किया अप भी अपने न्यूज़ पेपर की वेब साईट बनाना चाहते है या फिर न्यूज़ पोर्टल बनाना चहाते है तो कॉल करें 9860450452 / 9028982166 /9595154683

انگریز وں سے لاحق خطرات کا احساس دلانے والا شیرمیسور

ڈاکٹرمحمدسعیداللہ ندویؔ

ٹیپو سلطان20نومبر1750کو پیدا ہوئے تھے۔ ان کے والد حیدر علی میسور کے حکمران تھے اور ان کی والدی فاطمہ فخرالنساء جو میرمعین الدین کی دختر تھیں‘ کڑپہ کے گورنر بھی تھے۔فرانس کے افیسروں نے انہیں فوجی تربیت دی تھی۔ پندرہ سال کی عمر میں انہوں نے 1766میں پہلی جنگ میسور میں حصہ لیاتھا۔ والد کی موت کے بعد دسمبر1782میں وہ میسور کے 22ویں حکمران مقرر کئے گئے تھے۔ ٹیپو سلطان کا نام آرکاٹ کے بزرگ ٹیپو مستان اولیا کے نام پر رکھا گیا تھا۔ جب ٹیپو سلطان نے ہوش سنبھالا تو اس وقت انگریزوں کے ناپاک قدم تیزی سے پورے ہندوستان کی ایک کے بعد دیگر ریاستوں کو روندتے ہوئے آگے بڑھ رہے تھے۔سلطان حیدر علی نے 17 سال کی عمر میں ٹیپو سلطان کو اہم سفارتی اور فوجی امور پر آزادانہ اختیار دے دیا اور انہوں نے جلد ہی اپنی ذہانت، فراست اور اعلیٰ قائدانہ صلاحیتوں سے والد ماجد حیدر علی کا دل جیت لیا۔
کچھ کردار ہمیشہ زندہ رہتے ہیں !اگرتاریخ کے اوراق پلٹ کر دیکھئے تو پتہ چلے گا کہ انگریزوں کے تسلط سے ہندوستان کو نجات دلانے کے لیے بے شمار ہندوستانیوں نے اپنی جانوں کو قربان کیا ہے۔انگریزی حکومت کے خلاف ہندوستانیوں کی جدوجہد میں بڑے بڑے نام اور کردار سامنے آئے ہیں۔ مثلاً تیتو میر، بیگم حضرت محل،جعفر تھانیسری،شہید اشفاق اللہ خان، مولاناحسین احمد مدنی،بہادرشاہ ظفر اور نہ جانے کتنے نام ہماری نظروں میں گھوم رہے ہیں۔ ان میں ایک اہم نام شیر میسور ٹیپو سلطان کا بھی ہے۔ جنہوں نے انگریزوں کے سامنے سرتسلیم خم کرنے کے بجائے جام شہادت نوش فرمایا تھا۔، تاریخ کے اوراق پلٹیں تو قدم قدم پہ کوئی پر شکوہ شخصیت اپنے جلال و جمال کے ساتھ کھڑی نظر آتی ہے۔ ان عظیم شخصیات نے تاریخ میں سنہرے ابواب رقم کئے ہیں جو آج بھی مشعل راہ ہیں۔
ٹیپو نے انگریزوں کے خلاف دوسری جنگ جنوری 1779 میں لڑی ۔دوران جنگ دسمبر 1783 میں حیدر علی راہی ملک عدم ہو گئے۔ٹیپو سلطان نے 20 محرم 1196، مطابق 27 دسمبر 1782 زمام حکومت ہاتھ میں لی۔ ایک طرف ٹیپو کو زرخیر قدرتی وسائل سے مالامال ایک وسیع وعریض سلطنت اور مستحکم ومنظم ریاست کے مالک ہونے کا شرف حاصل ہوا، تو دوسری جانب ریاست کے خلاف اندر اور باہر ریشہ دوانیوں اور سازشوں کو ہوا دینے والے گروہ کی عداوت بھی ورثے میں ملی۔ٹیپو سلطان کے مسند پر بیٹھتے وقت سلطنت خداداد کی چار سو میل میں پھیلی ہوئی تھی اور مجموعی رقبہ 80 ہزار مربع میل تھا۔ فوج کی تعداد ایک لاکھ 80 ہزار تھی، 60 ہزار گھوڑے جس میں نصف تعداد عربی گھوڑوں کی تھی، 6 ہزار اونٹ، 9سو ہاتھی، 2 لاکھ سے زائد تلواریں، 220 بڑی توپیں، 6 لاکھ مختلف قسم کی بندوقیں اس کے علاوہ دیگر ہتھیار بھی تھے۔ سالانہ آمدنی ساڑھے سات کروڑ سے زیادہ تھی۔
ٹیپو سلطان ایک عظیم مجاہد ہونے کے ساتھ ساتھ پکے مسلمان تھے۔ وہ ساد ہ زندگی بسر کرتے اور شرعی لباس پہنتے تھے اور آخری دور میں سبز رنگ کی دستار پہننے لگے تھے۔ نماز فجر کے وقت تلاوت کرتے اور پورے دن باوضو رہتے۔ نماز کے تو اتنے پابند تھے کہ جب شری رنگاپٹنم میں مسجد اعلیٰ کے افتتاح کا موقع آیا تو سوال یہ پیدا ہوا کہ امامت کون کرے گا اس وقت اپنے عہد کے علماء کرام اور مشائخ موجود تھے، یہ طے ہوا کہ نماز کی امامت وہ شخص کرے جس کی کوئی نماز قضا نہ ہوئی ہو۔ کچھ دیر سکتہ طاری ہونے کے بعد سلطان آگے بڑھے اور کہا، الحمد للہ میں صاحب ترتیب ہوں اور نماز کی امامت کی۔
ٹیپو سلطان نے مادر ہند کو ایسٹ انڈیا کمپنی تسلط سے آزاد کرانے کے لیے کے خلاف ایک مضبوط محاذ تشکیل دینے کی ہر ممکن کوشش کی۔ ملک کی ہر چھوٹی اور بڑی ریاست جے پور، جودھپور اور نیپال وغیرہ کو اپنے ایلچی اور خطوط روانہ کیے۔ 23 جون 1785ء کو مغل شہنشاہ شاہ عالم کی خدمت میں عریضہ لکھ کر انگریزوں کے خلاف جنگ کرنے کی اپنی خواہش کا اظہار کیا۔ انہوں نے نظام حیدرآباد کو ہر پہلو سے سمجھانے کی کوشش کی۔ نظام اور مرہٹوں نے ٹیپو کی بڑھتی طاقت کو اپنی بقا کے لیے خطرہ سمجھا اور انگریزوں سے اتحاد کر لیا۔ ٹیپو سلطان نے ترکی، ایران، افغانستان اور فرانس سے مدد حاصل کرنے کی کوششیں کی مگر کامیاب نہ ہو سکے۔
ٹیپو سلطان نے محسوس کر لیا تھا کہ مغربی ممالک میں انقلاب برپا ہونے کے بعد انگریزوں کے پاس جدید اسلحہ اورساز وسامان کا انبار ہے اور ان کا مقابلہ پرانے اور فرسودہ جنگی ساز وسامان سے ہرگز نہیں کیا جا سکتا۔ اسی لیے انہوں نے انتہائی دور رس اثرات کی حامل فوجی اصلاحات نافذ کیں اور جدید تکنیک سے اپنی افواج کو آراستہ کیا۔ انہوں نے راکٹ ایجاد کیا جس نے انگریزوں کا دن کا چین اور رات کا سکون چھین لیا۔ انہوں نے نہ صرف پیدل اور کولیری کے اوپر اپنی توجہ مرکوز کی بلکہ بحریہ کے بیڑے کو بھی اپنی فوج میں شامل کیا۔ بحریہ کا قیام سلطان کاایک عظیم کارنامہ تھا۔ وہ ہندوستان کے ایک ایسے حاکم تھے جنہوں نے سب سے پہلے سمندری راستوں کی اہمیت کا احساس کیا اور اس کا باضابطہ نظم قائم کیا۔
فوجی قواعد کے لئے کتاب ’فتح المجاہدین‘ ترتیب دی۔ مقناطیسی پہاڑوں سے جہازوں کو بچانے کیلئے لوہے کی جگہ تابنے کے تاروں کا استعمال سلطان کی ہی دین ہے۔ اگر چہ ٹیپو سلطان کا زیادہ وقت میدان جنگ میں گزرا اس کے باوجو د انہیں جتنا بھی وقت ملا انہوں نے ریاست کی خوشحالی اور عوامی فلاح و بہبود پر صرف کیا۔ انہوں نے اپنی سلطنت میں جو مختلف محکمہ جات قائم کئے تھے ان کی تعداد 99 تھی۔فرقہ پرستوں کو ٹیپو سلطان کی تاریخی عظمت ایک آنکھ نہیں بھاتی۔ من گھڑت قصے اور غلط بیانی سے جوڑکر ٹیپو کی تاریخ اور ان کے دورِ حکومت کی منفرد خصوصیت کو مسخ کرنے کی کوششیں ہوتی رہی ہیں ۔تاریخ کا صحیح مطالعہ کرنے والے اورسمجھنے والے عالمی سطح پر ٹیپو کو ’’شیرمیسور‘‘ کے نام سے یاد کرتے ہیں ۔

Shaikh Akram

Shaikh Akram S/O Shaikh Saleem Chief Editor aitebar news, Nanded (Maharashtra) Mob: 9028167307 Email: akram.ned@gmail.com

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے