किया अप भी अपने न्यूज़ पेपर की वेब साईट बनाना चाहते है या फिर न्यूज़ पोर्टल बनाना चहाते है तो कॉल करें 9860450452 / 9028982166 /9595154683

تحریک ِ طالبِ علم : تحریکی شخصیات (۱) لُوئس بریل(۲) چیکب پارکس(۳) فرینکلین ڈیلا نوروز ویلٹ(۴) بل گیٹس(۵) اسٹیفین ہاکنگ(۶) میڈم میری کیوری( قسط : 5)

(طلبہ و طالبات کی ہمت و حوصلہ افزائی ، غوروفکر ، احساس کی بیداری کے لئے قومی و بین الاقوامی شخصیتوں سے متعلق حیرت انگیز معلومات فراہم کی جارہی ہیں)

ترتیب: عبدالحمید خان غضنفرؔ ( ناندیڑ)

٭٭٭٭٭
لُوئس بریل
لُوئس بریل ’’ بریل رسم الخط‘‘ کا موجد ( نابیناؤں؍اندھوں) کے پڑھنے کے حروف کا موجد) کا جنم نہایت ہی معمولی گھرانے میں ہوا تھا۔ ان کے والد ایک موچی تھے جو گھوڑے کی زین اور کاٹھی بنانے کا کام کرتے تھے۔ لُوئس بریل پیدائشی طور پر نابینا ( اندھے) نہیں تھے۔ پندرہ سال کی عمر میں ایک دن جب وہ اپنے والد کے اوزار سے کھیل رہے تھے کہ ان کی ایک آنکھ پھوٹ گئی۔ اس آنکھ کی خرابی کا اثر دوسری آنکھ پر بھی پڑا اور وہ پوری طرح اندھے ہوگئے۔ آگے چل کر انھوںنے بریل رسم الخط کی ایجاد کی۔
٭٭٭٭٭
چیکب پارکس
غربت ( غریبی) انسان کو نہ پڑھنے لکھنے سے روک سکتی ہے نہ کوئی نئی چیز دریافت یا ایجاد کرنے سے روک سکتی ہے۔ اس کی بہترین مثال ’’ چیکب پارکس‘‘ ہے۔ جیکب پارکس کا تعلق نہایت ہی غریب گھرانے سے تھا۔ بچپن میں وہ ایک غریب بچہ ( جیکب پارکس) جو آئس کریم نہ کھا سکا تو اس نے برف بنانے کی مشین بنانے کا تہیہ کیا۔ اُس زمانے میں مصنوعی برف نہیں تھی۔ برفیلے علاقوں و پہاڑی سے برف منگوائی جاتی تھی اور اس سے آئس کریم جمائی جاتی تھی جو نہایت ہی مہنگی ہوتی تھی اور اُسے صرف امیر لوگ ہی جما کر یا خرید کر کھا سکتے تھے۔ جیکب پارکس نے بڑے ہوکر مسلسل بیس سال تک محنت کرنے کے بعد برف تیار کرنے کی مشین ایجاد کرلی۔
( پیام تعلیم، صفحہ: 63، فروری 2012ء)
٭٭٭٭٭
فرینکلین ڈیلا نوروز ویلٹ
فرینکلین ڈیلا نوروز ویلٹ کی پیدائش 30 جنوری 1882ء کو امریکہ میں ہوئی۔ وہ امریکہ کے 32 ویں صدر تھے۔ شروع ہی سے سیاست سے گہری دلچسپی تھی۔ 1922ء میں ان پر پولیو کا حملہ ہوا اور چلنے پھرنے سے معذور ہوگئے۔ اس کے باوجود اپنا سیاسی سفر جاری رکھا۔ ایک مرتبہ بے روزگاری کے موضوع پر منعقدہ سمینار کے موقع پر انھوں نے کہا تھا ’’ ہم لوگوں کو اپنے اندر پیدا ہونے والے ڈر سے ہی ڈر ہے۔‘‘ پہلی صدارت کے بعد ’’ 1936‘‘ اور ’’1940‘‘ اور ’’1944‘‘ میں صدر کے لیے انتخاب میں شامل ہوئے اور ہر مرتبہ اپنے مخالفین ( حریف) کو شکست دی۔ اس طرح انھوں نے دوسری، تیسری اور چوتھی بار امریکہ کی صدارت کی کرسی پر بیٹھ کر دُنیا کو دکھایا کہ کسی انسان کی معذوری اس کی ترقی کی راہ میں رُکاوٹ نہیں ، صرف عمل اور جدوجہد جاری رکھنی شرط ہے۔ ان کی وفات 12؍اپریل 1945ء کو ہوئی۔
( بحوالہ :اعتماد 9 ؍جولائی 2008ء)
٭٭٭٭٭
بل گیٹس
بل گیٹس مائیکرو سافٹ کمپنی کے چیئرمین اور دُنیا کے دوسرے امیر ترین شخص ہیں۔ 1978ء میں انھوں نے اپنے ایک دوست کے ساتھ مل کر مائیکرو سافٹ کمپنی کی بنیاد رکھی۔ انھوں نے دوسروں سے سافٹ ویئر پروگرام لے کر انھیں بہتر کرکے بازار میں پیش کیا۔ ان کے آپریٹنگ سسٹم ’’ ونڈوز‘‘ نے کمپیوٹر کی دُنیا میں انقلاب برپا کردیا تھا۔ اس کی فروخت نے انھیں دُنیا کا ایک امیر ترین شخص بنادیا۔ وہ ان دنوں فلاحی کاموں پر زیادہ دولت صرف کررہے ہیں۔
(بحوالہ: منصف 21؍مئی 2011ء)
٭٭٭٭٭
اسٹیفین ہاکنگ
اسٹیفین ہاکنگ دُنیا کے مایہ ناز سائنسداں جن کا تعلق ملک انگلینڈ سے ہے جنھوں نے خلائی و فلکیات میں ناقابل فراموش تحقیق کی اور کررہے ہیں۔ 1963ء میں وہ ایک لاعلاج مرض کی گرفت میں آگئے۔ اس مرض نے انھیں ہمیشہ کے لیے معذور بنادیا۔ اس وقت وہ اپنے چہرے کی کچھ نسیں اور بائیں ہاتھ کی صرف ایک انگلی ہی ہلاپاتے ہیں۔ اتنے مہلک اور موذی مرض میں مبتلا ہونے کے باوجود ہاکنگ کی محنت اور ان کا کام کرنے کا طریقہ سبق آموز ہے جو ہمیں بھی حوصلہ عطا کرتا ہے اور قوت فکر و عمل کی ترغیب دلاتا ہے۔ وہ روزانہ آفس میں دس سے بارہ گھنٹے کام کرتے ہیں۔
( بحوالہ: منصف 7؍نومبر 2007ء)
٭٭٭٭٭
میڈم میری کیوری
میڈم میری کیوری واحد شخصیت ہیں جنھیں فزکس ( طبیعات) اور کیمسٹری ( کیمیاء) دونوں میں نوبل پرائز ( جو دنیا کا سب سے بڑا انعام ہے) ملا ہے۔ میڈم کیوری کی زندگی مسلسل جدوجہد اور غربت و افلاس سے شکست نہ کھانے کی کہانی ہے۔ ان کے والدین اپنے پانچ بچوں کو کبھی پڑھنے کی ترغیب نہیں دی۔ ان کی ماں کو ٹی بی تھی۔ جب میڈم کیوری دس سال کی تھیں ان کی ماں کا انتقال ہوگیا۔ باپ کی نوکری چلی گئی۔ میری کیوری کو ایک سال کے لیے دیہات بھیج دیا گیا۔ جب وہ مارسا واپس آئیں تو انھیں اچھی یونیورسٹی میں پڑھنے کی خواہش ہوئی۔ ان کی بڑی بہن بھی پڑھنا چاہتی تھی لیکن ان کے پاس پیسے نہیں تھے۔ ٹھنڈے کمرے میں وہ دو دو بجے رات تک پڑھتی رہتی تھیں اور لوہے کے بستر پر سوتی تھیں۔ اسی طرح بھوکی وہ کتابوں کے بیچ رہیں۔ ان کی صحت خراب رہنے لگی تو ڈاکٹروں نے بتایا کہ انھیں ٹی بی ہے۔ لیکن وہ اس کی پرواہ نہ کرکے کام کرتی رہیں۔ انھوں نے پلوٹینم اور ریڈیم کا پتا چلایا۔ ریڈیم کا استعمال کینسر کے علاج میں کیا جاتا ہے۔ وہ نوبل پرائز لینے کے لیے اسٹاک ہوم نہیں گئیں۔ انھوں نے کہا کہ ’’ مجھے تجربہ گاہ چاہیے نہ کہ نام و نمود۔‘‘
(بحوالہ ماہنامہ ’’ پیام تعلیم‘‘ دسمبر 2011ء، صفحہ نمبر: 39 تا 40)
٭٭٭٭٭

Shaikh Akram

Shaikh Akram S/O Shaikh Saleem Chief Editor aitebar news, Nanded (Maharashtra) Mob: 9028167307 Email: akram.ned@gmail.com

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے