किया अप भी अपने न्यूज़ पेपर की वेब साईट बनाना चाहते है या फिर न्यूज़ पोर्टल बनाना चहाते है तो कॉल करें 9860450452 / 9028982166 /9595154683

خشونت سنگھ کو خدا کا ٹیلی فون نمبر چاہئے

مرنے کے بعد آدمی کہاں جاتا ہے؟ معلوم کرنا ہے

از: عبدالعزیز
(یہ مضمون اس وقت لکھا گیا تھا جب خشونت سنگھ باحیات تھے)
مسٹر خشونت سنگھ انگریزی ادب و صحافت کے ممتاز و مشہور قلم کار ہیں مگر خدا کے وجود کے قائل نہیں ہیں۔ انگریزی روزنامہ ٹیلی گراف میں اپنی عقل و فلسفے کے شگوفے اکثر چھوڑتے رہتے ہیں۔ گزشتہ سنیچر (2 جولائی 2011ء) کو موصوف نے گاندھی جی کے نواسے راج موہن گاندھی سے اپنی ایک حالیہ ملاقات اور بات چیت کا ذکر کیا ہے۔ راج موہن گاندھی نہ صرف اچھے اور بلند پایہ صحافی اور ادیب ہیں بلکہ بہت اچھے انسان بھی ہیں ۔بنگال کے سابق گورنر گوپال کرشن گاندھی کے بڑے بھائی ہیں۔ موصوف کی انگریزی زبان میں بہت ساری کتابیں شائع ہوچکی ہیں۔مسلم دماغ (Muslim Mind) سے ان کی کتاب بہت اچھی اور مشہور ہے۔
خشونت سنگھ رقمطراز ہیں ’’چند ہفتے پہلے راج موہن گاندھی کا ایک فون کال آیا کہ وہ اور ان کی اہلیہ اوشا مجھ سے ملاقات کی خواہاں ہیں۔اس فون کال سے میں پھولے نہیں سمایاکیونکہ گاندھی جی کے نواسے اور راج گوپال اچاریہ( ہندستان کے پہلے گورنر جنرل) کے پوتے مجھ جیسے آدمی سے ملنا چاہتے ہیں۔میں نے فوراً دعوت دی ۔ وہ اپنی خوبصورت بیوی کے ساتھ میرے پاس آئے۔ شام سات بجے کا وقت تھا میں نے شراب نوشی کی پیشکش کی۔ دونوں نے شراب پینے سے انکار کیا۔دونوں شراب نوشی کے سخت خلاف ہیں۔ میں نے شربت پلا یا۔ میں نے دریافت کیا کہ آپ ہندستان جانے کا ارادہ رکھتے ہیں یا نہیں جواب میں انہوں نے کہافی الحال ایسا کوئی ارادہ نہیں ہے۔ ریلی نوائز یونیورسٹی امریکہ کے کاموں پر منہمک ہوں‘ ہاں مگر دہلی میں اپنا ایک فلیٹ رکھ چھوڑا ہے تاکہ جب کبھی جائوں تو وہاں ٹھہر سکوں۔ ‘‘
مجھے یہ سن کر افسوس ہوا کہ راج موہن گاندھی جیسے دانشور سے ہمارا ملک محروم رہے گا۔ راج موہن کو میں نے اس وقت جانا جب وہ اخلاقی تحریک چلا رہے تھے اور رسالہ ’’ہمت ‘‘کی ادارت سنبھالے ہوئے تھے لیکن میں راج موہن گاندھی سے اس وقت زیادہ قریب ہوا جب وہ مدراس کے انڈین ایکسپریس کے ایڈیٹر تھے ۔ انہوں نے مجھ سے مطالبہ کیا کہ میں اپنے ’عقید ے‘ پر ایک آرٹیکل لکھو ں کہ میں دہریہ کیوں ہوں اور خدا کے وجود پر کیوں یقین نہیں رکھتا؟ اس ملاقات کے کچھ دنوں بعد مجھے ایک خط موصول ہوا جس میں لکھا ہوا تھا:
’’پیارے چچا جی ! اپنے ڈیڈی کے پیپر میں پڑھا کہ آپ سمجھتے ہیں کہ خدا کا وجود نہیں ہے ، چچا آپ غلطی پر ہیں خدا میرے یہاں روزانہ آتا ہے مجھ سے اور میرے ڈیڈی اور ممی سے باتیں کرتا ہے اور میرے بھائی سے بھی، اس طرح اوروں سے بھی محو گفتگو رہتا ہے‘‘۔
آپ کی سپریا
میں نے اسے لکھا ’’ڈیئر سپریا! مجھے بڑی مسرت ہوئی کہ خدا تم سے تمہارے بھائی اور والدین سے روزانہ ملاقات اور بات چیت کرتا ہے مگر وہ مجھ سے ملاقات نہیں کرتا اور نہ مجھ سے باتیں کرتا ہے ۔بڑی کرم فرمائی ہوگی کہ تم مجھے اس کا ٹیلی فون نمبر بھیج دو۔‘‘ پھر میں نے راج موہن سے دو سوالات کئے۔
کون ہے جو میرے دماغ میں کسی چیز کا نقش بیٹھاتا ہے کیا کوئی خدا ہے؟ انہوں نے جواب دیا میں یقین کرتا ہون کہ خدا ہے اور اسی نے ہمیں آج شام ایک ساتھ مل بیٹھنے کا موقع دیا ۔ میں نے مداخلت کرتے ہوئے کہا کہ ان لوگوں نے مجھ سے ملاقات کی خواہش ظاہر کی اور میں نے خوش آمدید کہا خدا کا بھلا اس میں کیا ہاتھ ہوسکتاہے؟ میں نے اپنا دوسرا سوال کیا کہ مرنے کے بعد انسان کہاں جاتا ہے؟ راج موہن نے کہا کہ میں یقین کے ساتھ تو نہیں کہہ سکتا لیکن میں جانتا ہوں کہ ہم سب ایک اچھے مقام پر جائیں گے_____‘‘
راج موہن گاندھی کی کتنی سچی اور اچھی بات تھی کہ خدا ہے جس نے آج شام ہمیں ایک دوسرے سے ملایا ۔ خشونت سنگھ کا یہ کہنا کہ اس میں خدا کا کیا ہاتھ ہے یقینا خدا کا ہاتھ ہے اس کی مرضی شامل ہے جب ہی یہ ملاقات انجام پذیر ہوئی ورنہ ممکن نہیں تھا۔ایسا بھی ہوسکتا تھا کہ خشونت سنگھ میاں بیوی کے ساتھ آنے سے پہلے ناگہانی موت کے شکار ہوجاتے یا راج موہن گاندھی اور ان کی فیملی کا خیال بدل جاتا یا ان کے ساتھ کوئی حادثہ پیش آجاتا تو بھلا یہ ملاقات کیسے اورکیوں کر ہوتی؟ ان نکات پر خشونت سنگھ کو شاید کبھی سوچنے کا موقع نہیں ملا۔خدا کو مسبب الاسباب کہاجاتا ہے اسی لئے کہاجاتا ہے کہ جب سارے اسباب جمع ہوجاتے ہیں تب کوئی چیز معرض وجود میں آتی ہے یا وجود پذیر ہوتی ہے اس لئے سائنس دانوں کو بھی کہنا پڑتا ہے کہ کوئی چیز بغیر سبب کے نہیں ہوتی (Nothing Happens without reason) خدا ہی تو ہے جو سبب پیدا کرتا ہے۔ وہی ہے جو نظام ہستی چلا رہا ہے۔
خشونت سنگھ نے یہ بھی پوچھا ہے کہ ہمارے دماغوں میں چیزوں کا نقش کیسے بیٹھتا ہے اور کون بیٹھاتا ہے؟نقش بغیر نقاش کے مضمون بغیر مضمون نگار کے ، نظم بغیر ناظم کے ، عمل بغیر عامل کے ، قیام بغیر قیوم کے ،سب کچھ بغیر کسی موجود کے کیسے ممکن ہو سکتا ہے؟
پروردگاری موجود ہو مگر کوئی پروردگار موجود نہ ہو؟ کارسازی موجود ہو مگر کوئی کارساز موجود نہیں ؟ رحمت موجود ہو مگر کوئی رحیم نہیں؟ حکمت موجود ہے مگر کوئی حکیم نہیں ؟ سب کچھ موجود ہے مگر کوئی موجود نہیں؟ یہ ہے خشونت سنگھ جیسے فلسفی کا دماغ۔ اکبر نے سچ کہا ہے:
فلسفی کو بحث میں خدا ملتا نہیں … ڈور سلجھا رہا ہے سرا ملتا نہیں
خشونت سنگھ نے موت کے بعد کی زندگی کے بارے میں سوال کیا ہے مگر اگر دنیاوی زندگی کے بارے میں گہرائی سے سوچتے تو ان کو اس سوال کاجواب آسانی سے مل جاتا ۔ ہم میں سے ہر شخص کچھ بھی نہیں تھا اس کا کوئی کہیں کسی جگہ بھی وجود نہیں تھا یہ کیسے وجود میں آیا ۔ اس کے وجود کا کوئی مقصد یا غایت ہے یا نہیں؟ کون ہے جو آسمان و زمین سے روزی فراہم کرتا ہے؟ وہ انسان کو کیسے بے مقصد پیدا کرسکتا ہے؟ اس کو شتر بے مہار کی طرح یونہی کیسے چھوڑ سکتا ہے؟
پس وہی پیدا کرنے والا ہے اور اسی کی طرف لوٹنا ہے مرکز حقیقی وہی ہے ، ہر چیز اس کے قبضۂ قدرت میں ہے اس کے دائرے سے نہ کوئی نکل سکتا ہے نہ اس سے اوجھل ہوسکتا ہے وہی اول وہی آخر ۔ اسی لئے کسی دوسرے خدا کی گنجائش نہیں ۔ کائنات میں جس قدر عجائب ِ قدرت و صنعت ہم دیکھتے ہیں ان سب میں اس امر کی شہادت موجود ہے کہ وہ ایک حکیم مدبر کی تدبیر و حکمت سے وجود میں آئی ہے۔ اس امر کی ناقابل انکار دلیل ہے کہ یہ عالم ایک غایت ومقصد کے ساتھ وجود میں آیا ہے ۔ اور ایک ایسے انجام پر ختم ہوگا جو سراسر رحمت و حکمت ہے۔ پھر یہیں سے یہ بات بھی نکل آتی ہے کہ ہر صاحبِ عمل کو پورا پورا بدلہ ملے۔ برے اور بھلے میں امتیاز ہو۔ برائی کا برا اور بھلائی کا بدلہ بھلا ، جیسی کرنی ویسی بھرنی۔ یہ دوسری دنیا میں ہی ممکن ہے اگر ایسا یہاں ممکن ہوتا تو دوسری دنیا کی دوسری زندگی کی ہر گز ضرورت نہ ہوتی مگر ہم شب و روز دیکھتے ہیں ایک شخص دن دہاڑے ہزاروں کا قتل کردیتا ہے کبھی وہ دنیاوی قانون کی نظروں سے بچ نکلتا ہے اور پکڑا بھی جاتا ہے تو دنیاوی حکومتیں یا تو اسے سزائے موت دیتی ہیں یا عمر قید کا فیصلہ سناتی ہیں۔ کیا ہزاروں زندگیوں کے قاتل کی سزا صرف ایک زندگی کا خاتمہ یا عمر قید کی سزا مکمل انصاف کے نظریے کو پورا کرنے میں کامیاب ہوتی ہے۔خشونت سنگھ جیسے لوگ بھی شاید کہیں گے نہیں۔ اس کی سزائے موت یا ایک عمر قید نہ ہزاروں زندگیوں کے ساتھ مکمل انصاف نہیں ہے اسی لئے مکمل انصاف کیلئے دوسری زندگی اور دوسری دنیا کی ضرورت ہے۔ اسی طرح ایک شخص ہزاروںزندگیوںکو اپنی کوشش سے بچا لیتا ہے یا اس کے ساتھ بھلا ئی کرتا ہے کون ہے جو ایسے بھلے شخص کو اس دنیا میں مکمل جزا دے سکتا ہے۔ لہٰذا جزا کیلئے دوسری دنیا یا دوسری زندگی کی اتنی ہی ضرورت ہے جتنی کہ جزا کیلئے۔
حقیقت یہ ہے جو لوگ آخرت یا دوسری زندگی کے منکر ہیں وہ حق و عد ل کے بھی منکر ہیں۔ ان کا عدل ِ کامل پر یقین نہیں ہے ان کی ساری کوششیں دنیا کیلئے ہوتی ہیں۔ اس کی محبت میں ڈوبے رہتے ہیں ان پر کسی دلیل یا ثبوت کا کوئی اثر نہیں ہوتا۔ کیونکہ حق اور صداقت کے سارے وسائل انہوں نے منقطع کردئیے ہیں اور اس کے دروازے اپنے اوپر بند کررکھے ہیں۔

E-mail:azizabdul03@gmail.com

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے