किया अप भी अपने न्यूज़ पेपर की वेब साईट बनाना चाहते है या फिर न्यूज़ पोर्टल बनाना चहाते है तो कॉल करें 9860450452 / 9028982166 /9595154683

بچوں کی اچھی تربیت روشن مستقبل کی کلید

ڈاکٹرمحمدسعیداللہ ندوی

بچوں کا ذہن صاف وشفاف اور خالی ہوتا ہے اس میں جو چیز بھی نقش کردی جائے وہ نقش علی الحجرکی طرح مضبوط وپائیدار ہوتی ہے۔ قرآن وحدیث میں یہ حقیقت واشگاف انداز میں بیان کی گئی ہے کہ ہر بچہ توحید خالص کی فطرت پر پیدا ہوتا ہے اصل کے اعتبار سے اس میں طہارت، پاکیزگی، برائیوں سے دوری اور ایمان کی روشنی ہوتی ہے۔ پھر اسے گھر میں اچھی تربیت اور معاشرہ میں اچھے ساتھی میسر آجائیں تو وہ ایمان و اخلاق میںعمدہ اسوہ اعلیٰ نمونہ اور کامل انسان بن جاتا ہے۔ رسول ؐ کا فرمان ہے ہر نومولود، فطرت سلیمہ پر پیدا ہوتا ہے پھر اس کے والدین اسے یہودی، نصرانی یا مجوسی بنادیتے ہیں۔یعنی بچے کو جیسا ماحول اور تربیت میسر آئے گی وہ اسی رخ پر چل پڑے گا اگر اسے ایمانی ماحول اور اسلامی تربیت میسر آجائے تو وہ یقینا معاشرہ میں حقیقی مسلمان بن کر ابھرے گا لیکن اس کی تربیت صحیح نہج پر نہ ہو گھر کے اندر اور باہر اسے اچھا ماحول نہ ملے تو وہ معاشرہ میں مجرم اور فسادی انسان بن کر ابھرے گا۔
ماہرین نفسیات کے مطابق بچپن میں اولاد کی تربیت جوانی کے بالمقابل بہت آسان ہے، جس طرح زمین سے اْگنے والے نرم ونازک پودوں کو بہ سہولت کہیں بھی موڑا جاسکتاہے اسی طرح بچوں کے خیالات،افکار اور طرز زندگی کو جس رخ پر چاہے بہ آسانی لایاجاسکتا ہے اورجب وہ بڑے ہوجائیں اور اْن کی عقل پختہ ہوجائے تو ان میں تبدیلی ناممکن نہ سہی؛مگر مشکل ضرور ہوتی ہے اس لیے ابتدائی عمر میں بچوں کی نگرانی اور ان کی صحیح تربیت والدین اور سرپرستوں کی اہم ذمہ داری ہے۔
رسولﷺ نے بچوں کی تربیت کے حوالے سے کیا رہنمائی فرمائی اور آپﷺ خود اس کا کس درجہ خیال رکھتے تھے ؟اس کی بیشمار مثالیں کتب حدیث وسیرت میں دیکھی جاسکتی ہیں۔حضرت عمروبن ابی سلمہ رضی اللہ عنہما کہتے ہیں میں جب چھوٹا تھا تو رسول ؐ کے ساتھ کھانا تناول کرتے ہوئے میرا ہاتھ برتن میں ادھر اْدھر چلا جاتا تھا۔رسولﷺ نے مجھ سے ارشاد فرمایا: اے لڑکے! اللہ کا نام لو، دائیں ہاتھ سے کھاؤ اور اپنے قریب سے کھاؤ (صحیح مسلم)۔
اسی طرح حضرت عبداللہ بن عامرؓ روایت کرتے ہیں :ایک روزرسول ﷺ ہمارے گھر تشریف فرماتھے میری والدہ نے مجھے پکارا آؤ ایک چیز دوں گی، رسولﷺ نے والدہ سے دریافت فرمایا: تم نے اسے کیا دینا چاہا؟ والدہ نے عرض کیا کہ کھجور دینا چاہتی تھی، رسول اللہ ﷺنے والدہ سے ارشاد فرمایا: سنو اگر تم اسے کچھ نہ دیتی تو تمہارے حق میں (نامہ اعمال میں )یہ ایک جھوٹ لکھا جاتا (سنن ابوداؤ ) غور کیجیے کہ اللہ کے نبی کریمﷺ نے بچوں کو اُمید وآس دلا کر کچھ نہ دینے سے بھی منع فرمایا اور اسے جھوٹ قرار دیا اس کا ایک اہم نقصان یہ ہے کہ اس سے بچوں کی تربیت اور اُن کے اخلاق وکردار پر منفی اثرات پڑیں گے اور وہ بھی جھوٹ کے عادی ہوجائیں گے کیونکہ بچے اپنے بڑوں سے جس چیز کو دیکھتے یا سنتے ہیں اس کا اثر بہت جلد قبول کر لیتے ہیں اور بچپن کا یہ اثر نہایت مضبوط ومستحکم اور پائیدار ہوتا ہے۔تربیت میں صدارت وایمانداری کی حیثیت بالکل بنیادی اسی لئے سنن ترمذی میں ہے کہ سچے اور امانت دار تاجر کوآخرت میں نبیوں ،صدیقوں ،شہیدوں کی رفاقت کی خوشخبری سنائی ہے ۔مشہور اسکالر ڈاکٹرتھامس اسٹینلے نے کامیابی کی وجوہات میں ایمانداری کو سرفہرست رکھاہے۔
اولاد کی تعلیم کے حوالے سے والدین کو چارحصوں میں تقسیم کیاجاسکتا ہے: ۱- وہ والدین جو اپنی اولاد کو صرف عصری علوم کے حوالے کردیتے ہیں ،ان کی دینی تعلیم وتربیت کی طرف یا تو بالکل توجہ نہیں کرتے یا معمولی سی توجہ کو کافی اور مفید ِونفع بخش مطلب سمجھ بیٹھتے ہیں۔ ان کی ذمہ داری یہ ہے کہ جس طرح عصری علوم پر خاطر خواہ محنت کو ضروری سمجھیں اتناہی یا اس سے زیادہ بنیادی دینی تعلیم یعنی عقائد و اعمال، معاشرت و اخلاق،معاملات و آداب سے متعلق ضروری امور ان کے قلب ودماغ میں راسخ کریں ؛تاکہ فتنوں کے اس دور میں الحاد وارتداد کی کوئی لپیٹ انھیں متاع ایمان سے محروم نہ کر دے۔
۲- وہ والدین جو اپنی اولاد کو صرف دینی تعلیم کے لیے وقف کردیتے ہیں اور انھیں دانستہ یا نادانستہ طور پر بنیادی عصری تعلیم سے بھی نابلد رکھتے ہیں۔ان کی ذمہ داری ہے کہ وہ بدلتے حالات کے پیش نظر بہ قدر ضرورت عصری علوم سے واقف کرانے کا اہتمام کریں ؛تاکہ مستقبل میں ان کی اولاد کسی بھی موقع پر دوسروں کی محتاج نہ رہے اورزمانہ کے دوش بدوش چل کرکامیاب زندگی گزاریں ۔
۳- وہ والدین جواپنی اولاد کو عصری اور دینی علوم سے وافر حصہ عطاکرتے ہیں اور اسلامی تربیت کے ذریعہ ان کواچھی طرح آراستہ وپیراستہ کرتے ہیں۔وہ قابل صد مبارک باد ہیں ،انھیں اپنے اس نظام کو فروغ دینے اور خاندان وقبیلے کے دوسرے سرپرستوں تک متعدی کرنے کی فکر کرنی چاہیے۔
۴- وہ والدین جو معاشی مجبوری یا دیگرمعقول و نامعقول اسباب کی بنا پر اولاد کے روشن مستقبل کا سودا کرتے ہیں اور انھیں اپنے ہی کسی پیشہ سے وابستہ کردیتے ہیں۔انھیں سنجیدگی کے ساتھ اس بات پر غور کرنا چاہیے کہ ان کا یہ عمل اولاد کے مستقبل کے لیے سم قاتل اور زہر ہلاہل سے کم نہیں ،اس لیے بنیادی طور پر دینی وعصری علوم کے مکاتب واداروں سے رجوع ہوکر بچوں کو قابل بنانے کی کوشش کرنی چاہیے ،تاکہ علم کی روشنی سے سارا گھر منور ہوجائے اور دین ودنیا دونوں میں مفید و کارآمد ثابت ہوسکیں۔
بچوں کو خاص طورپر ماں باپ اور بڑوں کی طرف سے حوصلہ افزائی کی بہت ضرورت ہوتی ہے۔ اْن کی چھوٹی چھوٹی خوشیوں میں شامل ہونا، اْن کی چھوٹی بڑی کامیابی پر اْن کو سراہنا اور اْن کے جذبات کی قدرکرنے سے اْن کے اندر خود اعتمادی پیدا ہوتی ہے اوروہ نئی امنگ اور دلی جوش کے ساتھ مزید آگے بڑھنے کی کوشش کرتے ہیں۔اسی طرح ماں باپ کے مثبت طرز عمل سے بچوں کے اندر ایک غیرت پیدا ہوتی ہے اور وہ کوشش کرتے ہیں کہ اْن کی طرف سے کوئی بھی ایسی حرکت نہ ہو جو والدین کے لیے تکلیف کا باعث ہو۔
اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں اپنی ذمہ داریوں کو سمجھتے ہوئے اپنے بچوں کی ایسی عمدہ تربیت کی توفیق عطا فرمائے کہ وہ ہر موقع پر والدین کی آنکھوں کی ٹھنڈک ثابت ہوں۔

Shaikh Akram

Shaikh Akram S/O Shaikh Saleem Chief Editor aitebar news, Nanded (Maharashtra) Mob: 9028167307 Email: akram.ned@gmail.com

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے