किया अप भी अपने न्यूज़ पेपर की वेब साईट बनाना चाहते है या फिर न्यूज़ पोर्टल बनाना चहाते है तो कॉल करें 9860450452 / 9028982166 /9595154683

تبلیغی جماعت کیس میں تاریخی عدالتی فیصلہ:آئینی اصولوں کی فتح یا الزامات کی شکست؟

تحریر: شمس آغاز
ایڈیٹر،دی کوریج
Mobile:9716518126
shamsaghazrs@gmail.com

ہندوستان کی عدلیہ نے حال ہی میں ایک ایسا فیصلہ سنایا ہے جو قانونی تاریخ میں نہ صرف ایک نظیر کے طور پر یاد رکھا جائے گا بلکہ اس نے سماجی انصاف، آئینی اصولوں اور انسانی وقار کے تحفظ کی جو مثال قائم کی ہے، وہ آنے والے برسوں تک موضوعِ بحث رہے گی۔ دہلی ہائی کورٹ کا وہ فیصلہ، جس میں تبلیغی جماعت کے ستر(70) ارکان کے خلاف درج سولہ(16) ایف آئی آر اور ان پر دائر چارج شیٹ کو مکمل طور پر خارج کر دیا گیا، صرف ایک مقدمے کی بندش نہیں بلکہ ایک ایسے ماحول میں سامنے آیا ہے جہاں مذہبی اقلیتوں کو برسوں سے مشتبہ اور خطرناک بنا کر پیش کیا جاتا رہا ہے۔ ان پر بدنیتی پر مبنی الزامات لگائے گئے اور قانونی اداروں کا استعمال کرکے انہیں سماجی طور پر الگ تھلگ کرنے کی کوشش کی گئی۔ اس فیصلے نے ان تمام رویّوں پر نہ صرف سوال اٹھائے بلکہ ان کے خلاف ایک عدالتی تادیب بھی فراہم کی ہے۔
مارچ 2020 میں، جب کورونا وائرس کی وبا نے دنیا کو اپنی لپیٹ میں لینا شروع کیا، دہلی کے نظام الدین میں تبلیغی جماعت کا سالانہ اجتماع منعقد ہوا۔ اس وقت ملک میں لاک ڈاؤن کا باضابطہ اعلان نہیں ہوا تھا اور سفری پابندیاں بھی مکمل طور پر نافذ نہیں کی گئی تھیں۔ تاہم، اس مذہبی اجتماع کو بعض میڈیا اداروں اور سیاسی حلقوں کی جانب سے ایک سازش کے طور پر پیش کیا گیا۔ پورے ملک میں ایک طوفان برپا ہوا جس میں تبلیغی جماعت کو ’سپر اسپریڈر‘ کے طور پر بدنام کیا گیا۔ نیوز چینلز نے بغیر تحقیق ایسی خبریں نشر کیں جنہوں نے عوام کے ذہن میں یہ تاثر مضبوط کیا کہ یہ جماعت اور اس سے وابستہ افراد جان بوجھ کر ونا پھیلانے کے مجرم ہیں۔ اس دوران ”کورونا جہاد” جیسے اشتعال انگیز اور نفرت انگیز اصطلاحات عام ہو گئیں جو صحافتی اصولوں کی پامالی کے ساتھ ساتھ آئینی مساوات کی روح کو بھی مجروح کرنے کے مترادف تھا۔
اس اجتماع کے بعد ملک کی مختلف ریاستوں میں تبلیغی جماعت سے وابستہ افراد کے خلاف درجنوں مقدمات درج کیے گئے۔ ان پر مجرمانہ سازش، حکومت کے احکامات کی خلاف ورزی، ویزا قوانین کی خلاف ورزی، اور لاپرواہی سے انسانی زندگی کو خطرے میں ڈالنے جیسے سنگین الزامات عائد کیے گئے۔ ان میں سے کئی افراد غیر ملکی تھے، جنہیں مقدمہ شروع ہونے سے پہلے ہی ملک بدر کر دیا گیا جبکہ بعض کو طویل عرصے تک حراست میں رکھا گیا۔ ان مقدمات کے دوران متاثرہ افراد کو مالی، جذباتی اور سماجی اذیتوں کا سامنا کرنا پڑا۔ کئی خاندان تباہ ہو گئے، لوگوں کی روزی روٹی چھن گئی اور انہیں معاشرتی سطح پر حقارت و نفرت کا سامنا کرنا پڑا۔ ان تمام واقعات نے یہ سوالات جنم دیے کہ ان کے ساتھ ہونے والا سلوک انصاف پر مبنی تھا یا مذہبی تعصب کا نتیجہ۔
وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ عدالتوں نے ان مقدمات کا باریک بینی سے جائزہ لینا شروع کیا۔ سب سے پہلے ممبئی کی ایک عدالت نے تبلیغی جماعت سے وابستہ کئی غیر ملکی افراد کو بری کرتے ہوئے کہا کہ ان کے خلاف کوئی پختہ ثبوت موجود نہیں تھا۔ بعد ازاں دہلی کی عدالتوں نے بھی ان الزامات کو کمزور قرار دیا۔ لیکن سب سے اہم فیصلہ دہلی ہائی کورٹ کی جسٹس نینا بنسل کرشنا کا تھا، جنہوں نے واضح الفاظ میں کہا کہ ان ایف آئی آرز اور چارج شیٹ کا کوئی حقیقی قانونی جواز نہیں تھا، اور یہ تمام کارروائیاں تعصب، خوف، اور سیاسی دباؤ کے تحت کی گئی تھیں۔
یہ فیصلہ نہ صرف ان افراد کی بے گناہی کا اعتراف ہے بلکہ اس نظام پر بھی سوال اٹھاتا ہے جو مذہب کی بنیاد پر قانون کا استعمال کرتا ہے۔ عدالت نے تسلیم کیا کہ تبلیغی جماعت کے خلاف کی گئی کارروائیاں دراصل انتظامی ناکامیوں کو چھپانے کی کوشش تھیں۔ جہاں کورونا جیسی عالمی وبا سے نمٹنے کے لیے حکومتوں کو فوری اور مؤثر اقدامات کرنے تھے، وہاں بعض عناصر نے اس بحران کو ایک مخصوص طبقے کو بدنام کرنے کا ذریعہ بنا لیا۔ عدالت نے یہ بھی کہا کہ ان مقدمات کا مقصد قانونی نفاذ نہیں بلکہ مذہبی اقلیت کو نشانہ بنانا تھا۔
یہ فیصلہ اس لحاظ سے بھی اہم ہے کہ کورونا کے ابتدائی دنوں میں جب پورا ملک خوف اور غیر یقینی کا شکار تھا، میڈیا نے تحقیق اور تصدیق کی بجائے سنسنی خیزی اور جذباتی رپورٹنگ کو ترجیح دی۔ کئی میڈیا ہاؤسز نے صحافتی اصولوں کو بالائے طاق رکھتے ہوئے تبلیغی جماعت کے خلاف مسلسل منفی پروپیگنڈہ کیا اور انہیں ’کورونا بم‘ قرار دیا۔ سوشل میڈیا پر جھوٹی ویڈیوز، جعلی خبریں اور اشتعال انگیز تبصرے فضا کو مزید زہریلا بنا نے کا باعث بنے۔ نتیجتاً، ملک کے مختلف حصوں میں تبلیغی جماعت سے وابستہ افراد پر تشدد ہوا، گرفتاریاں ہوئیں اور بعض جگہوں پر ان کے ساتھ دشمن ملک کے جاسوسوں جیسا سلوک کیا گیا۔
بین الاقوامی اداروں نے بھی اس رویے کو سخت تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔ ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن (ڈبلیو ایچ او)نے واضح کیا ہے کہ کسی بھی مذہب، نسل یا جماعت کو وبا پھیلانے کا ذمہ دار ٹھہرانا نہ صرف غیر سائنسی ہے بلکہ وبا کے خلاف مؤثر جدوجہد کو بھی نقصان پہنچاتا ہے۔ انسانی حقوق کی عالمی تنظیموں نے ان مقدمات کو مذہبی پروفائلنگ کی ایک واضح مثال قرار دیا ہے، جو اقلیتوں کے خلاف تعصب اور امتیاز کو فروغ دیتا ہے۔
اس عدالتی فیصلے نے ان تمام افراد کے لیے ایک امید کی کرن روشن کی ہے جو برسوں سے انصاف کے متلاشی تھے۔ یہ فیصلہ ہمیں یاد دلاتا ہے کہ اگرچہ عدالتی نظام رفتہ رفتہ کام کرتا ہے، مگر بالآخر وہ آئین کے اصولوں اور انسانی وقار کے تحفظ کا ضامن ہوتا ہے۔ اس سے عدلیہ کی خودمختاری اور غیر جانبداری پر بھی روشنی پڑتی ہیجو آج کے سیاسی ماحول میں نہایت اہمیت اختیار کر چکی ہے، جہاں اکثر ریاستی ادارے سیاسی دباؤ کے آگے جھکتے دکھائی دیتے ہیں۔
تاہم، اس فیصلے کے بعد کچھ سخت مگر ضروری سوالات بھی اٹھتے ہیں کہ و ہ ادارے جنہوں نے غلط مقدمات قائم کیے، پولیس اہلکار جنہوں نے بغیر مناسب تحقیق کے ایف آئی آر درج کیں، افسران جنہوں نے چارج شیٹس پر دستخط کیے، اور جن میڈیا ہاؤسز نے نفرت کو فروغ دیا، کیا ان کا کوئی احتساب ہوگا؟ کیا ایسے بدنیتی پر مبنی الزامات کے خلاف کوئی مؤثر نظام تشکیل دیا جائے گا؟ کیا ان بے گناہوں کو ریاست معاوضہ فراہم کرے گی؟ یہ وہ سوالات ہیں جن کے جوابات صرف عدالتوں سے نہیں بلکہ حکومت اور سماج سے بھی متوقع ہیں۔
یہ فیصلہ ان سب کے لیے آئینہ ہے جو طاقت و اثر و رسوخ کے بل پر کمزوروں کو دبانے کی کوشش کرتے ہیں۔ یہ ان کے لیے بھی سبق ہے جو قانون کا استعمال مخصوص برادریوں کو نشانہ بنانے کے لیے کرتے ہیں۔ یہ میڈیا، حکومت، اور دیگر اداروں کے لیے ایک وارننگ ہے کہ سچ کو جھوٹ اور جھوٹ کو سچ بنانے کی کوششیں بالآخر بے نقاب ہو جاتی ہیں۔ اب وقت آ چکا ہے کہ پورا سماج ایک اجتماعی خود احتسابی کا عمل شروع کرے۔اس فیصلے کے بعد لازم ہو گیا ہے کہ میڈیا ہاؤسز صحافتی اخلاقیات کی جانب لوٹیں، تحقیق پر مبنی رپورٹنگ کو ترجیح دیں، اور مذہبی و نسلی تعصب سے اجتناب کریں۔ حکومتوں کو بھی تسلیم کرنا ہوگا کہ کسی بھی بحران کے دوران اقلیتوں کو قربانی کا بکرا بنانا نہ صرف غیراخلاقی ہے بلکہ آئینی اصولوں کے بھی خلاف ہے۔ صرف عدالتی فیصلے کافی نہیں، جب تک معاشرہ مجموعی طور پر انصاف پسند اور غیرمتعصب نہ بنے، ایسے فیصلے وقتی راحت تو فراہم کر سکتے ہیں لیکن دیرپا حل نہیں دے سکتے۔
یہ مقدمہ اور اس کا اختتام ایک بار پھر اس حقیقت کو اجاگر کرتا ہے کہ ہندوستان کا آئین ہر شہری کو مساوات، آزادی اور انصاف کا حق دیتا ہے، اور عدلیہ ان اصولوں کی محافظ ہے۔ اگرچہ انصاف کا راستہ طویل اور دشوار ہو سکتا ہے، لیکن بالآخر سچائی ہی کو فتح حاصل ہوتی ہے۔ یہ فیصلہ نہ صرف تبلیغی جماعت کے ان افراد کے لیے انصاف کی علامت ہے جو برسوں تک بے گناہ ہو کر بدنامی اور اذیت کا شکار رہے، بلکہ یہ ایک علامتی کامیابی بھی ہے اُن تمام اقلیتوں کے لیے جو اکثر ریاستی طاقت، میڈیا کی نفرت انگیز مہم اور سماجی تعصب کا نشانہ بنتی ہیں۔
یہ عدالتی فیصلہ آنے والی نسلوں کے لیے محض ایک قانونی نظیر نہیں، بلکہ ایک بیدار کن پیغام ہے کہ آئینی حقوق کا تحفظ فقط ایک نظری تصور نہیں بلکہ ایک قابلِ حصول حقیقت ہے۔ یہ ہمیں یہ یقین دلاتا ہے کہ اگر انسان سچائی، عدل اور آئینی اصولوں کی شمع تھامے رکھے، تو وہ نہ صرف ظلم و جبر کے خلاف سینہ سپر ہو سکتا ہے بلکہ خود اختیار و اقتدار کے ایوانوں سے بھی سوال کرنے کا حوصلہ پا سکتا ہے۔ یہ فیصلہ یاد دلاتا ہے کہ مزاحمت، جب اصول پر مبنی ہو، تو وہ تنہا آواز بھی تاریخ کا رخ موڑ سکتی ہے۔
اب وقت آ چکا ہے کہ صرف عدلیہ ہی نہیں، بلکہ پورا معاشرہ بالخصوص میڈیا، ریاستی ادارے اور عام شہری اپنی آئینی اور اخلاقی ذمہ داریوں کا ازسرِنو سنجیدہ جائزہ لیں۔ کیونکہ انصاف کی اصل روح صرف عدالتی فیصلوں میں نہیں، بلکہ ہمارے اجتماعی شعور، گفتگو، طرزِ فکر اور سماجی برتاؤ میں بھی جھلکتی ہے۔ جب تک سچائی، رواداری اور عدل کو صرف قانون کی کتابوں میں نہیں بلکہ روزمرہ زندگی میں بھی اپنایا نہیں جاتا، تب تک ایسے فیصلے محض عدالت کی فائلوں یا تاریخ کی کتابوں تک محدود رہیں گے، زندہ جمہوریت کے ستون نہیں بن سکیں گے۔

Shaikh Akram

Shaikh Akram S/O Shaikh Saleem Chief Editor aitebar news, Nanded (Maharashtra) Mob: 9028167307 Email: akram.ned@gmail.com

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے