعنی کبھی خوشی میسر آتی ہے اور کبھی غم ملتا ہے۔ انسانی راحت اور وقار کا دارومدار صحت پر مبنی ہے۔ تندرستی انسان کو زندگی کی رعنائیوں سے لطف اندوز کرتی ہے۔ تندرستی ہوتو دنیا کی ہر نعمت اچھی لگتی ہے مگر صحت کے بگڑنے سے زندگی کے شب و روز جڑ سے تلخ ہوجاتے ہیں۔
اللہ کے حبیبﷺ نے ہمیں یہی راستہ بتایا ہے کہ نعمت پر اللہ کا شکر ادا کیجئے اور تکالیف پر صبر سے کام لیجئے اور اللہ سے مدد مانگیں۔ زیادہ سے زیادہ اللہ کا ذکر کیجئے تاکہ ذکر سے اللہ راضی ہوکر تمہاری تکلیف دفع کردے ، مگر جو لوگ تکلیفوں کو برداشت نہیں کرتے اور خود ہی اپنی جان کو اپنے ہاتھوں ختم کردیتے ہیں وہ اللہ اور اس کے رسولﷺ کے مجرم ہیں۔ خودکشی کے بارے میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ربانی ہے کہ اے ایمان والوں آپس میں ایک دوسرے کا مال ناحق نہ کھاؤ، مگر یہ کہ کوئی سودا تمہاری باہمی رضامندی کا ہو ، اور اپنی جانیں قتل نہ کرو ۔ بے شک اللہ تعالیٰ تم پر مہربان ہے اور جو ظلم و زیادتی سے ایسا کرے گا تو عنقریب اللہ اُسے آگ میں داخل کریں گے جو شخص جس چیز کے ساتھ خودکشی کرے گا اُسے جہنم کی آگ میں اسی چیز کے ساتھ عذاب دیا جائے گا ، اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو آزمائش میں ڈال کر اُن کے گناہوں کو مٹاتا ہے اور درجات کو بلند کرتا ہے جو آزمائش میں پورا اترتے ہیں وہ اللہ کی رحمتوں کے سائے میں آجاتے ہیں اور جو ناکام ہوجاتے ہیں وہ خودکشی کو راہِ نجات سمجھتے ہیں اور نہ صرف اپنا دنیاوی نقصان کرتا ہے بلکہ اپنی آخرت بھی برباد کرلیتا ہے۔ انسان کو اللہ تعالیٰ پر کامل یقین کرنا چاہئے اور یہ بات یاد رکھنی چاہئے کہ سب تکلیفوں اور مصیبتوں کو ختم کرنے والی صرف اور صرف اللہ کی ذات ہے اور صبروبرداشت کا مظاہرہ کرتے ہوئے خودکشی نہیں کرنی چاہئے۔ اسلامی تعلیمات پر عمل کرتے ہوئے تمام مشکلات کا ڈٹ کر مقابلہ کرنا چاہئے۔ ساری کائنات بھی اگر تمہارے خلاف اُٹھ کھڑی ہو۔ لیکن تمھیں یہ یقین ہونا چاہئے کہ اللہ ہمارے ساتھ ہے ۔ مایوسی ہمارے لئے حرام ہے۔ ہمیں اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہونے کا حکم دیا گیا ہے۔ اسلام خودکشی کی سخت مذمت کرتا ہے۔ اسلام میں انسانی جان کی بڑی قدر و قیمت ہے۔ خودکشی تو بہت دور کی بات ہے اسلام میں مصیبت سے پریشان ہوکر اپنے لئے موت کی دعا کرنے کی بھی اجازت نہیں ہے۔
افسوس ! آج مسلم معاشرہ میں بھی خودکشی جیسی لعنت دیکھنے کو مل رہی ہے، کبھی کوئی غربت و افلاس سے تنگ آکر خودکشی کرلیتا ہے تو کبھی میاں بیوی کی آپسی ناراضگی اس کا سبب بنتی ہے، کبھی تجارت میں ناکامی اس لعنت کی وجہ ہوتی ہے ۔ عموماً انفرادی ، طبی ، نفسیاتی اور سماجی وجوہات کے علاوہ بیماری ، معذوری یا شدید تکلیف دہ مسلسل بیماری کے باعث بھی خودکشی کرتے ہیں۔ ناامیدی ، غم ، مایوسی ، ناکامی، ڈپریشن ، نشہ ، اکیلاپن محسوس کرنا ، طلاق ، پسند و ناپسند کی شادی ، محبت میں ناکامی ، بیروزگاری اور مالی اقتصادی حالات اور مشکلات ، فرسودہ رسم و رواج کے باعث گھٹن کا ماحول ، شدید احساس کمتری میں مبتلا ہوجانا بھی خودکشی کا باعث بنتا ہے۔ امتحان میں ناکامی، منشیات کا استعمال ، سگریٹ ، شراب نوشی کے عادی وغیرہ خودکشی کے تمام واقعات ذہنی و نفسیاتی حالتوں کی وجہ سے ہوتے ہیں۔ ڈپریشن بھی ایک بہت بڑا نفسیاتی عارضہ ہے۔ غیرمتوازن شخصیت، یہ تمام خودکشی کے اسباب ہوتے ہیں۔ اسلام میں خودکشی گناہ کبیرہ ہے، اس کی وجہ یہ ہے کہ خودکشی کرنے والا اللہ کی نعمت کی ناقدری کررہاہے۔ اس لئے آخرت میں سزا کا حقدار ہے۔ لہٰذا کسی مسلمان کو اپنی جان سے خود ہاتھ نہیں دھونا چاہئے کیونکہ اللہ نے خود ایسا کرنے سے منع کیا ہے : وَلَاتَقْتُلُوٓا أنفُسَکُمْ اِنَّ اَللّٰہَ کَانَ بِکُمْ رَحِیمًا (سورۃ النساء۔ ۲۹) ترجمہ : ’’ اپنی جان کو خود ہلاک نہ کرو، بے شک اللہ تم پر مہربان ہے۔‘‘ اس آیت میں حکم دیا گیا ہے کہ خودکشی مت کرو، لہٰذا مسلمان کو اللہ پر پورا پورا بھروسہ رکھنا چاہئے اور زندگی کی کسی تکلیف سے مایوس نہیں ہونا چاہئے۔ خواہ حالات کیسے بھی پریشان کن کیوں نہ ہوں۔ اپنی سوچ کے مطابق تکلیف اور پریشانیوں سے نجات کے لئے تدابیر اختیار کرے اور اللہ پر کامل یقین رکھتے ہوئے بارگاہِ رب العزت میں جھکا رہے اور آخری دم تک ڈٹ کر مصائب کا مقابلہ کرے کیونکہ جو لوگ زندگی سے تنگ آکر خودکشی کرلیتے ہیں وہ درحقیقت بزدلی کا اظہار کرتے ہیں۔ اللہ کے بندوں کا کام نہیں کہ ہمت ہار جائیں۔ لہٰذا خوفِ خدا کے تحت اپنے آپ کو اس جرم سے محفوظ رکھنے کی کوشش کرنی چاہئے۔ خودکشی ایک گھناؤنا اور دنیا کا بدترین جرم ہے جس کے مرتکب افراد کے لئے نہ دنیا میں معافی کی گنجائش ہے اور نہ آخرت میں۔
ہمارے معاشرے میں برائیاں تیزی سے جڑ پکڑ رہی ہیں۔ خودکشی اسی مایوسی اور ناامیدی کی پیداوار ہے جو کفر ، روحانی اور اخلاقی اقتدار کے زوال اور ایمان کے ضعف کا نتیجہ ہوتی ہے۔ عدم اعتماد کا یہ عالم ہے کہ ہمارا اعتماد ایک دوسرے سے اٹھتا جارہا ہے ۔ ہر جگہ عدم توازن کی کیفیت ہے۔ ہماری شخصیتوں سے خوش اخلاقی ناپید ہوتی جارہی ہے۔ خودکشی کا مرتکب عملاً خدا کا منکر ہے۔ حالانکہ خدا کی رحمت سے ہواؤں کے رخ پلٹ سکتے ہیں اور مایوسیوں کے بادل چھٹ جاتے ہیں۔ خودکشی کرنے والا نہیں جانتا کہ جن حالات سے دل برداشتہ ہوکر اپنا چراغِ حیات گل کررہا ہے خدا کی مہربانی سے وہی حالات اس کے حق میں سازگار ہوسکتے ہیں۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے کہ مومن کو جو بھی بیماری، جو بھی پریشانی، جو بھی رنج و غم ، جو بھی اذیت پہنچتی ہے یہاں تک کے کانٹا بھی اس کو لگتا ہے تو اللہ تعالیٰ ان چیزوں کے ذریعے اس کے گناہوں کی صفائی فرما دیتے ہیں۔ ایک حدیث شریف میں ارشادپاک ہے کہ ’’تم اللہ کے حقوق کی نگرانی کریں گے تو اللہ تمہاری حفاظت فرمائے گا ، جب بھی مانگے اللہ سے مانگیں، جب بھی مدد چاہے اللہ سے چاہو۔‘‘
موجودہ دور میں خودکشی کی شرح میں کافی اضافہ ہوا ہے اور عورتوں کی بہ نسبت مردوں میں زیادہ ہے۔ گاؤں کے مقابلے میں شہروں اور سماج کے اونچے نیچے تمام طبقوں میں اس کا رجحان پایا جاتا ہے۔ خودکشی کی وجوہات میں سب سے اہم وجہ ذہنی انتشار ہے۔ زندگی اللہ کی طرف سے ہم پر احسانِ عظیم ہے۔ زندگی کی قدر کیجئے اور آخرت میں ہمیں اللہ کے سامنے جواب دہ ہونا ہوگا۔ ہم نے زندگی کو کس طرح استعمال کیا اور جب اللہ نے اپنی مرضی سے ہمیں زندگی عطا کی ہے تو وہ اپنی مرضی سے ہی واپس بھی لے گا۔ اللہ تعالیٰ اپنے نیک بندوں کو بہت اہتمام سے بلاتا ہے اور اپنے بلائے ہوئے مہمانوں کی اللہ قدر کرتا ہے، ان سے محبت رکھتا ہے۔ کیونکہ انہوں نے اللہ تعالیٰ کے مقررکردہ وقت تک دنیا میں زندگی بسر کی۔ خواہ کتنے ہی مصائب و مسائل کا سامنا کرنا پڑے اور آخرکار اپنے رب کے حکم سے ہی اس کی طرف لوٹ گئے۔ خودکشی کے تمام واقعات ذہنی و نفسیاتی حالتوں کی وجہ سے ہوتے ہیں۔
موجودہ دور کے ماہر نفسیات بھی خودکشی کے سب سے اہم وجوہات پر زور دیتے ہیں۔ سب سے پہلے تو اللہ کی ذات عالی پر یقین، دوسرا زندگی کی گزارنے کے لائق چیزوں پر قناعت اختیار کی جائے، تیسری بات دنیاوی اعتبار سے اپنے سے اونچے لوگوں کو دیکھ کر احساس کمتری میں مبتلا نہ ہو، جو لوگ ذہنی طور پر صحت مند ہوتے ہیں وہ اپنے جذبات کا اظہار تو کرتے ہیں مگر ساتھ ساتھ وہ معاشرتی تقاضوں کو نظرانداز نہیں کرتے۔ انھیں اپنی ذات پر مکمل اعتماد ہوتا ہے اور وہ دوسروں پر بھی اعتماد و بھروسہ کرتے ہیں۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ زندگی میں باربار ایسے مراحل آتے ہیں کہ انسان وقتی طور پر غمگین ہوجاتا ہے مگر جیسے ہی ہنگامی صورتحال ختم ہوتی ہے فرد بھی اپنے آپ میں توازن پیدا کرلیتا ہے۔ خودکشی کرنے والوں میں اکثریت ان افراد کی ہوتی ہے جو جلد تشویش کا شکار ہوجاتے ہیں اور فرار کا آسان راستہ اختیار کرلیتے ہیں۔ یہ وہ لوگ ہوتے ہیں جن کی قوت مدافعت تقریباً ختم ہوچکی ہوتی ہے۔ بسااوقات انسانی دماغ میں پیدا ہونے والی کیمیائی تبدیلی کے باعث انسان خودکشی کی طر ف مائل ہوجاتا ہے۔ یہ ڈپریشن کی آخری حد ہوتی ہے اور ۹۰فیصد لوگ اسی وجہ سے خودکشی کرتے ہیں۔ اگر ہمارے درمیان خودکشی کرنے کی خواہش ظاہر کرنے والے یا خودکشی کی کوشش کرنے والے افراد پائے جاتے ہیں تو ہمیں اس نوعیت کے افراد کا فوری علاج کروانا چاہئے ۔ لیکن خاص صورتحال سے نمٹنے کے لئے ماہرامراض، دہنی و نفسیاتی یعنی سائیکاٹرسٹ سے مشورہ کرنا چاہئے۔ سب سے اہم بات یہی ہے کہ ہمیں خودکشی کا ارادہ ، خواہش ظاہر کرنے یا کوشش کرنے والے افراد کو نظرانداز نہیں کرنا چاہئے۔ ان کے موجودہ مسائل کے بارے میں پوچھیں اور ان کے مسائل کے حوالے سے ان کا ردعمل معلوم کریں۔ ان کے ذہنی تضادات اور نفسیاتی الجھنوں کے ساتھ ساتھ ان کی جسمانی بیماریوں کے حوالے سے معلومات حاصل کریں۔
انسان اپنے رب جل جلالہ کی ذات پر مکمل اعتماد کرلے تو یقینا اس کے دل میں کبھی بھی خودکشی کا خیال نہیں آئے گا۔ ثابت ہوا کہ خدا کی ذات پر بھروسہ اور ایمان کی کمزوری کی وجہ سے انسان برائی کے راستے پر چل نکلتا ہے۔ خودکشی سے محفوظ رہنے کا طریقہ محض ایمان ہے۔ یہ ایمان کہ اصل جائے اقامت دنیا نہیں بلکہ آخرت ہے۔ اگر ذہنی زاویہ یہ ہوگا تو دنیاوی کامیابیاں یا ناکامیاں فرد کو متاثر نہیں کرسکے گی۔ اس کو معلوم ہوگا کہ نتائج کی ذمہ داری اللہ تعالیٰ پر ہوتی ہے۔ فرد کی ذمہ داری زیادہ سے زیادہ نیت اور عمل ہے۔ ہمارے رسولؐ وہ ہستی جنھوں نے زندگی گزارنے کا بہترین طریقہ بتایا، جس طریقے کو اپنا کر آپ اور ہم ایک عالیشان خوبصورت پُرسکون زندگی گزار سکتے ہیں۔
بیشک حالات انسان کے ہاتھ میں نہیں ہیں
لیکن
جس کے ہاتھ میں ہیں وہ بہت رحیم اور رحمن ہے
٭٭٭

Shaikh Akram

Shaikh Akram S/O Shaikh Saleem Chief Editor aitebar news, Nanded (Maharashtra) Mob: 9028167307 Email: akram.ned@gmail.com

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے