किया अप भी अपने न्यूज़ पेपर की वेब साईट बनाना चाहते है या फिर न्यूज़ पोर्टल बनाना चहाते है तो कॉल करें 9860450452 / 9028982166 /9595154683

بچوں کی تعلیم میں استاد کے بعد والدین کی ذمہ داری

تحریر:شیخ شفیق الرحمٰن شیخ احمد
محمد عبدالحفیظ پٹنی اردو پرائمری اسکول، نریگاؤں، اورنگ آباد

تعلیم کسی بھی معاشرے کی بنیاد ہے۔ بچے قوم کا مستقبل ہوتے ہیں، اور ان کی تعلیم و تربیت میں استاد اور والدین دونوں کا کردار نہایت اہم ہوتا ہے۔ اگر استاد اسکول میں علم کا چراغ جلاتے ہیں تو والدین گھر میں اس چراغ کو روشن رکھتے ہیں۔ تعلیم صرف نصابی کتابوں تک محدود نہیں، بلکہ اس میں اخلاق، کردار، سماجی شعور اور شخصیت سازی بھی شامل ہے۔ استاد کے بعد یہ ذمہ داری والدین پر عائد ہوتی ہے کہ وہ بچوں کو بہتر ماحول، رہنمائی اور اخلاقی تربیت فراہم کریں تاکہ وہ ایک کامیاب انسان بن سکیں۔
استاد کا کردار اور اس کی حدیں:
استاد اسکول میں بچوں کو علم فراہم کرتا ہے، سوالوں کے جواب دیتا ہے، ان کی سوچ کو نکھارتا ہے اور انہیں معاشرتی اصول سکھاتا ہے۔ وہ طلبہ کی ذہنی، سائنسی اور تعلیمی نشو و نما کا ذریعہ بنتا ہے۔ لیکن چونکہ استاد کا وقت محدود ہوتا ہے اور وہ ایک ساتھ کئی طلبہ کی ذمہ داری نبھاتا ہے، اس لیے وہ ہر بچے کی شخصیت کو مکمل طور پر نہیں سنوار سکتا۔ یہی وجہ ہے کہ گھر میں والدین کا کردار استاد سے بڑھ کر اور مسلسل ہوتا ہے۔
والدین کی ذمہ داریوں کا آغاز:
والدین کی ذمہ داریاں بچے کی پیدائش سے پہلے ہی شروع ہو جاتی ہیں۔ ماں باپ بچے کے پہلے استاد ہوتے ہیں۔ بچے اپنی مادری زبان، ابتدائی آداب، بول چال، نماز، طہارت، کھانے کے طریقے، سچ بولنا، ادب و احترام جیسی اقدار سب سے پہلے گھر سے سیکھتے ہیں۔ یہ بنیاد اگر مضبوط ہو تو بچے اسکول میں دی جانے والی تعلیم کو بہتر انداز میں اپنا سکتے ہیں۔
تعلیم کے ساتھ تربیت بھی ضروری ہے:
تعلیم بغیر تربیت کے ادھوری ہے۔ استاد تعلیم دیتا ہے، لیکن تربیت والدین کی ذمہ داری ہے۔ آج کل کے دور میں جب سوشل میڈیا، موبائل، انٹرنیٹ اور بیرونی اثرات بچوں کی سوچ کو متاثر کر رہے ہیں، تو والدین کو مزید چوکنا رہنے کی ضرورت ہے۔ بچوں کے دوست، مشاغل، ان کی دلچسپیاں، گفتگو کا انداز، اور وقت کا استعمال—یہ سب والدین کو مانیٹر کرنا چاہیے۔
والدین کا وقت دینا ضروری:
آج کے مصروف دور میں والدین اکثر اپنے بچوں کو وقت نہیں دیتے۔ وہ اسکول یا ٹیوشن پر انحصار کرتے ہیں۔ لیکن صرف پیسہ خرچ کر کے تعلیم مکمل نہیں ہوتی، بچوں کی نفسیاتی، اخلاقی اور سماجی تربیت کے لیے والدین کی موجودگی اور دلچسپی نہایت ضروری ہے۔ بچوں سے گفتگو، ان کے سوالات کے جوابات دینا، ان کی بات سننا اور ان کی حوصلہ افزائی کرنا والدین کا کام ہے۔
والدین کا مثبت رویہ اور مثال:
بچے والدین کے عمل کو دیکھ کر سیکھتے ہیں۔ اگر والدین سچ بولتے ہیں، وقت کی پابندی کرتے ہیں، صاف گو، محنتی اور خوش اخلاق ہیں تو بچہ بھی ان عادات کو اپناتا ہے۔ والدین اگر بچوں کے سامنے بدتمیزی کریں، جھوٹ بولیں، یا دوسروں کی برائی کریں تو بچے بھی وہی سیکھتے ہیں۔ اس لیے والدین کو خود کو بچوں کے لیے ایک مثبت نمونہ بنانا چاہیے۔
تعلیمی معاملات میں تعاون:
والدین کو بچوں کے ہوم ورک، اسکول کی سرگرمیوں، امتحانات اور کارکردگی میں دلچسپی لینی چاہیے۔ اگر بچہ کسی مضمون میں کمزور ہو تو استاد سے رابطہ کریں، اضافی مدد فراہم کریں۔ صرف ڈانٹنے یا مارنے سے مسئلہ حل نہیں ہوتا، بلکہ پیار سے سمجھانا، بچوں کی کوشش کو سراہنا اور انہیں بہتری کی جانب رہنمائی دینا والدین کی اہم ذمہ داری ہے۔
ذہنی و جذباتی تعاون:
بچوں کو صرف تعلیمی نہیں، بلکہ ذہنی سکون اور جذباتی مدد کی بھی ضرورت ہوتی ہے۔ آج کے بچے دباؤ، مقابلے اور ناکامی سے جلد پریشان ہو جاتے ہیں۔ ایسے میں والدین کو ان کا اعتماد بڑھانا چاہیے، ان سے بات کرنا چاہیے، اور ان کے جذبات کو سمجھنا چاہیے تاکہ وہ خوف یا دباؤ کے بغیر اپنی تعلیم جاری رکھ سکیں۔
تربیتی نشستوں کا اہتمام:
گھروں میں روزانہ یا ہفتہ وار مختصر تربیتی نشستیں رکھی جا سکتی ہیں جن میں بچوں کو احادیث، سیرت نبوی، اخلاقی کہانیاں یا بزرگان دین کے واقعات سنائے جائیں۔ اس سے نہ صرف ان کی مذہبی تربیت ہوگی بلکہ وہ عملی زندگی میں بھی کامیاب ہوں گے۔
رابطہ و ہم آہنگی:
استاد اور والدین کے درمیان باہمی رابطہ ضروری ہے۔ اکثر والدین اسکول میٹنگز یا والدین-اساتذہ اجلاس میں شریک نہیں ہوتے، جس سے بچے کی تعلیمی ترقی میں رکاوٹ آتی ہے۔ والدین کو چاہیے کہ وہ استاد سے بچے کی کارکردگی جانیں، اس کی کمزوریوں پر کام کریں اور استاد کے مشوروں پر عمل کریں۔
ٹیکنالوجی کا صحیح استعمال سکھائیں:
آج کا دور ٹیکنالوجی کا دور ہے۔ والدین کو چاہیے کہ بچوں کو موبائل، انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا کے صحیح استعمال کا شعور دیں۔ صرف پابندی لگانے کے بجائے انہیں نقصان اور فائدے سمجھائیں، وقت کا درست استعمال سکھائیں تاکہ وہ ٹیکنالوجی کو علم کے لیے استعمال کریں، نہ کہ وقت ضائع کرنے کے لیے۔
نتیجہ:
بچے صرف استاد کے بھروسے پر تعلیم نہیں حاصل کر سکتے۔ اگر استاد دن میں 5-6 گھنٹے بچوں کو سکھاتا ہے تو باقی وقت بچے والدین کے ساتھ گزارتے ہیں۔ اس لیے استاد کے بعد سب سے بڑی ذمہ داری والدین پر عائد ہوتی ہے کہ وہ اپنے بچوں کی تعلیم کے ساتھ تربیت، کردار سازی، رہنمائی اور اخلاقیات پر بھرپور توجہ دیں۔ صرف اسکول داخل کروا دینا کافی نہیں، بلکہ بچے کو کامیاب انسان بنانے کے لیے والدین کو قدم بہ قدم اس کا ساتھ دینا ہوگا۔

Shaikh Akram

Shaikh Akram S/O Shaikh Saleem Chief Editor aitebar news, Nanded (Maharashtra) Mob: 9028167307 Email: akram.ned@gmail.com

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے