किया अप भी अपने न्यूज़ पेपर की वेब साईट बनाना चाहते है या फिर न्यूज़ पोर्टल बनाना चहाते है तो कॉल करें 9860450452 / 9028982166 /9595154683

بولنے سے زیادہ سننا کیوں ضروری ہے؟

تحریر:عارف عزیز (بھوپال)

لوگوں کو ہر وہ بات بہت بری لگتی ہے جو اُن کے خیالات سے ذرا بھی متصادم ہو۔ کسی بھی معاملے میں اختلاف رائے کی صورت میں وہ یہ بھول جاتے ہیں کہ مخالف رائے کو سننا بھی لازم ہے، کیونکہ جب تک وہ فریق کی رائے نہ جانتے ہوں، اپنے موقف کو تبدیل اور مضبوط نہیں کرسکتے۔ اپنی نشست پر بیٹھ کر پورے تحمل سے کسی کی بات سننا خاصی ہمت کا طالب ہے۔ آج کی عمومی تربیت میں بولنے کی اہمیت زیادہ ہے۔ بچوں کا اعتماد اس بات سے جانچا جاتا ہے کہ وہ کتنا اور کیسا بولتے ہیں۔ بولنے کی صلاحیت، اسی وقت پروان چڑھتی ہے جب انسان سننے کے ہنر سے بخوبی واقف ہو اور اس حوالے اس کی صلاحیت بھی خاصی بلند ہو۔
قدرت کیا چاہتی ہے؟ انسان زیادہ بولیں یا زیادہ سنیں؟ اپنے وجود کا جائزہ لیں قدرت نے ایک زبان دی ہے اور دو کان۔ یہ اس بات کا واضح اشارہ ہے کہ انسان کو سننا زیادہ ہے اور بولنا کم، یعنی جو کچھ بھی کہنا ہے وہ خوب سوچ سمجھ کر، تاکہ کسی کے ذہن میں کوئی ابہام نہ رہے۔ اچھا بولنے کی صلاحیت انہی لوگوں میں پنپتی ہے جو بھرپور توجہ کے ساتھ زیادہ سنتے ہیں اور جو کچھ سنتے ہیں، اس کا اچھی طرح تجزیہ کرکے کسی بھی شعبے میں قابل رشک کارکردگی کا مظاہرہ کرنے والوں کے معمولات پر غور کریں تو اندازہ ہوگا کہ وہ کچھ بھی کرنے سے قبل بہت غور کرتے ہیں۔ غور کرنے کے لئے زیادہ معلومات درکار ہوتی ہے۔ تمام متعلقہ معلومات کا حصول پڑھنے کے علاوہ سننے سے بھی ممکن ہے۔ جو لوگ سننے پر مائل رہتے ہیں، وہ بہت سی ایسی باتیں بھی جان لیتے ہیں، جن کی مدد سے ان کی گفتگو مؤثر و مربوط ہوتی ہے اور وہ اپنی بات منوانے میں کامیاب ہوجاتے ہیں۔ سننے سے زیادہ بولنا ہر انسان کے لئے فطری ہے۔ قدرت نے ہمیں بہت سے ایسے فطری رجحانات سے نوازا ہے، جن پر قابو پانا ہماری ذمہ داری ہے۔ بولنے کے معاملے میں محتاط رہنا ہمارے لئے لازم ہے۔ دوسروں کو زیادہ سننے کی صورت میں ہم اچھی طرح سمجھ پاتے ہیں کہ ہمیں کب کیا اور کتنا بولنا ہے۔ کم لوگ اس لحاظ سے خود کو اچھی طرح تیار کرپاتے ہیں۔ ترقی یافتہ اور مہذب معاشروں میں گھر سے تعلیمی ادارے تک ہر مقام پر سننے کی تربیت دی جاتی ہے۔ لوگوں کو باور کرایا جاتا ہے کہ دوسروں کو سننے کے بعد ہی ہم ڈھنگ سے بول سکیں گے۔ پس ماندہ معاشروں کا حال برا ہے۔ ہندوستان اس کی واضح مثال ہے، جہاں لوگ جتنا سنتے ہیں، اس سے چار گنا بولنا چاہتے ہیں اور بولتے ہی رہتے ہیں۔ یہ رجحان ترک کرنے کی ضرورت ہے۔ بہت زیادہ بولنے ہی کا یہ نتیجہ برآمد ہورہا ہے کہ لوگ غیر متعلق امور میں الجھ کر معقولیت اور عمل کی منزل سے دور ہوتے جارہے ہیں۔

Shaikh Akram

Shaikh Akram S/O Shaikh Saleem Chief Editor aitebar news, Nanded (Maharashtra) Mob: 9028167307 Email: akram.ned@gmail.com

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے