किया अप भी अपने न्यूज़ पेपर की वेब साईट बनाना चाहते है या फिर न्यूज़ पोर्टल बनाना चहाते है तो कॉल करें 9860450452 / 9028982166 /9595154683

ایمان کا تحفظ اور اس کی پختگی ہر مسلمان پر فرض

تحریر: ڈاکٹرمحمدسعیداللہ ندویؔ

ایمان ایک ایسی نعمتِ ربانی ہےو انسان کو حیوانیت کے اندھیروں سے نکال کر نورِ انسانیت سے منور کرتی ہے۔ ایمان انسان کے قلب وضمیر کو بیدار کرتا ہے، اس کی سوچ و فکر کو صحیح رخ عطا کرتا ہے، اور اس کے شب و روز کو مقصدیت اور بندگی کی خوشبو سے مہکاتا ہے۔ ایمان ہی وہ جوہر ہے جس کے بغیر نہ اعمال کی کوئی حیثیت ہے اور نہ زندگی کی کوئی قیمت۔ ایک لمحے کے لیے بھی اگر انسان ایمان سے محروم ہو جائے تو گویا وہ ساری انسانیت سے خالی ہو گیا۔ایمان کی حفاظت اور اس کی پختگی ہر مسلمان کے لیے اسی طرح لازم ہے جیسے اپنی جان کی حفاظت فرض ہے۔ درحقیقت ایمان ہی انسان کی اصل جان ہے۔ ایمان کے بغیر انسان بے سمت کشتی کی مانند ہے جو نہ منزل کا پتہ رکھتی ہے نہ رخ کا شعور۔ ایمان انسان کو خالقِ کائنات سے جوڑتا ہے، اس کے دل میں خوفِ خدا اور محبتِ رسول پیدا کرتا ہے، اسے نیکی کی طرف مائل کرتا ہے اور برائی سے روکتا ہے۔ یہی ایمان انسان کو فتنوں کے طوفان میں استقامت عطا کرتا ہے اور دنیا کے ساز و سامان کی چکا چوند میں آنکھوں کی بصیرت کو محفوظ رکھتا ہے۔ایمان صرف ایک عقیدہ یا نظریہ نہیں بلکہ ایک زندہ قوت ہے، جو انسان کے دل، دماغ اور کردار پر یکساں حکومت کرتی ہے۔ یہ قوت اگر کمزور ہو جائے تو انسان دنیا کی رنگینیوں میں بہک جاتا ہے، اور اگر یہ قوت مضبوط ہو تو انسان فرشتوں سے بھی بلند ہو جاتا ہے۔ اس لیے ہر مسلمان کو چاہیے کہ وہ اپنے ایمان کی حفاظت کرے، اس کی نگرانی کرے، اور اسے روز بہ روز تازہ و توانا رکھے۔آج کا دور جس قدر فتنوں سے لبریز ہے، شاید ہی تاریخ نے ایسا کوئی زمانہ دیکھا ہو۔ میڈیا کی یلغار، سوشل نیٹ ورکس کی آلودگی، افکار و نظریات کی الجھنیں، باطل تہذیبوں کی کشش، دین سے بیزار ماحول، سب مل کر ایمان پر حملہ آور ہو رہے ہیں۔ عقلوں کو مسخ کیا جا رہا ہے، دلوں کو زنگ آلود کیا جا رہا ہے، اور نظریات کو مشکوک بنایا جا رہا ہے۔ ایسے نازک حالات میں اگر ایک مسلمان اپنے ایمان کی نگہبانی نہ کرے تو بہت جلد وہ اس سرمایہ عظیم سے محروم ہو سکتا ہے۔اگر دل میں ایمان کی حرارت نہ ہو، تو علم نفع نہیں دیتا، عبادت اثر نہیں کرتی، اور نیکی کا جذبہ مردہ ہو جاتا ہے۔ اس لیے ضروری ہے کہ ایمان کو زندہ رکھنے کے لیے باقاعدہ محنت کی جائے، اور اس کے لیے سب سے پہلا قدم یہ ہے کہ ایمان کی قدر و قیمت کو پہچانا جائے۔ جب تک کسی نعمت کی قیمت کا اندازہ نہ ہو، اس کی حفاظت کا جذبہ پیدا نہیں ہوتا۔ایمان کی پختگی کے لیے ضروری ہے کہ انسان قرآن و سنت سے تعلق مضبوط کرے۔ قرآن مجید ایمان کو تازہ کرتا ہے، اور سیرتِ نبوی ایمان کو جِلا بخشتی ہے۔ روزانہ کچھ وقت قرآنِ پاک کی تلاوت، ترجمے اور تفسیر کے ساتھ، سیرتِ پاک کی مطالعہ، اور اولیاء￿ ِ کاملین کی صحبت، انسان کے دل میں ایمان کی حرارت کو زندہ رکھتی ہے۔ اللہ تعالیٰ کے محبوب بندے کبھی اپنے ایمان کے معاملے میں غافل نہیں رہے۔ وہ روزانہ اپنے دل کا جائزہ لیتے، اپنے اعمال کا محاسبہ کرتے، اور ہر لمحہ اللہ سے ہدایت و استقامت کی دعا کرتے تھے۔ایمان صرف زبان سے لا الٰہ الا اللہ کہنے کا نام نہیں، بلکہ اس کا اصل مقام دل ہے۔ دل اگر صاف نہ ہو، تو زبان کا کلمہ محض رسمی بن جاتا ہے۔ ایمان کو دل میں اتارنے کے لیے دل کو گناہوں کی غلاظت سے پاک کرنا ضروری ہے۔ معاصی، فحاشی، کذب، حرص، حسد، اور کینہ، یہ سب ایمان کے دشمن ہیں۔ یہ دل میں اندھیرے پیدا کرتے ہیں، اور اندھیرے میں نورِ ایمان نظر نہیں آتا۔ اس لیے لازم ہے کہ مسلمان مسلسل اپنے دل کو پاک کرے، توبہ و استغفار کو اپنا معمول بنائے، اور ذکرِ الٰہی کے ذریعے دل کو روشن رکھے۔آج ہمارے لئے سب سے بڑی ضرورت ایمان کی تازگی ہے۔ ہم نے دین کو رسوم و عادات تک محدود کر دیا ہے، جبکہ دین کا اصل مرکز ایمان ہے۔ اگر ایمان تازہ ہو، تو نماز میں خشوع پیدا ہوتا ہے، روزے میں تقویٰ پیدا ہوتا ہے، زکوٰۃ میں ایثار پیدا ہوتا ہے، اور حج میں اخلاص پیدا ہوتا ہے۔ لیکن جب ایمان بوسیدہ ہو جائے، تو یہ سب عبادات محض ایک رسمی عمل بن جاتی ہیں۔ایمان کی حفاظت کے لیے صحبتِ صالحین کا اہتمام بھی نہایت ضروری ہے۔ انسان کا دل آئینے کی مانند ہے، اور جیسا ماحول ہوتا ہے ویسا ہی عکس دل پر پڑتا ہے۔ اگر انسان نیک لوگوں کی صحبت میں رہے، تو ایمان مضبوط ہوتا ہے، دل میں نیکی کی رغبت بڑھتی ہے، اور اللہ سے تعلق مضبوط ہوتا ہے۔ لیکن اگر انسان فسق و فجور کی محفلوں میں بیٹھے، فاسقوں کے کلام کو سنے، اور گناہوں کی طرف مائل ماحول میں وقت گزارے، تو دل سخت ہو جاتا ہے، آنکھوں سے آنسو خشک ہو جاتے ہیں، اور ایمان مردہ ہو جاتا ہے۔اس لیے ایمان کی حفاظت کا ایک اہم ذریعہ یہ ہے کہ انسان اپنے گرد و پیش کے ماحول پر گہری نظر رکھے۔ وہ کیا پڑھ رہا ہے، کیا سن رہا ہے، کن سے میل جول رکھ رہا ہے، اور کس ماحول میں اپنی اولاد کو پروان چڑھا رہا ہے۔ یہ سب چیزیں ایمان پر براہ راست اثر ڈالتی ہیں۔ آج والدین اگر اپنی اولاد کے ایمان کی فکر نہ کریں، ان کے دینی ماحول کا خیال نہ رکھیں، تو کل یہی اولاد دین سے دور ہو جائے گی، اور ایمان کی قیمتی دولت سے ہاتھ دھو بیٹھے گی۔ایمان ایک زندہ شے ہے، اور زندہ شے کو زندہ رکھنے کے لیے خوراک، نگہداشت اور تحفظ کی ضرورت ہوتی ہے۔ جیسے ایک پودا پانی، روشنی، اور حفاظت کے بغیر مرجھا جاتا ہے، ویسے ہی ایمان بھی علم، عمل، ذکر اور نیک صحبت کے بغیر کمزور ہو جاتا ہے۔ ایمان کی پختگی تب ہی ممکن ہے جب انسان اپنے ایمان کی صحت کا مسلسل خیال رکھے، اور اسے دنیا کے فتنوں سے بچانے کے لیے سنجیدہ کوشش کرے۔آج ہم سب پر فرض ہے کہ ایمان کی اس نعمت کی شکر گزاری کریں، اور اس کی حفاظت کو اپنی زندگی کا مقصد بنائیں۔ ہمیں اپنے بچوں کو ایمان کی دولت سے مالا مال کرنا ہے، اپنی معاشرت کو ایمان کی بنیاد پر استوار کرنا ہے، اور اپنے کردار سے یہ ظاہر کرنا ہے کہ ہم سچے مومن ہیں۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ ہم ہر دن ایمان کو تازہ کرنے والے اعمال کو اپنائیں، اور ہر لحظہ اپنے دل کی حالت پر نظر رکھیں۔ایمان کی حفاظت اور اس کی پختگی نہ صرف فرد کی نجات کا ذریعہ ہے، بلکہ پوری امت کی سربلندی کا راز بھی اسی میں پوشیدہ ہے۔ اگرہر فرد اپنے ایمان کی فکر کرے، تو امت فتنوں کے طوفان میں بھی ڈوبنے سے بچ سکتی ہے۔

Shaikh Akram

Shaikh Akram S/O Shaikh Saleem Chief Editor aitebar news, Nanded (Maharashtra) Mob: 9028167307 Email: akram.ned@gmail.com

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے