किया अप भी अपने न्यूज़ पेपर की वेब साईट बनाना चाहते है या फिर न्यूज़ पोर्टल बनाना चहाते है तो कॉल करें 9860450452 / 9028982166 /9595154683

جہیز: ایک سماجی ناسور،خدا کی لعنت اور گناہ جاریہ

تحریر: مولانا ارشد کبیر خاقان مظاہری
ناظم: مدرسہ نور المعارف، مولانا علی میاں نگر،دیا گنج،ضلع ارریہ
جنرل سکریٹری: ابوالحسن علی ایجوکیشنل اینڈ ویلفیر ٹرسٹ

ہمارا معاشرہ اس وقت بے شمار سماجی برائیوں کے نرغے میں ہے، جو خاموشی سے ہماری تہذیب، روایات اور اخلاقی قدروں کو چاٹ رہی ہیں۔ یہ برائیاں محض انفرادی زندگی کو متاثر نہیں کرتیں بلکہ اجتماعی نظامِ زندگی میں ایسی دراڑیں ڈال دیتی ہیں جو بسا اوقات نسل در نسل دکھ اور محرومی کا سبب بنتی ہیں۔ ان برائیوں میں بعض اتنی خطرناک اور مہلک ہیں کہ وہ نہ صرف گھریلو سکون اور خاندانی نظام کو تباہ کر دیتی ہیں، بلکہ انسانی ہمدردی، عزت و وقار، اور سماجی توازن کو بھی جڑ سے اکھاڑ پھینکتی ہیں۔
ایسی ہی ایک ناسور نما روایت ”جہیز” کی لعنت ہے، جو ہمارے معاشرے میں نہ صرف زندہ ہے بلکہ دن بہ دن مضبوط ہوتی جا رہی ہے۔ یہ رسم، جو کبھی خوشی کی علامت سمجھی جاتی تھی، اب ایک خوفناک مطالبے کی صورت اختیار کر چکی ہے، جو بیٹی کے باپ کو عمر بھر کے قرض، ذلت اور بے بسی کی زنجیروں میں جکڑ دیتی ہے۔ اس ظالمانہ رسم نے ہزاروں نہیں بلکہ لاکھوں بیٹیوں کو شادی کے حق سے محروم کر دیا ہے، اور بہت سے والدین کو یا تو خودکشی جیسے قدم اٹھانے پر مجبور کر دیا ہے یا ساری زندگی شرمندگی اور بے بسی کی زندگی گزارنے پر۔
جہیز صرف ایک مالی بوجھ نہیں، بلکہ یہ ایک ایسی ذہنی اذیت ہے جو عزت دار خاندانوں کو اندر ہی اندر توڑ کر رکھ دیتی ہے۔ یہ عمل نہ صرف غیر اخلاقی ہے بلکہ سراسر غیر اسلامی بھی ہے، کیونکہ دینِ اسلام نے نکاح کو سہل اور آسان بنانے کا حکم دیا ہے، نہ کہ اسے مالیاتی لین دین کا ذریعہ۔
یہ رسم آج ہمارے معاشرے کی رگوں میں زہر بن کر دوڑ رہی ہے، اور جب تک ہم اجتماعی طور پر اس کے خلاف آواز بلند نہیں کریں گے، تب تک نہ ہماری بیٹیوں کو انصاف ملے گا اور نہ ہمارے معاشرے کو حقیقی سکون اور برکت نصیب ہو گی
دینِ اسلام کا نظریہ:
اسلام نے نکاح کو آسان اور سادہ عمل قرار دیا ہے۔ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:اور اپنے میں سے ان لوگوں کا نکاح کر دو جو بے نکاح ہوں۔ اگر وہ فقیر ہوں گے تو اللہ اپنے فضل سے ان کو غنی کر دے گا۔‘‘(سور النور، آیت 32)
حضور نبی اکرم کی زندگی ہمارے لیے نمونہ ہے۔ آپ نے اپنی بیٹیوں کی شادیاں سادگی سے کیں۔ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کے نکاح میں جو سامان دیا گیا، وہ محض ایک چکی، ایک مشکیزہ اور ایک چادر تھا۔ نہ کوئی دکھاوا، نہ کسی قسم کی نمود و نمائش۔
اسلام کا نظریہ ”جہیز” کے حوالے سے بالکل واضح، سادہ اور عدل و مساوات پر مبنی ہے۔ دینِ اسلام نے نکاح کو آسان اور بابرکت بنانے پر زور دیا ہے، اور شادی کو مالی بوجھ یا دکھاوے کا ذریعہ بنانے سے منع فرمایا ہے۔ ”جہیز” جیسی رسم نہ صرف اسلامی مزاج کے خلاف ہے، بلکہ ظلم اور استحصال کی ایک شکل بھی ہے، خاص طور پر جب اسے ایک شرط یا مطالبے کے طور پر پیش کیا جائے۔
اسلام نے نکاح کو آسان بنانے کی تعلیم دی ہے جناچہ نبی اکرم نے فرمایا: ”سب سے بابرکت نکاح وہ ہے جس میں خرچ کم ہو۔” (سنن ابن ماجہ)
یہ حدیث واضح طور پر یہ بتاتی ہے کہ اسلام نکاح میں سادگی اور کم خرچ کو پسند کرتا ہے، نہ کہ دکھاوا، رسومات یا مال و دولت کی بنیاد پر شادی۔
اسی طرح بیٹیوں پر مالی بوجھ ڈالنا ظلم ہے،اسلام والدین کو مالی دباؤ میں ڈال کر شادی کا مطالبہ کرنے کو ظلم قرار دیتا ہے۔ حضرت علی اور حضرت فاطمہ کی شادی اسوہء حسنہ ہے۔ نبی کریم نے خود اپنی بیٹی فاطمہ کی شادی میں کوئی جہیز بطور شرط یا رسم نہیں رکھا۔ البتہ آپ نے کچھ سادہ گھریلو اشیاء￿ عنایت فرمائیں، جو تحفے کے طور پر تھیں، نہ کہ معاشرتی مطالبے کے تحت۔
اسی طرح جہیز کا مطالبہ ”حق مہر” کے برعکس ہے،اسلام نے بیوی کو مہر دینا فرض کیا ہے، مگر آج کے معاشرے میں اس کے برعکس، بیوی کے گھر والوں سے ”جہیز” مانگا جاتا ہے، جو کہ سراسر اسلامی اصولوں کی خلاف ورزی ہے۔
عورتوں کو مہر خوش دلی سے دو،قرآن کریم میں ارشاد ہے: ”اور عورتوں کو ان کے مہر خوش دلی سے دو” (القرآن، سور النساء￿ : آیت 4)یہ آیت اس بات کی دلیل ہے کہ اسلام بیٹیوں کو مالی لحاظ سے بوجھ نہیں بلکہ قابلِ عزت فرد تصور کرتا ہے۔
معاشرتی المیہ ہے کہ آج ہم نے دین کو چھوڑ کر رسوم و رواج کو اپنایا ہے۔ بیٹی کی شادی کے وقت والدین کو ایک کمر توڑ دینے والے بوجھ کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ قیمتی سامان، زیورات، گاڑیاں، موٹر سائیکلیں، نقد رقم اور دیگر مطالبات کی ایک لمبی فہرست بن جاتی ہے۔ کئی والدین ان تقاضوں کو پورا کرنے کے لیے قرض کے بوجھ تلے دب جاتے ہیں یا عمر بھر کی جمع پونجی ختم کر بیٹھتے ہیں۔
جہیز کے باعث نہ جانے کتنی لڑکیاں شادی کے بعد مسلسل ذہنی اذیت، طعن و تشنیع اور ظلم و ستم کا شکار ہوتی ہیں۔ کئی بار تو نوبت طلاق یا خودکشی تک پہنچ جاتی ہے۔ حالیہ برسوں میں ملک کے مختلف حصوں میں جہیز کے سبب لڑکیوں کے ساتھ ہونے والی بدسلوکی اور قتل کے واقعات ایک بھیانک تصویر پیش کرتے ہیں۔
معاشرتی اثرات اور شرعی حیثیت:1۔غریب طبقہ بری طرح متاثر ہوتا ہے، کیونکہ وہ نہ تو مہنگا جہیز دے سکتا ہے اور نہ ہی برادری کے طعنوں سے بچ سکتا ہے۔2۔ بیٹیوں کو بوجھ سمجھا جانے لگا ہے، جس کے نتیجے میں بعض علاقوں میں لڑکیوں کی ولادت پر افسوس منایا جاتا ہے۔3۔شادی میں تاخیر صرف اس لیے ہوتی ہے کہ والدین ابھی تک‘‘قابلِ قبول جہیز’’جمع نہیں کر سکے۔4۔مرد کے غرور کو تقویت ملتی ہے، اور نکاح کو ایک خریدو فروخت کا سودا بنا دیا جاتا ہے۔
جہیز دینا اگر خوش دلی سے اور اپنی استطاعت کے مطابق ہو تو نہ صرف جائز ہے بلکہ بعض صورتوں میں ثواب کا باعث بھی ہو سکتا ہے۔ مگر جب یہ بوجھ بن جائے، مطالبہ بن جائے، شرط بن جائے، یا رشتہ کے لیے بنیاد بن جائے، تو یہ ایک ظلم اور گناہ ہے۔نبی کریم نے فرمایا:’’سب سے بابرکت نکاح وہ ہے جس میں کم خرچ ہو۔‘‘(سنن ابن ماجہ)
حل اور تجاویز:
1۔علماء￿ کرام، دانشوروں اور سوشل ایکٹوسٹ کو چاہیے کہ وہ اس لعنت کے خلاف بیداری مہم چلائیں۔2۔نکاح کو آسان بنایا جائے، اور معاشرے میں سادگی کو رواج دیا جائے۔ 3۔قانونی سطح پر سخت قوانین بنائے جائیں، اور جہیز کے مطالبے کو جرم قرار دیا جائے۔4۔لڑکوں کے والدین اپنی اصلاح کریں، اور مطالبات کی فہرست ختم کریں۔5۔تعلیم یافتہ نوجوان آگے بڑھ کر آواز اٹھائیں اور عملی مثال بنیں۔
جہیز ایک ناسور ہے جو خاموشی سے ہمارے معاشرے کو اندر سے کھوکھلا کر رہا ہے۔ جب تک ہم خود اس کے خلاف آواز نہیں اٹھائیں گے، نہ قوانین مؤثر ہوں گے، نہ وعظ و نصیحت کا کوئی اثر ہوگا۔ یہ وقت ہے کہ ہم بیدار ہوں، باہمی رضامندی اور سادگی کے ساتھ نکاح کو فروغ دیں، اور بیٹیوں کو ذلت سے بچائیں۔
یاد رکھیں، ایک باعزت بیٹی کا ہاتھ تھامنا ہی اصل مردانگی ہے، نہ کہ اس کے مال و اسباب کا سودا کرنا۔اللہ پاک ہم سبھوں کو عمل کی توفیق بخشے۔آمین یا رب العالمین

Shaikh Akram

Shaikh Akram S/O Shaikh Saleem Chief Editor aitebar news, Nanded (Maharashtra) Mob: 9028167307 Email: akram.ned@gmail.com

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے