किया अप भी अपने न्यूज़ पेपर की वेब साईट बनाना चाहते है या फिर न्यूज़ पोर्टल बनाना चहाते है तो कॉल करें 9860450452 / 9028982166 /9595154683

ایمرجنسی میں اُردو کی صورتِ حال

تحریر:عارف عزیز(بھوپال)

وہ کرے بات تو ہر لفظ سے خوشبو آئے
ایسی بولی وہی بولے، جسے اُردو آئے
ایسی میٹھی، نازک اور عوام کی زبان اُردو پر ایمرجنسی کے ۱۷ماہ میں کیا بیتی یہ ایک تفصیل طلب موضوع ہے اور وسیع پیمانے میں اِس پر تلاش و تحقیق کی ضرورت ہے۔ کیونکہ اُردو ہندوستان کی ایک زبان ہی نہیں ، ایک تہذیب ، ایک کلچر ہے، جو جغرافیائی، مذہبی، نسلی حدبندیوں اور ذات پات کے بھیدبھاؤ میں کبھی گرفتار نہیں ہوئی، ہندوستان کی زیادہ تر زبانیں کسی نہ کسی علاقے یا فرقہ کی نمائندگی کرتی ہیں لیکن اُردو کا کوئی خاص علاقہ نہیں، سارا ہندوستان بلکہ پورا برصغیر اِس کا میدانِ عمل ہے لہٰذا ایمرجنسی میں اُردو کے ساتھ کہاں کیا زیادتی ہوئی اُس کے لکھنے اور بولنے والے کن مسائل سے دوچار ہوئے یہ تحقیق کا موضوع ہے۔ اُردو کے قومی کردارکے بارے میں ڈاکٹر گیان چند جین جیسے کٹر ناقد کا کہنا ہے کہ ’’میں اپنے ملک میں کہیں سفر کروں، مجھے اُردو کی بدولت ہرقسم کی سہولتیں، مہمان نوازی اور آؤبھگت کا فائدہ ملتا ہے۔ اگر مجھے موقع ملے تو میں اُردو کے ہی سہارے مغربی سرحد پار اِسی خلوص اور گرم جوشی کے ساتھ گھوم سکتا ہوں‘‘۔ ڈاکٹر جین کی رائے جہاں اردو کے جمہوری مزاج، رنگارنگ کلچر اور قومی ایکتا سے اُس کے گہرے لگاؤ کو ظاہر کرتی ہے، وہیں یہ بھی بتاتی ہے کہ اُردو محبت، شرافت، انسانیت اور جمہوری روایات پر چلنے والی ایک زبان ہے۔ اِسی لیے اپنی بات دوسروں تک پہونچانے اور اُنھیں سمجھانے میں اُردو ایک کارگر میڈیم کا کام کرتی ہے، بقول شاعر ؎
جہاں بات کرنے میں ہوں دقتیں
وہاں کام آتی ہے، اردو زباں
اُردو کا یہی گنگا جمنی کردار اور مل جل کر رہنے کا مزاج تھا کہ آزادی کے لیے جدوجہد کرنے والی قومی قیادت نے اُسے اپنا وسیلہ بنایا اور انقلاب زندہ باد کے نعروں سے دیش کے درودیوار گونج اُٹھے۔ یہ باتیں یہاں کہنے کی ضرورت اِس لیے پیش آئی کہ ایسی پیاری زبان، گنگا جمنی تہذیب سے گُندھی ہوئی بولی کو بھی ایمرجنسی میں مختلف آزمائشوں سے گزرنا پڑا، اِس زبان کے قلم کاروں کی سوچ پر پہرا بٹھایا گیا، نہ ماننے پر اُنھیں جیل کی سلاخوں کے اندر کردیا گیا، کتنے ہی اُردو کے اخبار بند ہوگئے اور اِس سے زیادہ ادیبوں، شاعروں اور صحافیوں کو انڈرگراؤنڈ ہونا پڑا کیونکہ سرکاری تاناشاہی کے وہ خلاف تھے۔ یہ ایمرجنسی کا ہی حال نہیں، اُردو تو سچائی کے اظہار اور تنگ نظری کے ہر بکھان کے خلاف رہی ہے، ایسے عناصر سے لوہا لینا اُس کی سرشت میں داخل ہے۔ جے پرکاش نرائن کا وہ آندولن جسے کچلنے کے لیے سرکار کو ایمرجنسی کا ہتھیار کام میں لانا پڑا، اِس میں بھی اُردو کے شاعر، ادیب اور صحافی آگے آگے تھے، اُس وقت کے اخبار ورسائل ایسی تخلیقات سے بھرے تھے جس میں جے پرکاش کے آندولن کی حمایت کی گئی تھی یا لوک نائک جے پرکاش نرائن کو سمبل بناکر اُن کی شان میں لکھا جارہا تھا کہ ’ٹوٹے روشن دان سے چمک رہا ہے ایک چہرہ‘۔ یہ صحیح ہے کہ کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا نے پہلے پہل ایمرجنسی کی حمایت کی، کئی اردو کے لفٹسٹ قلم کار بھی اِس میں شامل تھے، لیکن اُردو کے عام دانشور اور اُردو بھاشی جنتا شروع سے اِس کے خلاف لام بند رہی، اپنی زباں بندی اُنھیں گوارہ نہیں ہوئی، اُردو کے صحافی، کہانی کار اور شاعروں نے اپنی تخلیقات میں کبھی اشارے کنایوں میں، کبھی کھل کر ایمرجنسی کے خلاف اپنا ردّعمل ظاہر کیا۔
یہاں یہ سمجھ لینا چاہئے کہ وزیراعظم اندرا گاندھی کو ملک میں ایمرجنسی تھوپ کر عوام کے جمہوری حقوق کیوں چھیننا پڑے، پہلی بات تو یہ تھی کہ ۱۹۷۱ء کے لوک سبھا الیکشن میں کانگریس کو بھاری اکثریت سے کامیاب بنانے پر ووٹرس اب پچھتانے لگے تھے، اِس لیے اگلے الیکشن میں اُن کی رائے کانگریس کے خلاف آنے کا خطرہ بڑھ گیا تھا، دوسرے مہنگائی کا گراف ۲۵فیصد کی سطح کو پار کرگیا تھا، تیسرے بنگلہ دیش کی جنگ میں کامیابی کی چمک پھیکی پڑنے لگی تھی، عوام کی ناراضی کا یہ حال تھا کہ پوکھرن میں ایٹم بم دھماکہ بھی اُس کو کم نہیں کرپارہا تھا، اِس پر رہی سہی کسر الٰہ آباد ہائی کورٹ کے اُس فیصلے نے پوری کردی جس کی رُو سے اندراگاندھی کا رائے بریلی سے چناؤ ردّ کردیا گیا۔ حالانکہ اندرا گاندھی نے اِس فیصلہ کے خلاف سپریم کورٹ سے حکیم امتناعی حاصل کرلیا مگر جے پرکاش نرائن کی قیادت میں اُن کے استعفیٰ کی تحریک اِتنی بڑھی کہ اُسے دبانا مشکل ہوگیا اور ۲۶؍جون ۱۹۷۵ء کو ملک میںایمرجنسی لگاکر عوام کے تمام جمہوری حقوق چھین لیے گئے، خاص طور پر پریس کو غلام بنانے کے لیے آئی کے گُجرال کو ہٹادیا گیا اور وی سی شکل اُن کی جگہ انفارمیشن اور براڈ کاسٹنگ وزیر بنادیئے گئے تاکہ مؤثر اختلاف کی ہر آواز کو بروقت کچل دیا جائے۔
ایمرجنسی کے اعلان کی سب سے زیادہ زد اُردو اخبارات پر پڑی، پہلے دن بہت سے روزنامے شائع نہیں ہوئے یا نکلے تو اُن کے ایڈیٹوریل کی جگہ خالی چھوڑدی گئی۔ دہلی کے اخبارات پر اِس کا اثر زیادہ نظر آیا، بہادرشاہ ظفر مارگ کے پریس ایریا کی بجلی سپلائی بند کردی گئی، ٹیلی فون کاٹکر پولیس کا پہرا بٹھادیا گیا، نیوز ایجنسیوں پر بھی سخت سنسر شپ لگادی گئی، اِس طرح دہلی میں صبح کو اخبار پڑھنے والے اندھیرے میں رہے، جالندھر کے پریس ایریا میں بھی یہی کاروائی ہوئی لیکن ’ہندسماچار‘نے جو اُس وقت اُردو کا سب سے زیادہ شائع ہونے والا اخبار تھا، ٹریکٹر کے انجن سے پرنٹنگ مشین چلاکر اخبار چھاپا اور تقسیم کردیا، کلکتہ میں اخباروں پر سنسرشپ کی اِتنی سخت پابندیاں تھیں کہ برطانوی دور میں عالمی جنگ کے زمانہ میں بھی نہیں رہی ہوں گی، اخبار میں چھپنے والا ایک ایک لفظ سنسر کی پیشگی کلیرنس کے لیے بھیجنا پڑتاتھا، لکھنؤ اور پٹنہ کا حال بھی اِس سے جدا نہ تھا، لیکن بمبئی میں اُردو اخبارات پر سنسرشپ پہلے دن سے مذاق بن کر رہ گئی۔ کیونکہ اِس کے لیے سرکار کے پاس نہ تربیت یافتہ عملہ تھا، نہ اُردو جاننے والے موجود تھے، صرف زبانی وارننگ سے ہی کام چلایا جارہا تھا، جن اخباروں نے پہلے دن ایڈیٹوریل نہیں لکھے اور خالی جگہ چھوڑکر احتجاج کی روش اپنائی، اُنھیں اِسے دُہرانے پر سخت کاروائی کی وارننگ دی گئی۔ روزنامہ ’سنگم‘ پٹنہ جو پرانے صحافی اور مجاہدِ آزادی غلام سرور نکالتے تھے، اِس احتجاج میں سب سے آگے تھا، اُسے اِس جرأت کے سزا بھی ملی، گویا اُس وقت ایمرجنسی کی سختی کے خلاف آواز اُٹھانا اپنی جان جوکھم میں ڈالنا تھا، سرکاری احتیاط کا یہ عالم تھا کہ ماہنامہ ’آج کل‘ اور ’یوجنا‘ نئی دہلی جیسے سرکاری ادبی رسالے جو پریس میں چھپ رہے تھے اُن کے قابلِ اعتراض مواد پر سیاہی پھیر دی گئی۔ اِس طرح کی سخت کاروائی کا سب سے زیادہ اثر اُردو اخباروں پر پڑا اور پہلے سے خستہ حال اخباروں کی حالت اور خراب ہوگئی ، اُن کے لیے ایمرجنسی کی سختیوں کے خلاف قلم اُٹھانا اپنی جان جوکھم میں ڈالنا تھا، دوسری طرف سارا دیش خوف کی نفسیات میں گرفتار تھا۔ پھر بھی اُردو کے عام قلم کاروں نے سرکار کے آگے خودسپردگی سے اِنکار کردیا۔ یہ ضرور ہوا کہ ایمرجنسی لگنے کے چار ماہ بعد اکتوبر ۱۹۷۵ء میں انجمن اساتذۂ جامعات ہند(آل انڈیا یونیورسٹی ٹیچرس ایسوسی ایشن) کا چھٹا اجلاس بنگلور میں ہوا تو اُس میں ایمرجنسی کی حمایت کے لیے ایک قرارداد پاس کرانے کی کوشش ہوئی جسے پہلے تو ممبران کی اکثریت نے نامنظور کردیا لیکن بعد میں حکومت کا دباؤ اور سیاسی مصلحت کام آئی اور بمجبوری یہ تجویز منظور ہوگئی۔ اِسی طرح نومبر ۱۹۷۵ء میں آل انڈیا اُردو ایڈیٹرس کانفرنس کا تیسرا اجلاس کلکتہ میں ہوا، اِس میں حکومت نے مغربی بنگال کے وزیراعلیٰ سدھارتا شنکر رے کے اثرورُسوخ کو استعمال کرکے ایمرجنسی کی حمایت میں نہ صرف تجویز پاس کرالی بلکہ ڈیلی گیٹوں کے حلق سے نیچے نہ اُترنے کے باوجود اِس تجویز میں ایمرجنسی کو اندرا گاندھی کی طرف سے قوم کی خدمت سے تعبیر کیا گیا۔
روزنامہ ’دعوت‘ دہلی اور ویکلی ’ایاز‘ بھوپال ، ماہنامہ ’زندگی‘، عورتوں کا رسالہ ’حجاب‘، بچوں کا ’نور‘ اور سماجی سدھار کا نقیب ۔ ماہنامہ ’الحسنات‘ رامپور جیسے کتنے ہی اخبار اور میگزین تھے جو ۲۱ماہ بند رہے، ایمرجنسی کے نفاذ تک ہندوستان کی اُردو صحافت میں ہر مذہب اور نظریہ کی معقول نمائندگی تھی۔ آر ایس ایس، جن سنگھ اور آنند مارگیوں کے بھی اخبار نکل رہے تھے لیکن ایمرجنسی کا اعلان ہوتے ہی یہ اخبار بند ہوگئے، پھر بھی آریہ سماج، سناتن دھرم، سکھ ازم، عیسائیت اور اُن کی تنظیموں کے ترجمان جاری رہے۔
اُس زمانہ کے اخبار و رسالے آپ دیکھیں تو اُن کے صفحات پر وزیراعظم اندراگاندھی کی مسکراتی تصویر کے ساتھ ایسے اشتہارات ملیں گے، جن میں غریبوں اور کمزوروں کی بھلائی کے پروگرام کو بڑھا چڑھا کر پیش کیا جاتا تھا، اِن اِشتہاروں میں اندراجی کی تقریر کے ایک دو جملے بھی ہوتے تھے، اشتہارات کا یہ طریقہ اِس سے پہلے نہیں تھا، ایمرجنسی میں ہی اِس کی شروعات ہوئی اور وزیراعظم کے وعدوں، ہدایتوں اور نعروں کو اخبارات کی زینت بنانے کا وہ چلن شروع ہوا ، جو بعد میں بڑھتا ہی گیا، مثال کے طور پر ’آیئے! قوم کی تعمیر کے کاموں میں ہم جٹ جائیں‘، یا ’قوم پھر ہمت سے آگے بڑھنے لگی ہے‘، ’نوجوانوں کی بہبودی کے لیے اقدام‘ اور اِس کے ساتھ ’ایمرجنسی میں حکومت کے کاموں کا بکھان‘، ’اناج کی زبردست پیداوار کی خوش خبری‘، ’دو بچے پیٹ بھر کھائیں، چار بھوکے رہ جائیں‘ (فیملی پلاننگ کا نعرہ)، ’کالے دھن کے خلاف مہم جاری ہے وغیرہ وغیرہ۔ ایمرجنسی کے اخباروں کے مطالعہ سے اندازہ ہوتا ہے کہ حکومت اور اُس کے کارندے دوسرے کاموں کو پسِ پشت ڈال کر حکومت کی تشہیر اور پروپگنڈہ میں مصروف تھے اور پورا زور وزیراعظم کی شخصیت کو اُبھارنے میں صرف ہورہا تھا، جہاں تک عام ذرائع ابلاغ کا تعلق ہے، اُس پر سرکار کا سخت کنٹرول تھا، پرندہ بھی پر نہ مارے اِس کی پوری پیش بندی تھی، نس بندی کے نام پر جو ظلم و زیادتی ہوئی، شہری تعمیر وترقی کا بہانہ بناکر غریبوں کو اُجاڑا گیا، اُس کی خبریں بھی عام لوگوں تک مشکل سے پہونچتی تھیں، ایک اندازے کے مطابق ایک کروڑ سے زیادہ لوگ جیل میں قید کردیئے گئے تھے۔
اُس زمانہ میں ممتاز شاعر ہارِن چٹوپادھیائے دہلی کی ایک شاہراہ سے پیدل گزر رہے تھے، ایک دوست نے پوچھا آج کل آپ کیا کررہے ہیں، ہارن نے ایک سرکاری ہورڈنگ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے طنزاً جواب دیا، میں اب ملک سے محبت کرتا ہوں، کیونکہ ہورڈنگ پر بڑے بڑے حروف میں لکھا تھا ’اپنی قوم سے محبت کریں، بات کم کام زیادہ کریں‘۔ اِس سے آپ انداہ لگا سکتے ہیں کہ حکومت نے ایمرجنسی لگاکر ’کلچر آف سائیلنس‘ یعنی خاموش رہنے کی تہذیب نافذ کررکھی تھی۔ اِس گھٹن بھری صورتِ حال میں بھی، عام لوگوں نے اپنی زباں بندی کے خلاف احتجاج کیا، طرح طرح سے ایمرجنسی کی مخالفت کی، خفیہ طریقہ سے پمفلٹ شائع کئے، ہلکے پھلکے کارٹون چھاپے، دوسری طرف سرکاری سنسر کی قینچی نے ٹیگور، نذرالاسلام، گاندھی جی اور نہرو جی کو بھی نہیں بخشا، اُن کے نظریات سے اُسے بغاوت کی بوٗ آتی تھی، لہٰذا اُنھیں بھی سنسر کردیا گیا، ’مہابھارت‘ فیم سیریل کے رائٹر ڈاکٹر معصوم رضا راہی کی کتاب ’قطرہ بی آرزو‘ پر پابندی لگادی گئی کیونکہ سنسر کی نظر میں ایمرجنسی کو اِس میں نشانہ بنایا گیا تھا۔
اُردو کے جانے مانے شاعر حفیظ میرٹھی گرفتار ہوئے تو اُنھوں نے اپنے درد کی ترجمانی کرتے ہوئے کہا ؎
زندگی صیاد میری یوں نہ برباد کر
یا مجھے میسا میں دھر، یا مجھے آزاد کر
اِس کے کچھ دن بعد اُنھیں داخلی سلامتی قانون ڈی آئی آر کے تحت نظربند کردیا گیا تو اُنھوں نے دلیری کے ساتھ پھر کہا ؎
ظلم ہنس ، ہنس کے سہو، پیچھے نہ ہٹاؤ قدم
اے میسا والو! تمہیں میسا کی جوانی کی قسم
اِسی قیدوبند کے دوران حفیظ کے جواں سال بیٹے کی موت ہوگئی لیکن شاعر نے ہمت کے ساتھ اِس غم کو برداشت کیا، انفرادی احتجاج کی ایسی مثالوں سے اُس دور کی اردو شاعری بھری پڑی ہے۔ مظفر رزمی کیرانوی کا یہ شعر تو ایمرجنسی کے مظالم کو آج بھی تازہ کردیتا ہے ؎
وہ جبر بھی دیکھا ہے، تاریخ کی نظروں نے
لمحوں نے خطا کی تھی، صدیوں نے سزا پائی
بھوپال کے شاعر فضل تابش کا یہ شعر بھی ایمرجنسی کے تاریک ماحول پر ایک طنز ہے ؎
جسم میں اُتر کر دیکھ لیا، ہاتھ خالی تھا، اب بھی خالی ہے
ریشہ ریشہ اُدھیڑ کے دیکھو، روشنی کس جگہ سے کالی ہے
ڈاکٹر قمر رئیس کی ایمرجنسی پر کہی گئی علامتی نظم ’’رات پھر حاملہ ہوگئی‘‘ تو ادبی حلقوں میں اُس وقت بہت مقبول ہوئی تھی۔اُردو کے ایک بڑے افسانہ نگار اقبال مجید نے ایمرجنسی پر کہانی ’پوشاک‘ لکھی تھی، جو کافی پسند کی گئی، روسی زبان میں اِس کا ترجمہ بھی ہوا تھا۔ اقبال مجیدنے کراچی پریس کلب میں اِسے سنایا تو وہاں موجود پاکستان کے ایک افسر نے کہا کہ اِس کہانی کو آپ پریس کلب کی چھت کے باہر پڑھتے تویقینا گرفتار ہوجاتے، کیونکہ یہ کہانی ہندوستان کی ایمرجنسی کے خلاف ہی نہیں پاکستان کی سیاسی صورتِ حال پر بھی ایک گہرے طنز کا درجہ رکھتی ہے۔
ایمرجنسی کے اِسی جبر اور پابند سماج کو ہدف بنانے کے لیے جواہرلال یونیورسٹی نئی دہلی کے اُردو پروفیسر اور ادیب ڈاکٹر محمد حسن نے ’ضحاک‘ کے نام سے ایک طویل ڈرامہ لکھا جو کہنے کو ایک اساطیری داستان (میتھالاجی پر مبنی کہانی) ہے، لیکن اِس میں ایمرجنسی کے جانے پہچانے کرداروں کو پیش کیا گیا ہے، یہ ڈرامہ سہ ماہی ’عصری ادب‘ نئی دہلی میں شائع ہوا ہے،۱۹۷۷ء کا یہ پہلا شمارہ اِس لیے بھی اہمیت کا حامل ہے کہ اِس میں ایمرجنسی کے خلاف افسانے، منی افسانے، غزل، نثری نظمیں اور ڈاکٹر محمد حسن کے قلم سے ’کیا کچھ گزر گیا‘ کے زیرِ عنوان ایک بے لاگ ایڈیٹوریل موجود ہے۔ بھوپال کے مولانا انعام الرحمن خاں نے میسا میں گرفتاری کے دوران جو خط وکتابت کی، اُسے ’میسا کے شگوفے‘ کے نام سے زینت پبلشنگ ہاؤس جبل پور نے شائع کیا ہے، متین طارق باغپتی کے خطوں کا ایک مجموعہ ’خطوطِ زنداں‘ کے نام سے عفیف آفسیٹ پرنٹس دہلی سے شائع ہوا ہے، میسا میں اپنے قید کی روئیدادیں اور لوگوں کی زبانی بھی بیان ہوئی ہیں۔ اُردو کے رائٹر اور ڈائرکٹر گلزار کی مشہور فلم ’آندھی‘کو نمائش کی اجازت اِس لیے نہیں ملی کہ اندراگاندھی کی زندگی کے مختلف پہلوؤں پر یہ فلم بنائی گئی تھی، انگریزی کے ممتاز صحافی بی جی ورگیز کو ’ہندوستان ٹائمز‘ میں سکم کے ہندوستان میں غیرجمہوری طریقہ سے انضمام کے خلاف ایڈیٹوریل تحریر کرنے پر جیل بھیج دیا گیا تھا، ہندی کے اور بھی کئی قلم کاروں اور صحافیوں کو اپنی تحریروں کے باعث سرکاری عتاب کا شکار بننا پڑا لیکن اردو کے صحافی مولانا محمد مسلم پر ایسا کوئی الزام نہ ہوتے ہوئے بھی اُنھیں ۱۷ماہ جیل میں اِس لیے گزارنے پڑے کہ وہ جماعتِ اسلامی کے آرگن ’دعوت‘ کے ایڈیٹر تھے، وہ اپنی بیٹی کی شادی میں شرکت بھی نہیں کرسکے، اُردو کے درجنوں نڈرصحافی، غلام سرور، اکبر رحمانی، حفیظ نعمانی وغیرہ کے قلم پر پابندی لگانے کے لیے انھیں دھمکایا گیا۔
یہ اور اِس طرح کی سیکڑوں مثالوں سے ایمرجنسی کے زمانے کا لٹریچر بھرا پڑا ہے، جس تک گہرائی کے ساتھ سنسر کی نظر اِس لیے نہیں پہونچی کہ سرکاری عملہ میں اُردو جاننے والے مناسب تعداد میں موجود نہیں تھے، چنانچہ بے شمار ایسے اشعار، نظمیں، افسانے، سیاسی کالم اور ایڈیٹوریل سنسر کی پکڑ سے محفوظ رہے، ایمرجنسی کے ۲۱ماہ اور اُس کے بعد لکھے گئے اردو ادب کا اگر گہرائی کے ساتھ جائزہ لیا جائے تو ۲۱ ماہ کے سرکاری آتنک کے خلاف جو کچھ اردو کے قلم کاروں نے لکھا، اُس کا ایک ضخیم مجموعہ سامنے آسکتا ہے، سچی بات یہ ہے کہ ایمرجنسی میں اردو زبان پر کیا بیتی اِس پہلو کو سامنے رکھ کر کام نہیں ہوا، جس پراب توجہ دینے کی ضرورت ہے۔
جس طرح انگریزی سامراج کے دورِ حکومت کے کچھ مثبت پہلوؤں کو پرانی پیڑھی یاد کرتی ہے، اُسی طرح ایمرجنسی میں ہنسی خوشی نہیں تو زور زبردستی برتنے پر بعض اچھے کام بھی ہوئے، رشوت خوری کم ہوگئی، ٹرینیں وقت پر دوڑنے لگیں، جیل کی ہوا کھانے کے ڈر سے مجرم جرم سے گھبرانے لگے، سرکاری آفسوں میں ملازم وقت پر آنے لگے، فرقہ وارانہ فساد بند ہوگئے، لوگوں کے کام وقت پر ہونے لگے، اِسی طرح ایمرجنسی میں اردو زبان کے حق میں بعض اچھے اعلانات ہوئے، ریاستوں میں اردو اکادمیاں قائم ہوئیں، اندرا گاندھی کے ۲۰ نکاتی پروگرام میں اُردو شامل ہوئی، اردو اکادمیوں کی ایک کانفرنس لکھنؤ میں ہوئی، راشٹرپتی فخرالدین علی احمد نے اِس کا افتتاح کیا، فخرالدین علی احمد کمیٹی لکھنؤ میں تشکیل دی گئی جو کتابوں کی اشاعت کے لیے مالی امداد فراہم کرتی ہے۔ ممبئی،سری نگر اور پٹنہ میں بھی اردو کے قلم کاروں کی کانفرنسیں ہوئیں، جن میں خوش کن اعلانات اور وعدے کیے گئے، لیکن اِسے اردو کی بدقسمتی کہیں یا اقلیتوں سے جمہوری حکمرانوں کا مذاق کہ اِن کا کوئی نتیجہ اردو زبان کے حالات بدلنے کی صورت میں سامنے نہیں آیا، بلکہ آزادی کے بعد سے اِس زبان کے ساتھ جو سلوک شروع ہوا، وہ جاری رہا۔ ایک طرف اعلانات ہوئے، دوسری طرف اُن پر عمل کرنے کی ضرورت کسی نے محسوس نہیں کی، ایسے ہی وعدے اور اعلانات پر خوشامد کا الزام بھی خوب دُہرایا گیا۔ لہٰذا ضروری ہے کہ آج کی نسل کسی ڈراؤنے خواب کی طرح ایمرجنسی کی ناانصافی کو بھلا نہ دے، اُس سے ہماری جمہوریت اور روایات کو جو زخم لگے ہیں اُنھیں تازہ رکھے اور اُن سے ضروری سبق بھی لے تاکہ ایمرجنسی جیسے حالات ہندوستان میں دوبارہ پیدا نہ ہوں، ہر جمہوریت پسند ہندوستانی یہ بھی نہ بھولے کہ آزادی اور جمہوری نظام ایک نعمت ہے جو مفت میں نہیں ملتے، اِس کے لیے ہمارے پُرکھوں نے بڑی قربانیاں دی ہیں۔ ہمیں بھی اِس کی حفاظت کے لیے کم از کم آنکھیں کھلی رکھنا اور ہردم بیدار رہنا چاہیے۔
کررہا ہوں بزم میں ماضی کا ماتم اس لیے
تاکہ مستقبل کے شعلوں کو ہوا دینی پڑے

 

Shaikh Akram

Shaikh Akram S/O Shaikh Saleem Chief Editor aitebar news, Nanded (Maharashtra) Mob: 9028167307 Email: akram.ned@gmail.com

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے