किया अप भी अपने न्यूज़ पेपर की वेब साईट बनाना चाहते है या फिर न्यूज़ पोर्टल बनाना चहाते है तो कॉल करें 9860450452 / 9028982166 /9595154683

اسلام، سیکولرازم اور رواداری

تحریر: محمد صادق کھوکھر لیسٹر

یہ ایک بنیادی اصول ہے کہ مختلف نظریات کو سمجھنے کے لیے ان نظریات کو پیش کرنے والوں کی آرا کو بنیادی اہمیت حاصل ہوتی ہے۔ مثلا اگرکمیونزم کو سمجھنا ہو تو اس کے لیے ہمیں کارل مارکس کے افکار و نظریات سے مدد لینا ہو گی۔ اسی طرح سیکولرازم کی تفہیم و تشریح کے لیے جارج ہولی ہوک کی پیش کردہ تعریف کو مدِ نظر رکھنا پڑے گا۔ بعینہ یہی معاملہ مذہب کا ہے۔ جس کے لیے زیرِ بحث مذہب کی مذہبی کتب کام آئیں گیں۔ لیکن طرفہ تماشہ یہ ہے کہ آج کل ہمارے دانشورنظریہ ساز کی تعریف کو نظر انداز کرکے اپنی من مانی تعریف پیش کر کے اس نظریہ کی اصلیت کے بالکل برعکس ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اپنے مقصد کے حصول کی خاطر یہ مذہب کو بھی خاطر میں نہیں لاتے بلکہ مذہبی کتب کی تعلیمات کے برعکس اپنی من پسند تاویلات کرنے لگتے ہیں۔ اسی گروہ کے اکثر دانشور مذہب کو انسان کا پرائیویٹ معاملہ قرار دیتے ہیں۔ ان کی یہ سوچ بالکل خلافِ واقعہ ہے۔ یہ مذہبی نظریہ نہیں ہے۔ یہ درحقیقت سیکولرازم کے بانی جارج ہولی ہوک کا پیش کردہ نظریہ ہے جس کی بنیاد پرسیکولر جنم پذیر ہوا۔ دوسرے مذاہب کے متعلق تو میں کوئی رائے دینے کا مجاز نہیں۔ لیکن بحیثیت مسلمان اسلام کے متعلق کہہ سکتا ہوں کہ اسلام انسان کی ذاتی زندگی تک محدود نہیں ہے۔ اسلام ہمیں عبادات کے علاوہ روزمرہ معاملات، معاشرتی ومعاشی زندگی، قانون و سیاست وغیرہ کے متعلق بھی ہدایات سے نوازتا ہے اور مطالبہ کرتا ہے کہ ہماری زندگی کے تمام معاملات اسلامی اصولوں کے مطابق استوار ہونے چا ہئیں۔ ان تعلیمات اور احکامات کی موجودگی میں ہم بھلا کیسے کہہ سکتے ہیں کہ دین اسلام فرد کا ذاتی معاملہ ہے؟ سیکولوازم جب اسلام کو انسان کا نجی معاملہ قرار دیتا ہے تو وہ درحقیقت مسلمانوں کے دینی معاملات کو محدود کر کے اسلامی نظامِ زندگی میں اعلانیہ مداخلت کا مرتکب ہوتا ہے۔ اس لیے اسے رواداری کے مترادف قرار دینے کی بجائے عدمِ روادای کے مترادف قرار دیا جانا چاہیے۔ کچھ دوستوں کا خیال ہے کہ چونکہ سیکولرازم نجی زندگی میں مذہبی رسومات کی اجازت دیتا ہے۔ اس لیے اسے لادینی نظریہ نہ کہا جائے۔ کیا ان سے پوچھا جا سکتا ہے کہ سیکولرازم کو کس نے اختیار دیا ہے کہ مذہب کو اجتماعی زندگی سے نکال باہر کرے؟ اور اصرار کرے کہ مذہبی معاملات سیکولرازم کے بتائے ہوئے طریقہ کے مطابق ہی ادا ہوں۔ اس طرح کا جزوی اسلام تو مشرکینِ مکہ بھی قبول کرنے کے لیے تیار تھے۔ وہ حضرت ابوطالب کے پاس آ کر کہتے تھے کہ نبی اکرمؓ کچھ باتیں ہماری مان لیں اور کچھ ہم ان کی قبول کرنے کے لیے تیار ہیں لیکن پیارے نبیؓ نے ان کی پیش کش ٹھکرا دی تھی۔ آج سیکولرازم ہمیں جزوی اسلام کی دعوت دے رہا ہے۔ اس لیے اسے لادینیت کہتے ہیں۔ اگر یہ لا دینیت نہیں ہے تو دینِ اسلام کا دائرہ کار محدود نہ کرے۔ چونکہ سیکولرازم اسلامی نظامِ زندگی کی راہ میں سدِ راہ بنتا ہے۔ اور اسلامی نظامِ معیشت، نظامِ معاشرت اور نظامِ قانون و سیاست کا انکار کر کے اسے صرف چند مذہبی رسوم تک محدود کر دیتا ہے اس لیے اسے لا دینی کہنا پڑتا ہے ۔ سیکولر حضرات رواداری کا بڑا چرچا کرتے ہیں لیکن ان کے ہاں دل آزاری کا نام روا داری ہے۔ کوئی انبیا کرام کے کارٹون بنائے تو اس کی آزادی ہے۔ سلمان رشدی جیسے لوگ اسلام کے خلاف کتب لکھیں تو انہیں تحفظ حاصل ہو گا۔ کوئی قرآن نذرِ آتش کرے تو اسے کوئی سزا نہیں ہو گی۔ بلکہ حکومت خود مساجد کے میناروں حتی کہ حجاب وغیرہ پر بھی پابندی لگا دیتی ہے۔ فرانس جیسے سیکولر ملک میں برقینی سے بھی انہیں مذہبی بو آتی ہے۔ تو مجھے بتائیں کہ ہم کس طرح اس عدمِ رواداری کو رواداری قرار دیں یہ تو سرا سر ہٹ دھرمی ہے۔ سچی رواداری تو دینِ اسلام میں ہے۔ اسلام ہمیں تمام انبیا کرام کے احترام کا حکم دیتا ہے۔ بلکہ نبی اکرمؓ سے قبل جتنے بھی انبیا اور رسول تشریف لائے اسلام ان سب کو برابر کا درجہ دیتا ہے۔ مسلمانوں کے لیے ان سب کا احترام کرنا لازم ہے۔ کوئی مسلمانوں ان کی بے حرمتی کا تصور بھی نہیں سکتا۔ اسلامی ریاست میں ایسا کرنے والا نہ صرف سزا کا مستحق ہوتا ہے بلکہ آخرت میں بھی اپنے جرم کی سزا بھگتے گا۔ انہی وجوہات کی بنیاد پراسلام کے پیرو کار کہتے ہیں کہ اسلام سب سے زیادہ رواداری والا دین ہے۔ جتنی رواداری سیکولرازم دوسرے مذاہب کو دیتا ہے اس سے کئی گنازیادہ دینِ اسلام دیگر مذاہب کے ساتھ اختیار کرتا ہے۔ اس کے باوجود اگر کچھ حضرات اسلام سے الرجک ہیں تو انہیں اپنے رویہ کا جائزہ لینا چاہیے۔ اس دین پر کسی کی اجارہ داری نہیں بلکہ اسے دنیا کا کوئی بھی فرد قبول کر سکتا ہے۔ لیکن اسلام کسی کو من مانی تاویلات کی اجازت نہیں دیتا بلکہ اس کا مطالبہ یہ ہے کہ اس کے حصے بخرے کیے بغیر اسے قرآن و سنت کی تعلیمات کے مطابق قبول کیا جائے۔ اللہ تعالی ہمیں اس راہ پر چلنے کی توفیق عطا کرے۔ آمین۔

Shaikh Akram

Shaikh Akram S/O Shaikh Saleem Chief Editor aitebar news, Nanded (Maharashtra) Mob: 9028167307 Email: akram.ned@gmail.com

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے