किया अप भी अपने न्यूज़ पेपर की वेब साईट बनाना चाहते है या फिर न्यूज़ पोर्टल बनाना चहाते है तो कॉल करें 9860450452 / 9028982166 /9595154683

خصوصی انٹرویو: شیخ اعجاز سر

انٹرویو:
محترم شیخ اعجاز سر نہ صرف ناندیڑ بلکہ مہاراشٹر کے تعلیمی و ادبی حلقوں میں ایک روشن نام ہیں۔ ان کی 25 سالہ تدریسی خدمات، جمالیاتی ذوق، مصوری، خطاطی، ترجمہ نگاری، ٹیکنالوجی سے ہم آہنگی، اور علم دوستی ان کی ہمہ جہت شخصیت کی جھلک پیش کرتی ہیں۔ ان کا فن، ان کا مطالعہ، ان کا انداز تدریس، اور ان کی سادہ مگر باوقار زندگی آج کے تعلیمی اور ادبی ماحول میں مثال بن چکی ہے۔ وہ نہ صرف ایک مثالی استاد رہے بلکہ علمی تحریک کے خاموش مگر پُراثر علمبردار بھی ثابت ہوئے۔ ادارۂ اعتبار نیوز کی جانب سے ان سے ایک تحریری انٹرویو لیا گیا، جس میں انہوں نےاپنے تجربات، تعلیمی نظریات اور آئندہ کے ارادوں پر روشنی ڈالی۔ یہ گفتگو نئی نسل کے لیے رہنمائی اور سنجیدہ فکر کے کئی پہلو اپنے اندر سمیٹے ہوئے ہے۔

سوال: آپ کی تعلیمی اور پیشہ ورانہ زندگی کے سفر کی ابتدا کیسے ہوئی؟
جواب:  اول تو یہ واضح کر دوں کہ تعلیم اور تدریس کا سفر میرے لیے کبھی محض ایک پیشہ نہیں رہا بلکہ یہ ہمیشہ ایک جذبہ، لگن اور ذمہ داری رہی ہے۔ دلچسپ حقیقت یہ ہے کہ میرے گھر کا ماحول تعلیمی نہیں تھا۔ والد صاحب تجارت کے پیشے سے وابستہ تھے اور والدین و بڑے بھائیوں نے ابتدائی جماعتوں تک تعلیم حاصل کی تھی۔ یعنی خاندان میں ایسا کوئی نہیں تھا جہاں سے مجھے رہنمائی یا انسپائریشن ملتی۔ میں نے جیسے تیسے اپنی تعلیم دسویں جماعت تک جاری رکھی، لیکن علم کے ساتھ ایک قلبی تعلق ہمیشہ قائم رہا۔
بچپن ہی سے کتاب، قلم اور رنگوں سے غیر معمولی رغبت تھی۔ درسی کتابوں کے صفحات پر ڈرائنگ بنانا اور جوابی بیاضات کو تصویروں سے مزین کرنا میرا پسندیدہ مشغلہ تھا۔ اس کے ساتھ ساتھ غیر نصابی کتب پڑھنے کا شوق دل میں گھر کرتا گیا۔ ادبی کتب، فلمی میگزینز، ناول اور ڈائجسٹ میری کمزوری تھے۔ بچپن ہی سے جو مکالمے یا ادبی جملے دل کو چھو لیتے، انھیں یاد کر لینا، اپنی بیاض میں چنیدہ اقوال و اشعار درج کرنا اور پھر بار بار پڑھنا میرے لیے روح کی غذا تھی۔
ڈرائنگ اور آرٹ سے اس غیر معمولی دلچسپی نے مجھے تعلیم کو اسی فنی شعبے سے جوڑنے پر آمادہ کیا۔ میں نے اورنگ آباد میں ڈرائنگ کا فاؤنڈیشن کورس کیا اور پھر ناندیڑ آکر بیچلر آف فائن آرٹس (BFA in Applied Art ) کا چار سالہ کورس مکمل کر کے ڈگری حاصل کی۔ دورانِ ملازمت بھی میں نے اپنے فن کو مزید نکھارنے کی کوشش جاری رکھی اور اسی شعبے میں پی جی ڈپلوما (Dip A.Ed.) کیا تاکہ تدریس اور فن دونوں میں پختگی پیدا ہو۔
تدریسی سفر کا آغاز ایک بڑے تعلیمی اردو ادارے سے کیا، جہاں فنِ آرٹ کے حوالے سے وسائل محدود تھے، لیکن اس کے باوجود طلبہ کو کچھ نیا سکھانے کی لگن دل میں موجزن رہی۔ چونکہ میں نے اسی ادارے سے تعلیم حاصل کی تھی، اس لیے اس سے ایک ذاتی تعلق اور جذباتی وابستگی بھی رہی۔ یہی وجہ تھی کہ جہاں جہاں موقع نظر آیا، میں نے اپنی تمام تر توانائیاں اور صلاحیتیں ادارے کی خدمت کے لیے پیش کیں۔ آج جب کہ میں ملازمت سے سبکدوش ہو چکا ہوں، اس ادارے سے میری محبت اور وابستگی بدستور قائم ہے اور دل چاہتا ہے کہ اپنی باقی زندگی بھی کسی نہ کسی صورت میں ادارے کے لیے وقف رکھوں۔
سوال: فائن آرٹ میں تعلیم کے دوران کن مشکلات کا سامنا رہا اور وہ وقت آج کی زندگی پر کس طرح اثرانداز ہوا؟
جواب:  فائن آرٹ کا راستہ میرے لیے صرف تعلیم کا مرحلہ نہیں تھا بلکہ یہ میری زندگی کا سب سے کٹھن اور فیصلہ کن سفر تھا۔ جب میں نے 1995 میں فائن آرٹ کالج جوائن کیا تو میں شادی شدہ تھا اور دو بچوں کا باپ بھی۔ ڈگری کی تکمیل تک (1999) میرے چار بیٹے ہو چکے تھے۔ یہ حقیقت اپنے اندر ہی ایک کہانی ہے کہ ایک طرف فنونِ لطیفہ کی تعلیم اور دوسری طرف خاندان کی ذمہ داریاں – دونوں کو ساتھ لے کر چلنا کتنا مشکل تھا۔
میرے گھر کے حالات بہت محدود تھے۔ فنِ کتابت سے پہلے ہی واقفیت تھی، اور انہی چند مہارتوں سے گھر کا خرچ کسی نہ کسی طرح پورا کر رہا تھا۔ لیکن فائن آرٹ کالج کا نظام ریگولر تھا؛ صبح 9 بجے گھر سے نکلتا اور شام 6 بجے واپس آتا۔ سارا سفر سائیکل پر طے کرتا، اور شام کے بعد بچا ہوا وقت مقامی اخبارات اور رقعہ جات کی کتابت میں گزرتا تاکہ کالج کا خرچ اور گھر کے اخراجات دونوں سنبھال سکوں۔ یہ واقعی میرے لیے مشکل ترین دن تھے، لیکن انہی دنوں نے مجھے محنت، قربانی اور استقامت کا سبق دیا۔
یہاں میں اپنی مرحوم بیوی کا ذکر کیے بغیر آگے نہیں بڑھ سکتا۔ ان دنوں میں اگر اُس نے صبر و تحمل کا مظاہرہ نہ کیا ہوتا تو شاید میں یہ راستہ اتنی ثابت قدمی سے طے نہیں کر پاتا۔ اس نے نہ صرف مجھے ہمت دی بلکہ کبھی گھر میں شکوے شکایات کا ماحول پیدا نہیں کیا جو میرا حوصلہ توڑ دیتا۔ اس کی نرم مزاجی اور عملی سپورٹ نے مجھے اپنے خواب کی تکمیل تک پہنچایا۔
آج جب پیچھے مڑ کر دیکھتا ہوں تو وہ وقت میرے اندر ایک گہری حساسیت اور مضبوطی پیدا کر چکا ہے۔ فنونِ لطیفہ کی تعلیم نے مجھے زندگی کو نئے زاویے سے دیکھنے کی بصیرت دی اور مشکلات نے مجھے سکھایا کہ فن اور زندگی دونوں قربانی مانگتے ہیں۔ یہی سبق آج بھی میری تدریس، فن اور ذاتی زندگی کی بنیاد ہے۔
سوال: آپ کے خیال میں ایک اچھا معلم کن صفات کا حامل ہونا چاہیے؟
جواب:  میرے نزدیک معلم ہونا صرف ایک پیشہ نہیں بلکہ یہ ایک امانت اور کردار سازی کا عمل ہے۔ ایک اچھے معلم کی پہلی اور سب سے اہم صفت یہ ہے کہ وہ علم کو محض کتابوں کے صفحات تک محدود نہ رکھے بلکہ اس علم کو شاگرد کی زندگی اور اس کی شخصیت میں اُتارنے کی کوشش کرے۔
فنِ آرٹ کی تدریس نے مجھے یہ سبق دیا کہ استاد کو ہمیشہ طلبہ کے زاویۂ نگاہ سے چیزوں کو دیکھنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ ایک بار ایک طالب علم نے مجھ سے کہا:
"سر! یہ خاکہ بنانا میرے لیے مشکل ہے، ہاتھ قابو میں نہیں رہتا۔”
میں نے اس سے کہا:
"لکیروں کی خوبصورتی ہاتھ کے قابو میں ہونے سے نہیں، دل کے قابو میں ہونے سے آتی ہے۔ پہلے دل میں منظر تراشو، پھر ہاتھ سے وہ خود بہہ نکلے گا۔”
وہی طالب علم کچھ دن بعد مجھے اپنی بہترین اسکیچ بک دکھا رہا تھا۔ اس واقعے نے مجھے یاد دلایا کہ معلم کا اصل کام محض پڑھانا نہیں بلکہ طلبہ کے اندر اعتماد اور اظہار کی جرات پیدا کرنا ہے۔
ایک اچھے معلم کے لیے صبر اور برداشت لازمی ہیں، کیونکہ ہر شاگرد کا ذہنی زاویہ اور سیکھنے کی رفتار مختلف ہوتی ہے۔ استاد کو نصاب کے بجائے شاگرد کو اہمیت دینی چاہیے۔ وہ اپنے علم کو بانٹنے میں کشادہ دل ہو، اور طلبہ کے چھوٹے چھوٹے سوالات کو بھی اہمیت دے۔ اگر استاد کا دل روشن ہو اور نیت خالص ہو تو شاگرد بھی اس روشنی سے منور ہو جاتے ہیں۔
سوال: کتابت، مصوری، خطاطی، ترجمہ، تدریس اور ٹیکنالوجی ، ان تمام میں توازن کیسے برقرار رکھتے رہے؟
جواب:  میری زندگی میں یہ سب چیزیں بظاہر الگ الگ شعبے لگتی ہیں، لیکن میرے لیے یہ سب ایک دوسرے سے جڑی ہوئی ہیں۔ میں نے کبھی انہیں الگ خانوں میں نہیں رکھا۔ ہر فن، ہر ہنر اور ہر علم میرے لیے ایک دوسرے کو سہارا دینے والے ستون بن گئے۔
ان تمام ہنر کی بنیادیں فنِ مصوری میں مضمر تھیں۔ کتابت بھی دراصل فنِ مصوری کا ہی ایک شعبہ ہے، جس میں لکیروں کی باریکیاں اور حسنِ ترتیب وہی بصیرت مانگتے ہیں جو ایک اچھا مصور اپنے فن میں بروئے کار لاتا ہے۔ خطاطی نے میری نگاہ کو جمالیاتی نکتہ نظر دیا اور صبر کا درس دیا۔ ترجمہ نے زبان کے ساتھ تعلق کو گہرا کیا اور تدریس نے مجھے علم بانٹنے کا سلیقہ سکھایا۔
ٹیکنالوجی میری زندگی میں ایک ضرورت کے طور پر آئی، لیکن میں نے اسے صرف ضرورت تک محدود نہیں رکھا بلکہ شوق بنایا۔ کمپیوٹر ہارڈ ویئر میں میں نے باقاعدہ باہر کسی ادارے سے تربیت لی، لیکن فنِ مصوری کی وجہ سے میرے اندر جو بنیادی وژن اور تخلیقی قوت تھی، اس نے مجھے گرافک ڈیزائننگ کے پیکیجز سیکھنے میں بہت مدد دی۔ یہ وہ دور تھا جب انٹرنیٹ اور یوٹیوب جیسے ذرائع عام نہیں تھے، اس لیے کتابوں سے، بار بار پریکٹس سے اور خود تجربہ کر کے میں نے ڈیزائننگ سافٹ ویئرز سیکھے۔ کورل ڈرا، فوٹوشاپ، ان پیج اور دیگر پروگرامز میں مہارت اسی محنت کا نتیجہ ہے۔
میرے نزدیک اصل بات وقت کی تنظیم اور اپنی توانائیوں کو تقسیم کرنے کا فن ہے۔ میں نے کبھی یہ نہیں کہا کہ میرے پاس وقت نہیں ہے، بلکہ یہ سوچا کہ جو وقت ہے، اسے بہتر طریقے سے استعمال کیسے کیا جائے۔ یہی سوچ آج بھی میری زندگی کا حصہ ہے۔
سوال: آپ کے خیال میں اردو خطاطی کے مستقبل کے لیے نوجوانوں کو کس قسم کی رہنمائی درکار ہے؟
جواب:  اردو خطاطی کا مستقبل میرے نزدیک اسی وقت روشن ہو سکتا ہے جب نوجوان اسے محض ایک مشغلہ سمجھنے کے بجائے ایک فن اور ذاتی اظہار کا ذریعہ بنائیں۔ آج کے تیز رفتار دور میں، جہاں ڈیجیٹل فونٹس اور گرافک ڈیزائننگ نے خطاطی کے روایتی دائرے کو محدود کر دیا ہے، اس فن کو زندہ رکھنے کے لیے نوجوانوں کو دو چیزوں کی ضرورت ہے: استاد کی رہنمائی اور لگن کے ساتھ مسلسل مشق۔
انہیں یہ سمجھنا چاہیے کہ اردو خطاطی صرف خوبصورت حروف بنانے کا نام نہیں، بلکہ یہ ایک روحانی ریاضت ہے۔ اس کے لیے صبر، بار بار کی مشق اور استاد کے سامنے زانوئے تلمذ تہہ کرنے کا جذبہ ضروری ہے۔
میری اپنی زندگی میں خطاطی کا آغاز بھی ایک دلچسپ اتفاق سے ہوا۔ ایک بار میں نے اپنے ایک دوست کے لیے عربی کا ایک طغرہ بنا کر تحفے میں دیا۔ اُس وقت تک مجھے اندازہ نہیں تھا کہ یہ ایک مکمل فن ہے اور اس کے ذریعے کمایا بھی جا سکتا ہے۔ وہی طغرہ میرے لیے پہلی سیڑھی ثابت ہوا۔ بعد میں ایک مہربان شخص نے مجھے خطاطی کے ماہر استاد سے ملوایا، اور یوں اس فن کی دنیا میرے لیے کھلتی چلی گئی۔
نوجوان اگر روایتی اسلوب کو ڈیجیٹل تکنیک سے ہم آہنگ کر لیں تو اردو خطاطی نہ صرف محفوظ ہو گی بلکہ اسے عالمی سطح پر پہچان بھی مل سکتی ہے۔
سوال: مطالعے کا ذوق آپ میں کب اور کیسے پیدا ہوا، اور کن موضوعات پر آپ کا جھکاؤ زیادہ رہا؟
جواب:  میرے نزدیک مطالعہ محض ایک عادت نہیں بلکہ ایک روحانی اور ذہنی غذا ہے۔ بچپن ہی سے کتابوں کی طرف غیر معمولی کشش محسوس ہوتی تھی۔ شاید اس کی ایک وجہ یہ تھی کہ میرا گھر کا ماحول چونکہ تعلیمی نہیں تھا، اس لیے دنیا کو جاننے اور سمجھنے کی پیاس میرے دل میں زیادہ گہری تھی۔ کتابیں میرے لیے ایک ایسی کھڑکی بن گئیں جس سے میں ایک نئی اور وسیع دنیا کو دیکھ سکتا تھا۔
ابتدا میں ادب، کہانیاں، ناول اور فلمی مکالمے مجھے اپنی طرف کھینچتے تھے۔ جو جملے دل کو چھو لیتے، وہ یاد کر لیتا یا اپنی بیاض میں لکھ لیتا۔ دھیرے دھیرے یہ شوق اور ذوق ایک طرح کی عادت بن گیا۔ مطالعے نے میری تخلیقی صلاحیتوں کو جِلا بخشی اور مجھے الفاظ سے محبت سکھائی۔
وقت کے ساتھ ساتھ میری توجہ ادبیات سے آگے بڑھ کر فلسفہ، مذہب اور خودسازی کی کتابوں کی طرف گئی۔ مجھے ہمیشہ ان موضوعات نے اپنی طرف متوجہ کیا جو انسان کو اپنی ذات کے قریب لے جائیں اور سوچ کے نئے زاویے عطا کریں۔
سوال: مولانا وحید الدین خان اور جاوید احمد غامدی کے افکار سے آپ کو کس طور فکری غذا ملی؟
جواب:  مولانا وحید الدین خان اور جاوید احمد غامدی دونوں ہی میرے لیے صرف علما نہیں، بلکہ ایسے فکری معمار ہیں جنہوں نے مجھے سوچنے، سوال کرنے، اور دین کو عقل و استدلال کے ساتھ سمجھنے کا ذوق دیا۔
مولانا وحید الدین خان کی تحریروں نے مجھے یہ سکھایا کہ دین کا اصل پیغام امن، مکالمہ اور حکمت ہے۔ ان کے ہاں مجھے علم ہوا کہ اختلاف رائے کے باوجود بھی دلوں میں نرم مزاجی اور زبان میں شائستگی باقی رکھی جا سکتی ہے۔ ان کے نزدیک اسلام کا سب سے بڑا پیغام تعمیرِ اخلاق اور انسانیت کی خدمت ہے، اور یہ بات میرے لیے مشعلِ راہ بن گئی۔
جاوید احمد غامدی صاحب نے دین کے استدلالی پہلو کو میرے لیے روشن کیا۔ ان کی تحریریں اور بیانات اس بات کی دعوت دیتے ہیں کہ قرآن و سنت کو سمجھنے کے لیے محض تقلید کافی نہیں بلکہ تدبر اور غور و فکر بھی لازم ہے۔ ان کی یہ فکر کہ دین کا اصل ماخذ قرآن کا نصِ قطعی ہے اور باقی سب تفصیلات انسانی فہم و تشریح کا حصہ ہیں، میرے لیے ایک فکری انقلاب تھی۔
یہ دونوں شخصیات اپنے دور کے امام ابن تیمیہ ہیں۔ جس طرح تاریخ میں عظیم اہل علم کو اپنے زمانے میں مخالفتوں اور غلط فہمیوں کا سامنا کرنا پڑا، اسی طرح آج بھی ان پر تنقید کرنے والے ہیں، مگر ان کا علمی وقار اور فکری بصیرت مستقبل کے مؤرخین کے لیے فیصلہ کن ہوگی۔ مولانا ندوی کے الفاظ کے مطابق:
"ہر زمانہ کے صاحبِ کمال علما کو اپنے معاصرین کی طرف سے آزمائش اور مخالفت کا سامنا رہا، کیونکہ ان کی فکر اپنے زمانے کی سطح سے بلند ہوتی ہے۔”
میری اپنی زندگی میں ان دونوں حضرات کی فکر نے مجھے یہ سکھایا کہ علم کبھی جمود کا نام نہیں، یہ تو ایک بہتا دریا ہے جو انسان کو خود آگہی، خدا آگہی اور دنیا کی خدمت کے لیے تیار کرتا ہے۔
سوال: ادارے کی ترقی میں آپ کا جو کردار رہا، اس کا کوئی ایسا لمحہ بتائیے جو سب سے زیادہ یادگار ہے۔
جواب:  میری زندگی میں تعلیم اور تدریس ایک مشن کی حیثیت رکھتے ہیں، اور اسی جذبے سے میں نے اس ادارے سے اپنی وابستگی کو ہمیشہ قائم رکھا۔ لیکن میں پوری دیانت داری سے سمجھتا ہوں کہ ادارے کی ترقی کبھی بھی کسی ایک فرد یا کسی ایک لمحے کا مرہونِ منت نہیں ہوتی۔ یہ ایک اجتماعی عمل ہے جس میں ہر استاد، ہر منتظم، اور ہر طالب علم کا کردار شامل ہوتا ہے۔
اردو مدارس اور تعلیمی ادارے آج کے بدلتے ہوئے سماجی و تعلیمی حالات میں خاص چیلنجز کا سامنا کر رہے ہیں۔ ان میں ترقی کی راہیں ہموار کرنے کے لیے مستقل مزاجی، قربانی، اور ایک مربوط کوشش کی ضرورت ہے۔ ترقی کو ہمیشہ صرف ظاہری عمارتوں، سہولیات یا اعداد و شمار سے نہیں ناپا جا سکتا بلکہ اس کا اصل معیار یہ ہے کہ ادارہ کس طرح اپنی تعلیمی اور اخلاقی اقدار کو آگے بڑھا رہا ہے۔
میری دل کی گہرائی سے دعا اور خواہش رہی ہے کہ یہ ادارہ، جس سے میری وابستگی طالب علمی کے زمانے سے ہے، روز افزوں ترقی کرے اور اردو تعلیم و فنون کا ایک درخشاں مینار بنے۔ اس وابستگی کے باعث میں نے ہمیشہ اپنے حصے کی کوشش اس نیت سے کی کہ ادارہ آگے بڑھے، اور آج بھی میرا دل اسی تڑپ کے ساتھ جڑا ہوا ہے۔
سوال: آپ کی شخصیت کے کئی پہلو نمایاں ہیں، لیکن آپ خود کو سب سے پہلے کیا سمجھتے ہیں: معلم، فنکار، مفکر یا مترجم؟
جواب:  میرے لیے یہ سب بڑے اور بوجھل القابات ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ میں کبھی بھی اپنے آپ کو معلم، فنکار، مفکر یا مترجم جیسے الفاظ سے جوڑ کر نہیں دیکھ پایا۔ یہ وہ نام ہیں جو اپنے اندر عظمت کا وزن رکھتے ہیں، اور میں اپنے آپ کو ان کے لائق نہیں سمجھتا۔
مجھے جاوید احمد غامدی صاحب کی وہ بات اکثر یاد آتی ہے کہ جب بھی انھیں مولانا یا علامہ کہا جاتا تو وہ منع کرتے اور کہتے کہ "میں ایک طالب علم ہوں اور ساری زندگی طالب علم ہی رہنا پسند کروں گا”۔ میرا بھی یہی حال ہے۔ میں نے ہمیشہ یہی کوشش کی کہ جو کام میرے ذمے ہو اسے خاموشی اور اخلاص کے ساتھ انجام دوں۔ میرے لیے اصل اہمیت کام کے معیار اور نیت کی رہی ہے، نہ کہ اس کے بدلے کوئی لقب یا پہچان پانے کی۔
اس لیے اگر مجھے اپنے لیے کوئی ایک پہچان چننی ہو تو میں یہی کہوں گا کہ "میں ایک طالب علم ہوں… اور ساری زندگی طالب علم ہی رہنا چاہتا ہوں۔”
سوال: اب جب کہ آپ ملازمت سے سبکدوش ہو چکے ہیں، آپ کا آئندہ کا علمی یا فکری منصوبہ کیا ہے؟
جواب:  سبکدوشی میرے لیے فارغ بیٹھنے کا نام نہیں ہے، بلکہ یہ زندگی کے اس مرحلے میں داخلہ ہے جہاں میں زیادہ سکون اور یکسوئی کے ساتھ اپنے کچھ خوابوں اور ذمہ داریوں کو پورا کر سکوں۔ میری پہلی ترجیح اب اپنے پریوار کے تئیں وہ ذمہ داریاں ادا کرنا ہے جو بیوی کی وفات کے بعد مجھ پر مزید بڑھ گئی ہیں۔
اس کے ساتھ ساتھ میرا دل چاہتا ہے کہ: دین کو سمجھنے اور اس کے بارے میں گہرے مطالعے پر وقت صرف کروں تاکہ اپنی زندگی کو زیادہ بامقصد بنا سکوں۔جدید ٹیکنالوجی اور علم کے وہ شعبے جن سے میں وابستہ رہا، ان میں مزید سیکھوں اور اپنی مہارت بڑھاؤں۔اور جو کچھ بھی میں نے سیکھا ہے، اسے اپنے سے جڑے ہوئے لوگوں کے فائدے کے لیے استعمال کر سکوں تاکہ وہ بھی اس سے فیض اٹھا سکیں۔
میرے لیے یہی اصل اطمینان کی بات ہے کہ علم، تجربہ اور فن کا سفر رکا نہیں بلکہ دوسروں کی خدمت کے ذریعے آگے بڑھتا رہے۔
سوال: آپ کی شریکِ حیات کی شخصیت کا سب سے نمایاں اور یادگار پہلو کیا تھا جو آج بھی آپ کے دل و دماغ پر نقش ہے؟
جواب:  میری شریکِ حیات کی شخصیت اپنے اندر غیر معمولی وسعت اور صلاحیتیں لیے ہوئے تھی۔ انھوں نے نہ صرف مجھے بلکہ پورے گھر کو بہت سی ذمہ داریوں اور مسائل سے محفوظ رکھا۔ ان کے اندر ایسی انتظامی مہارت اور معاملہ فہمی تھی کہ کئی پیچیدہ خانگی مسائل وہ اس طرح سنبھال لیتی تھیں کہ مجھے کبھی ان کا ادراک بھی نہ ہونے دیا۔ بچوں کی تعلیم و تربیت میں بھی ان کا کردار بنیادی تھا؛ ان کی سوچ اور تربیت کی بدولت بچے زندگی کے ابتدائی مرحلوں میں مضبوط بنیادوں پر کھڑے ہو سکے۔
ان کے بعد زندگی کا یہ رخ میرے سامنے آیا کہ گھریلو سطح پر آنے والے کئی مسائل ایسے ہیں جنھیں حل کرنے کی صلاحیت شاید میرے اندر نہیں، اور جن سے وہ مجھے ہمیشہ بچائے رکھتی تھیں۔ یہ اعتراف میرے لیے اس بات کی یاد دہانی ہے کہ وہ کس قدر مضبوط، سمجھدار اور محبت کرنے والی انسان تھیں، اور ان کا خلا زندگی میں آج بھی شدت سے محسوس ہوتا ہے۔

 

Shaikh Akram

Shaikh Akram S/O Shaikh Saleem Chief Editor aitebar news, Nanded (Maharashtra) Mob: 9028167307 Email: akram.ned@gmail.com

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے