किया अप भी अपने न्यूज़ पेपर की वेब साईट बनाना चाहते है या फिर न्यूज़ पोर्टल बनाना चहाते है तो कॉल करें 9860450452 / 9028982166 /9595154683

بمبئی کے ممبئی بن جانے کی کہانی

تحریر:عارف عزیز(بھوپال)

سفر کو وسیلہ ظفر اس لئے کہا گیا ہے کہ یہ ترقی وکامرانی کے دروازے کھولتا ہے۔ نئی دنیا کی کھوج اور نئی تہذیب وثقافت سے روشناس کراتا ہے، زندگی میں ہم نے بھی کئی سفر کئے، شہروں کو دیکھا اور ان کی خاک چھانی، ایسے شہروں میںمرحوم بمبئی موجودہ ممبئی شامل ہے، دنیا کے اہم شہروں میں کبھی بمبئی سب سے زیادہ مشہور تھا، ۱۹ ویں صدی سے تو یہ شہر ملک وبیرونِ ملک کے ان لوگوں کی منزل ومسکن بنا ہوا ہے، جو دولت، عزت، شہرت اور گلیمر کی تلاش میں یہاں کا رخ کرتے تھے، آج جو ہندوستانی دوبئی، شارجا، جدہ، ٹوکیو، کوالالمپور جاکر اپنی اور اہل خاندان کی زندگی سنوارنے کی فکر کرتے ہیں، ایسے لوگوں کی منزل پہلے بمبئی ہوا کرتی تھی اور واپسی پر ان کا انگلینڈ ریٹرن کی طرح استقبال ہوتا تھا، ان کے مشاہدات وتجربات ذوق وشوق سے سنے جاتے تھے، جب وہ گیٹ وے آف انڈیا، ہوٹل تاج محل، مالا بارہل، چوپاٹی، چور بازار اور فلمی دنیا کا ذکر کرتے تو سننے والوں کے دل کی دھڑکنیں تیز ہوجاتی تھیں۔
ہم نے پہلی مرتبہ کوئی چالیس برس قبل بمبئی کی دہلیز پر عین جوانی میں قدم رکھا تو اس شہر نے ہمیں بھی مسحور کردیا تھا، یہاں کی صاف ستھری وکشادہ سڑکیں، فلک بوس عمارتیں، سمندر کا خوبصورت ساحل، بسوں اور ٹرینوں کی گہما گہمی، ان پر چلتے، پھرتے انسانوں کی بھیڑ نے ہمارے کچے ذہن پر گہرا اثر ڈالا ، یہ بمبئی سے ہمارا پہلا تعارف تھا، اس کے بعد جب بھی بمبئی جانا ہوا تو یہ شہر بدلا بدلا نظر آیا، ۱۹۹۵ء میں تو اس کا نام ہی نہیں کیریکٹر بھی تبدیل ہوگیا۔ شیکسپیئر نام کو اہمیت دینے کے روادا نہیں تھے لیکن بمبئی کے حکمرانوں کے لئے یہی ایک کام بچا تھا کہ وہ اپنے شہر کا حلیہ بدلنے کے ساتھ ساتھ نام بھی تبدیل کردیں، نام تبدیل کرنے کی اس نفسیات کے پیچھے شہر کا مستقبل سنوارنے کی فکر کے بجائے ماضی کو بدلنے کی ذہنیت کارفرما ہوتی ہے، جس کے ذریعہ ناعاقبت اندیش سیاست داں پوری تاریخ اور اس کی شاندار روایات کو اپنی مرضی کے مطابق ڈھال دینا چاہتے ہیں، حالانکہ تاریخ کھلونا نہیں کہ بچہ کی ضد پر اسے تبدیل کردیا جائے، دنیا میں آج قدیم یادگاروں اور تاریخی اثاثوں کو تلاش کرکے ماضی کی کڑیاں جوڑنے کا کام ہورہا ہے ، اس کے برعکس دستیاب آثار وشواہد کو مسخ کرنا، ایسا ہی ہے کہ کسی انسان سے اس کا حافظہ چھین لیا جائے۔
مارچ ۱۹۹۳ء کے بم دھماکوں نے تو بعد میں اس شہر کی تصویر بگاڑی، متعصب سیاست وقیادت نے پہلے سے مقامی وغیر مقامی کا نعرہ لگاکر اپنے شہر کے کثیر تہذیبی کردار کو مسخ کردیا تھا،بمبئی عرصہ دراز سے فٹ پاتھ پر بسنے والے لاکھوں بے گھر انسانوں کا مسکن ہے ، یہاں کی جھگی بستیاں بھی ۶۰ فیصد آبادی کی نمائندگی کے ساتھ مخلوط کلچر کا مظہررہی ہیں، مختلف دھرم، علاقے، ذات اور برادری کے لوگ یہاں بستے ہیں، سلم میں رہنے والوں کے اپنے دکھ و درد اور سکھ وچین کے طریقے ہیں، یہ متضاد سماجی قدریں نفرت واشتعال کو نہیں انسانی ہمدردی کو جنم دیتی رہی ہیں لیکن بمبئی کی نام نہاد مسیحائی کا دم بھرنے والوں نے اس میں ذات، برادری ، زبان اور علاقے کی ایسی تخم ریزی کی کہ آج اس کے شجر چہار طرف برگ وبار لارہے ہیں۔
اٹل بہاری واجپئی نے جب زمامِ حکومت سنبھالی تو بڑے جوش کے ساتھ اعلان کیا تھا کہ ان کی حکومت ممبئی کو سنگاپور کی طرح ایک ترقی یافتہ شہر بنائے گی، چھ سال بعد ڈاکٹر منموہن سنگھ وزیر اعظم کی حیثیت سے ممبئی گئے تو اسے شنگھائی بنانے کی خوشخبری سنا آئے، مہاراشٹر کے حکمراں بھی اس شہر کی تعمیر وترقی کے دعوے کرنے میں پیچھے نہیں رہتے، لیکن کسی کو ممبئی کے مخصوص کیریکٹر کو باقی رکھنے کی فکر نہیں، نہ وہ مسائل کے اس جنگل کو تراشنا چاہتے ہیں جو دن بدن ممبئی کی زندگی کو اجیرن بنا رہے ہیں، اردو یہاں کی مقبول عام زبان ضرور ہے لیکن اس کے ادیب، شاعر اور صحافی روایتی مفلوک الحالی کا شکار ہیں۔
اس شہر کا نام بمبئی کیسے پڑا، یہ ایک دلچسپ کہانی ہے، جس طرح ’’بھوج پال‘‘ کثرت استعمال سے بھوپال ہوگیا، اسی طرح بمبئی نام بھی مختلف زبانوں اور لہجوں سے بنتا، بگڑتا رہا، مورخ بمبئی کو ’’بم بھیا‘‘ کی بگڑی شکل بتاتے ہیں، جس کا مطلب پرتگالی زبان میں ’’اچھی بندرگاہ‘‘ ہوتا ہے، انگریزوں کے ابتدائی عہد کے سکوں میں اس شہر کا نام ’’بم ہیم‘‘ درج ہے، یہ سکے برٹش میوزیم میں محفوظ ہیں، بمبئی کی تاریخ پر نظر ڈالنے سے معلوم ہوتا ہے کہ تین سو سال پہلے کئی جزیروں پر مشتمل یہ مچھیروں کی بستی تھی، جزیروں کی شکل وصورت تو باقی نہیں رہی لیکن شہر کے مختلف علاقے ان کے نام سے آج بھی منسوب ہیں، سب سے پہلے پرتگالیوں نے اس علاقے پر چڑھائی کرکے قبضہ کرلیا، ۲۰ویں صدی کے اوائل میں برطانیہ کے کنگ چارلس دوم کی شادی پرتگالی شہزادی سے ہوئی تو جہیز میں یہ خطہ شاہی خاندان کو ملا اور اس نے ایسٹ انڈیا کمپنی کو لیز پر اٹھادیا، اس طرح بمبئی کے صنعتی دور کا آغاز ہوا، کمپنی کے کل کارخانے سورت سے یہاں منتقل ہوگئے، نواب، راجہ، انگریز افسروں نے اپنے بنگلے تعمیر کرائے تو باہر سے آنے والے مزدوروں نے چالیں بنالیں اور ایک بڑے بندرگاہ کی حیثیت سے اس کا استعمال ہونے لگا، یہاں سے تجارتی سامان انگلینڈ اور دوسرے ملکوں کو بھیجا جانے لگا۔
ممبئی میں سال کے بارہ ماہ تعمیری سرگرمیاں جاری رہتی ہیں، کہیں جھگیاں ہٹا کر سڑکیں کشادہ ہورہی ہیں، کہیں اوور برج یا سمندری پل بن رہے ہیں، کہیں نئی عمارتیں اور شاپنگ مال تعمیر ہورہے ہیں تو کہیں میٹر وریل پروجیکٹ کو آخری شکل دی جارہی ہے تاکہ ’’آمچی ممبئی‘‘ خوبصورت نظر آئے لیکن تین جانب ساحل سمندر سے گھرے ہوئے اس شہر کا حال دن بدن خراب ہورہا ہے۔
ایک حالیہ سیمینار میں جس کا ٹائمز آ ف انڈ گروپ نے ’’کل کا ممبئی‘‘ کے عنوان سے اہتمام کیا تھا، مختلف فکر وطبقہ سے تعلق رکھنے والوں نے یہ تجزیہ پیش کیا کہ ممبئی کے روز افزوں مسائل ومشکلات کیلئے سیاست داں افسر شاہی، انڈرورلڈ اور بلڈر لابی ذمہ دار ہیں، اس پر بر وقت گرفت نہیں ہوئی تو ممبئی کا موجودہ شکل میں باقی رہنا مشکل ہوجائے گا۔ یہ حقیقت ہے کہ فی زمانہ ممبئی پر بلڈروں اور دلالوں کی حکمرانی ہے، سیاست داں اور افسروں کی ان کے آلۂ کار سے زیادہ حیثیت نہیں، راتوں رات یہاں کی پرانی مارکیٹوں اور جھونپڑ پٹیوں میں آگ لگ جاتی ہے اور دیکھتے ہی دیکھتے ان کی جگہ عالی شان عمارتیں اور تجارتی کا مپلیکس تعمیر ہونے لگتے ہیں، پارکوں، اسکولوں اور کھیل کے میدانوں کے لئے مخصوص اراضی ترقیاتی امور کے نام پر بلڈروں کے حوالے کردی جاتی ہے، سیاست دانوں کے لئے دولت کمانے کا یہ آسان طریقہ ہے، پچیس تیس سال پہلے تک شہر کے نواحی علاقوں میں جو باغات ہوا کرتے تھے، وہاں اب سیمینٹ اور کانکریٹ کے جنگل کھڑے نظر آتے ہیں، اس کی وجہ سے ممبئی کا موسم ہی تبدیل نہیں ہوا، بارش وگرمی کا تناسب بھی بگڑ گیا ہے، ممبئی نے ماضی میں جو ترقی کی اس کا ایک بڑا سبب یہاںکے ٹکسٹائل ملز تھے، یہ لاکھوں مزدوروں کا پیٹ بھرنے کے ساتھ فرقہ وارانہ ماحول بھی خوشگوار بناتے تھے، کیونکہ ملوں کے یونین لیڈر سوشلسٹ اور سیکولر نظریات کے حامل تھے، کپڑا ملوںکے خاتمہ کے بعد ہی اس شہر میں فرقہ پرستوں کو عروج حاصل ہوا ہے۔
اس تمام مشق ستم کے باوجود عروس البلاد ممبئی کی کئی خوبیاں ابھی برقرار ہیں، دھماکوں کے دوسرے رائونڈ۱۱؍جولائی۲۰۰۶ء کے ۲۴ گھنٹے کے اندر اس شہر نے اپنی سرگرمیوں کو بحال کرکے ساری دنیا سے خراجِ تحسین وصول کیا ہے، یہاں کے بارے میں مشہور ہے کہ نو وارد کو روٹی وروزی ہی نہیں، کھلے آسمان کے نیچے آرام کرنے کی جگہ بھی فراہم ہوتی ہے، ممبئی میں قدم رکھنے والے بہت جلد اس شہر کے کلچر کا حصہ بن جاتے ہیں، جس فراخ دلی کے ساتھ یہ شہر ان کو اپنے آغوش میں جگہ دیتا ہے، اسی جذبہ سے یہ لوگ بھی یہاں اپنا خوش وپسینہ بہاتے ہیں۔
ممبئی آج بھی ایک قابل دید شہر ہے، جس میں گیٹ وے آف انڈیا ، ممبئی ہائی کورٹ، میونسپل کارپوریشن، وی ٹی ریلوے اسٹیشن کی پرشکوہ عمارتیں، سرفیروز شاہ مہتا گارڈن، مالا بارہل، چوپاٹی میرین ڈرائیو، جوہو ساحل حاجی علی دیکھنے سے تعلق رکھتے ہیں ، مچھلی گھر، چڑیا گھر، میوزیم ممبئی کے وہ اثاثے ہیں جنہیں دیکھے بغیر آپ ممبئی کی خوبیوں کا اندازہ نہیں لگا سکتے، اس شہر کو ملک کے تجارتی ومالیاتی دارالحکومت کا درجہ حاصل ہے، اسی لئے ’’بردہ فروشی‘‘ سے ’’گرودہ فروشی‘‘ تک کا کاروبار یہاں عروج پر نظر آتا ہے۔ یہاں سے قومی خزانے میں ہر سال ۶۰ ہزار کروڑ روپے کا انکم ٹیکس منتقل ہوتا ہے، ۱۹۵۱ء میں گریٹ ممبئی کی آبادی ۲۸ لاکھ تھی، ۲۰۰۱ء میں ایک کروڑ ۲۴ لاکھ ہوگئی، آج ڈیڑھ کروڑ کے لگ بھگ ہے، ماہرین کا انداز ہ ہے کہ آبادی کے اس بہائو پر بند نہیں باندھا گیا تو ۲۰۱۵ء تک ممبئی ٹوکیو کے بعد دنیا کا سب سے بڑی آبادی والا شہر بن جائے گا، کسی نے صحیح کہا ہے کہ ممبئی آج ڈھلتی عمر کی اس اداکارہ کی طرح نظر آتا ہے جو چہرے پر دبیز رنگ روغن لگاکر جوان دکھنے کی کوشش کرتی ہے، لیکن غازہ، اس کی عمر کو چھپانے میں ناکام ثابت ہوتا ہے۔

Shaikh Akram

Shaikh Akram S/O Shaikh Saleem Chief Editor aitebar news, Nanded (Maharashtra) Mob: 9028167307 Email: akram.ned@gmail.com

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے