किया अप भी अपने न्यूज़ पेपर की वेब साईट बनाना चाहते है या फिर न्यूज़ पोर्टल बनाना चहाते है तो कॉल करें 9860450452 / 9028982166 /9595154683

امت مسلمہ: ماضی کی عظمت، حال کی حقیقت، کل کی امید

تحریر: خان اجمیری(عرف خان میڈیم)
زوجہ ڈاکٹر خان خرم زبیر
B.sc [Cs & C.B.Z ] B.Ed MCA
ڈائریکٹر اسٹڈی اسمارٹ کوچنگ کلاسیس اردھاپور ضلع ناندیڑ مہاراشٹرا

جب میں بطور ایک مسلمان خاتون امت مسلمہ کی موجودہ حالت پر نگاہ ڈالتی ہوں، تو دل کرب سے بھر جاتا ہے کہ جس امت کو خیر امت کہا گیا، جو کبھی دنیا کے علم، اخلاق، تہذیب اور قیادت کی روشن مثال تھی، وہ آج فکری انتشار، علمی انحطاط، اخلاقی زوال، فرقہ واریت، سیاسی غلامی، اور معاشی کمزوری کا شکار ہے۔ اس زوال کا سب سے بڑا سبب ہمارے اپنے اعمال اور دین سے عملی دوری ہے، کیونکہ اللہ کسی قوم کی حالت اس وقت تک نہیں بدلتا جب تک وہ خود اپنی حالت نہ بدلے۔ مگر ہم نے اپنے زوال کی وجوہات کو دوسروں کی سازشوں پر ڈال کر خود احتسابی سے بچنے کی عادت اپنا لی ہے۔ اصل خرابی ہماری اپنی صفوں میں ہے، ہمارے طرزِ فکر، طرزِ عمل، اور دین سے ہمارے ربط میں ہے۔ ہم نے جس دین کو مکمل ضابطہ حیات کہا، اسے فقط عبادات، رسوم اور تہواروں تک محدود کر دیا۔ سب سے پہلے علم سے دوری کا پہلو ہمارے زوال کی جڑ ہے۔ وہ امت جس کا پہلا قرآنی حکم "پڑھ!” تھا، وہ امت آج جہالت کے اندھیروں میں بھٹک رہی ہے۔ بغداد، قرطبہ، دمشق اور بخارا کبھی علم و فن کے گہوارے تھے، جہاں مسلمان سائنس، فلسفہ، طب، ریاضی، اور دین میں امام سمجھے جاتے تھے، مگر آج وہی امت دوسروں کی علمی اجارہ داری کے سائے میں جینے پر مجبور ہے۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ علم حاصل کرنا ہر مسلمان مرد و عورت پر فرض ہے، مگر آج ہم نے نہ صرف علم کو پسِ پشت ڈال دیا بلکہ دینی علم کو چند مخصوص طبقات اور دنیاوی علم کو صرف نوکری کا ذریعہ سمجھ کر اس کی روح کو بھی مسخ کر دیا۔ صرف یہی نہیں، علم کی کمی نے شعور کو ختم کر دیا، اور شعور کی عدم موجودگی نے معاشرتی مسائل کو جنم دیا، جس سے ہم فکری غلامی اور اندھی تقلید کے دلدل میں جا گرے۔
زوال کی دوسری بڑی وجہ فرقہ واریت اور مسلکی تعصب ہے، جس نے امت کو اتحاد کی لڑی سے نکال کر گروہوں، فرقوں، ذاتوں اور قوموں میں بانٹ دیا۔ وہ امت جو ایک امت کہلائی تھی، آج ایک دوسرے کو کافر، فاسق اور گمراہ کہنے میں جھجک محسوس نہیں کرتی۔ حالانکہ اللہ کا حکم ہے کہ اس کی رسی کو سب مل کر مضبوطی سے تھامو اور تفرقہ مت ڈالو، مگر ہم نے اسی قرآن کو اختلاف اور نفرت کا ذریعہ بنا دیا۔ سوشل میڈیا سے لے کر ممبر و محراب تک، ہر جگہ الزام، تکفیر، اور فتنہ بازی کا راج ہے۔ اتحاد جو ہمارے ماضی کی اصل طاقت تھا، وہ آج ہماری کمزوری بن چکا ہے، اور دشمن اسی تقسیم کا فائدہ اٹھا کر ہمیں بار بار کمزور کر رہا ہے۔
تیسری اہم وجہ اخلاقی انحطاط ہے، جو شاید سب سے زیادہ خطرناک ہے، کیونکہ یہ براہ راست ہمارے ایمان سے جڑا ہوا ہے۔ بددیانتی، جھوٹ، وعدہ خلافی، غیبت، حسد، اور ظلم جیسے گناہ عام ہو چکے ہیں، حتیٰ کہ مسجدوں کے نمازی اور حج کے حاجی بھی ان برائیوں سے محفوظ نہیں۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ مجھے اس لیے بھیجا گیا تاکہ میں اخلاق کو مکمل کر دوں، مگر آج امت محمدیؐ کے افراد اخلاقی بدحالی کا نمونہ بن چکے ہیں۔ اگر ہمارے کردار سچائی، امانت، خلوص، رحم، عدل، اور ہمدردی کی ترجمانی کرتے تو شاید دنیا آج بھی ہمارے پیچھے چلتی۔ لیکن ہم نے کردار کو رسموں کے نیچے دفن کر دیا، اور دین کو صرف مخصوص اعمال تک محدود کر لیا۔
چوتھی وجہ دنیا پرستی ہے، جو دلوں میں اس قدر گھر کر گئی ہے کہ ہم نے آخرت کو بھلا دیا۔ عبادات محض رسم بن چکی ہیں، نمازیں بھی دل سے خالی، روزے بھی بھوک کی مشق، اور حج بھی صرف سیاحتی یادگار بنتا جا رہا ہے۔ نیتیں ریاکاری سے بھر گئی ہیں، اور اخلاص دل سے رخصت ہو چکا ہے۔ ہم نے قرآن کو سمجھ کر پڑھنے کے بجائے صرف ثواب کمانے کی کتاب بنا دیا ہے، حالانکہ وہ بار بار ہم سے غور و فکر کا مطالبہ کرتا ہے — کیا یہ لوگ قرآن میں تدبر نہیں کرتے؟ مگر ہم نے سوچنا، سوال کرنا، تحقیق کرنا چھوڑ دیا، اور اندھی تقلید کو دین کا اصل سمجھ لیا۔
مسلمان عورت کا کردار بھی زوال کے اس سفر میں ایک اہم پہلو ہے، جسے یا تو مکمل طور پر محدود کر دیا گیا ہے یا اس سے غیر فطری توقعات وابستہ کر لی گئی ہیں۔ حالانکہ عورت ہی پہلی درسگاہ ہے، اور نبی ﷺ نے بیٹیوں کی تعلیم و تربیت کو جنت کا ذریعہ قرار دیا ہے — کہ جس شخص نے اپنی تین بیٹیوں کو ادب سکھایا، ان کی اچھی تربیت کی اور ان کا نکاح کر دیا، اس کے لیے جنت ہے۔ مگر آج بھی بہت سے مسلم معاشروں میں خواتین کو تعلیم، رائے، قیادت اور خودمختاری سے محروم رکھا جا رہا ہے۔ جب تک عورت تعلیم یافتہ، باشعور، اور بیدار نہ ہو، ایک اچھی نسل کی پرورش ممکن نہیں، اور یہ بات ایک مسلم خاتون سے بہتر کوئی نہیں سمجھ سکتا۔
ان تمام اسباب کے باوجود مایوسی حل نہیں، کیونکہ ہمارے پاس قرآن و سنت کی صورت میں ہدایت کا مکمل نظام موجود ہے۔ سب سے پہلے، ہمیں سچی توبہ کرنی ہوگی — اے ایمان والو، تم سب اللہ کی طرف توبہ کرو تاکہ تم کامیاب ہو جاؤ۔ توبہ کے ساتھ ہمیں علم کو اولین ترجیح بنانا ہوگا — ایسا علم جو عقل، فہم، تدبر اور کردار پیدا کرے۔ اس کے ساتھ ساتھ ہمیں اپنی اخلاقی حالت کو بہتر بنانے کی ضرورت ہے، کیونکہ فرد کا اخلاق ہی قوم کی پہچان ہوتا ہے۔ پھر ہمیں اتحادِ امت کے لیے سنجیدہ کوشش کرنی ہوگی، ایک دوسرے کے اختلاف کو برداشت کرنا سیکھنا ہوگا، اور بنیادی عقائد پر وحدت قائم کرنی ہوگی، جیسا کہ نبی ﷺ نے فرمایا کہ مومن، مومن کے لیے دیوار کی اینٹوں کی مانند ہے جو ایک دوسرے کو مضبوط کرتی ہیں۔ سب سے آخر میں، ہمیں قرآن کو اپنی زندگی کا اصل رہنما بنانا ہوگا، نہ کہ محض تعویذ یا وظیفہ، کیونکہ وہی ہماری اصل روحانی اور اجتماعی رہنمائی کا سرچشمہ ہے۔ قرآن ہمیں یاد دلاتا ہے کہ کامیاب وہی ہے جس نے اپنے نفس کو پاک کیا اور ناکام وہ جس نے اسے آلودہ چھوڑ دیا۔
لہٰذا، اگر ہم اپنے زوال سے واقعی پریشان ہیں، تو ہمیں دوسروں کو الزام دینے کے بجائے اپنی ذات، اپنے کردار، اپنے علم، اپنی نیت اور اپنی امت کے ساتھ رشتے کو ازسرِنو تعمیر کرنا ہوگا۔ ہر مسلمان، خاص طور پر خواتین، کو یہ ذمہ داری لینی ہوگی کہ وہ خود بھی باشعور بنیں، اور اپنی نسل کو قرآن، سیرت، اور علم کی روشنی سے آشنا کریں۔ کیونکہ زوال کا علاج دوسروں کو کوسنے میں نہیں، بلکہ خود کو بدلنے میں ہے۔ اور یہی قرآن کا پیغام ہے، اور یہی نجات کی کنجی۔

Shaikh Akram

Shaikh Akram S/O Shaikh Saleem Chief Editor aitebar news, Nanded (Maharashtra) Mob: 9028167307 Email: akram.ned@gmail.com

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے