किया अप भी अपने न्यूज़ पेपर की वेब साईट बनाना चाहते है या फिर न्यूज़ पोर्टल बनाना चहाते है तो कॉल करें 9860450452 / 9028982166 /9595154683

اسرائیل کی غزہ جنگ میں بین الاقوامی کمپنیوں کا شرمناک کردار

تحریر: فرانسسکا البانیز

بھوک اور قحط زدہ فلسطینیوں کی نسل کشی میں اسرائیل کی شراکت دار اور مددگار بن جانے کے بعد یہ بین الاقوامی کمپنیاں بھی کروڑوں اربوں ڈالر کا نفع کما کر جنگی طوالت کی حامی بن گئیں۔اسرائیل نے بھی فلسطینی سرزمین پر اپنے قبضے اور فلسطینیوں کے خون اور ہڈیوں کو اپنے لیے ریونیو جنریشن کا بزنس بنا لیا۔ یہ انکشافات اقوام متحدہ کی خصوصی ماہر اور اٹلی سے تعلق رکھنے والی انسانی حقوق کی سرگرم حامی خاتون فرانسسکا البانیز نے اقوام متحدہ کے دفتری ریکارڈ کی ضرورتوں کے علاوہ دنیا میں اب بھی انسانوں کی طرح سوچنے والے کچھ ملکوں اور بعض انسانوں کی توجہ اس جانب مبذول کرانے کے لیے رپورٹ مرتب کی ہے۔واضح رہے ان بین الاقوامی کمپنیوں میں سے کسی ایک پر بھی سب سے بڑے عالمی ادارے، سب سے بڑے فورم یا کسی بڑی طاقت کے علاوہ انسانی حقوق کے چیمپیئن ملک نے پابندی لگانے اور دہشت گردوں کی فہرست میں شامل کرنا تو درکنار اس بارے میں سوچا بھی نہیں ہے۔دلچسپ بات ہے کہ یہ کمپنیاں اس فہرست میں بھی شامل نہیں جن کا غزہ میں بچوں اور عورتوں کے قتل عام پر برا منانے کے علامتی سے اظہار کے لیے بائیکاٹ کیا گیا یا اس سلسلے میں عوامی سطحوں پر کوشش کی گئی۔اس رپورٹ میں ایسی ساٹھ بڑی کمپنیوں کو شامل کیا گیا ہے جو بظاہر ماورائے قانون اور اخلاقیات نظر آتی ہیں۔ بالکل قانون سازوں کی طرح قانون سے مضبوط تر۔ان میں عالمی طاقتوں اور جی سیون کے امیر کبیر ملکوں وغیرہ سے تعلق رکھنے والی کمپنیاں بھی شامل ہیں اور بڑی معروف اور نامور یونیورسٹیاں و تعلیم گاہیں بھی۔ پیتی ہیں لہو دیتے ہیں تعلیم مساوات۔ رپورٹ کے مطابق سائنس اور ٹیکنالوجی کے میدان میں کشتوں کے پشتے لگانے کے لیے کام کرنے والی کمپنیاں بھی ہیں اور ادارے بھی۔ مالیاتی شعبے کی بین الاقوامی اور تکڑی کمپنیاں اور ادارے بھی اس غزہ میں جاری واردات کا حصہ ہی نہیں حصہ دار بھی ہیں۔ بظاہر خیراتی اور بھلائی کے کام کرنے والے نیک نام ادارے بھی ان میں شامل ہیں اور خالص مذہبی تعارف و شناخت کے حامل ادارے اور گروہ بھی پورے شعور کے ساتھ فلسطینیوں کی اس نسل کشی میں اپنے حصے کا کام انجام دے رہی ہیں۔اقوام متحدہ کی ماہر نے اس رپورٹ میں جن کمپنیوں کا نام لے کر ذکر کیا ہے ان کی تعداد 48 ہے۔ رپورٹ کے مطابق ان میں بین الاقوامی شہرت کے حامل ادارے بھی شامل ہیں جو ذیل میں ذکر کیے جا رہے ہیں۔
پلینیٹر ٹیکنالوجیز
لاک ہیڈ مارٹن
الفابیٹ (گوگل)
ایمازون
آئی بی ایم
کیٹر پلر
مائیکرو سافٹ اور ایم آئی ٹی بطور خاص شامل ہیں۔
علاوہ ازیں کئی نامور بنک بھی اس غزہ کی جنگ میں اسرائیل کی مدد کے لیے اپنے اپنے انداز سے موجود ہیں۔ ان میں بلیک راک انشورنس اینڈ ریئل اسٹیٹ کمپنی بھی ہے اور چیرٹی کے حوالے سے جانی جانے والی بھی شامل ہیں۔رپورٹ میں ان سب کو بین الاقوامی قانون کی خلاف ورزی کی مرتکب قرار دیا گیا ہے۔ بین الاقوامی قانون کی خلاف ورزی کی مرتکب ہو کر اور فلسطینیوں کی نسل کشی میں حصہ دار بن کر یہ ادارے اور کمپنیاں اربوں ڈالر کما رہی ہیں۔اقوام متحدہ کی اس رپورٹ میں ایک ہزار سے زائد ایسی کاروباری اور کارپوریٹ فرموں کو بھی اسرائیلی فوج اور اسرائیل کی غزہ کے لیے معاون و مددگار بتایا گیا ہے۔ اگرچہ جنگی جرائم میں مدد دینے اور ملوث ہونے پر انہیں بھی عدالت کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔مگر یہ کمپنیاں رپورٹ کے مطابق غزہ میں اسرائیلی جنگ کی صورت حال کو اپنے لیے انتہائی کار آمد اور سودمند سمجھ رہی ہیں کہ اسرائیل کا فلسطین پر طویل قبضہ انہیں ڈالر کمانے کے لیے سازگاری اور مواقع فراہمی کا ذریعہ بنا ہوا ہے۔ یہ رسد اور طلب کا ایک ایسا ماحول ہے کہ طلب بھی بڑھ رہی ہے اور رسد کے اضافے میں بھی آسانیاں ہی آسانیاں ہیں۔ نہ کوئی کڑی نگرانی، نہ کوئی اداراتی چیک، نہ کوئی پابندی نہ قدغن، کوئی قانون، نہ ضابطہ، اخلاقیات اور انسانی اقدار بھی قریب سے نہیں گزرتیں۔ بس سپلائی ہے اور کمائی ہے۔ایک اور اضافی فائدہ اس رپورٹ نے ان کمپنیوں کے لیے یہ بتایا ہے کہ غزہ کی جنگ ان کے بہت سارے ہتھیاروں کی ہلاکت خیزی اور نتائج کو جانچنے کا اندھا موقع بن چکی ہے۔ کوئی ہتھیار کتنا بھی مہلک ہو اس کے غزہ میں استعمال پر کوئی چیز آڑے نہیں۔ نہ سرکاری نہ غیر سرکاری ادارہ رکاوٹ بنتا ہے۔ گویا ہر طرح سے کاروبار کے لیے مثالی موقع میسر ہے۔رپورٹ میں غزہ میں جاری اسرائیلی جنگ کے حوالے سے کہا گیا ہے کہ ہولوکاسٹ کے بعد کے کیے گئے صنعت کاروں کے ٹرائلز اور جنوبی افریقہ میں بنائے گئے سچائی اور مصالحت کے لیے بنائے گئے کمیشن کے قانونی فریم ورک پر بھی روشنی ڈالی گئی ہے تاکہ آج کل بین الاقوامی جرائم میں ملوث کمپنیوں اور اداروں کی ذمہ داری کا تعین کیا جا سکے۔ نیز ان جرائم میں ملوث ہو جانے والی کمپنیوں کے ذمہ داروں کا بھی ٹرائل ہو سکے۔ فرانسسکا البانیز کا اپنی مرتب کردہ رپورٹ میں کہنا ہے غزہ میں نسل کشی نہیں رکی ہے کیونکہ یہ بہت سارے اداروں، کمپنیوں اور شخصیات کے لیے منافع کمانے کا بہت اہم موقع بن گیا ہے۔بہت سے مل، ادارے، کمپنیاں، یونیورسٹیاں اور لوگ غزہ کی جنگ کو انسانی حقوق کا کوئی مسئلہ سمجھنے کے بجائے محض ایک کاروباری وینچر کی جگہ سمجھے ہوئے ہیں۔حد یہ ہے کہ فلسطینیوں کے دوست سمجھے جانے والی ریاستیں اور کمپنیاں بھی کئی دہائیوں سے فلسطین پر قابض معیشت سے منافع کما کے فائدہ اٹھا رہی ہیں۔اسرائیل طویل عرصے سے فلسطین کی سرزمین، وسائل اور زندگیوں کا استحصال کر رہا ہے۔ لیکن اس کے ساتھ ہی ساتھ دنیا کی بڑی بڑی کمپنیوں کے ساتھ مل کر اپنی دولت میں بھی اضافہ کر رہا ہے۔ قبضے نے فلسطینیوں کی نسل کشی کو بھی اپنی معیشت بنا لیا ہے اور دنیا کی بڑی کمپنیوں کو بھی اس میں حصہ دار بنا کر ان کے لیے ترغیبات پیدا کر دی ہیں۔البانیز نے اپنی رپورٹ میں مزید کہا کہ اسرائیل نے غزہ میں جنگ شروع کر کے فلسطینیوں اور ان کی زمین کو اسلحے اور اسلحے کی ٹیکنالوجی کے حوالے سے ایک بہت بڑی اور کھلی لیبارٹری کی شکل دے دی ہے۔ جہاں ہتھیار بھی آزمائے جا رہے ہیں اور نگرانی کے آلات بھی، بارود کی مقدار بھی اور بارود کا معیار بھی سب آزمایا جا رہا ہے اور یہ بعد میں گلوبل ساتھ سے لے کر گلوبل نارتھ تک چلتا رہے گا۔رپورٹ ان کمپنیوں کو ظاہر کرتی ہے جو اسرائیل کو ہتھیار اور ایسی مشینری فراہم کرتی ہے جس سے فلسطینیوں کے گھروں کو مسمار کیا جائے، سکول گرائے جائیں اور ہسپتال تباہ کرنے کے علاوہ مساجد کی اینٹ سے اینٹ بجا دی جائے اور زندگی کو تہس نہس کر دیا جائے۔البانیز رپورٹ میں فلسطینی سرزمین کو ایک یرغمالی منڈی قرار دیا گیا ہے، اس میں ایک طرف اسرائیل نے مسلسل ناکہ بندی کر کے کھانے کی چیزوں تک کی ترسیل روک رکھی ہے اور دوسری جانب اپنی مرضی کے ہتھیاروں، بارود اور ٹیکنالوجی کے حوالے سے ایک ایسی منڈی بنا دیا ہے جس کا کنٹرول اسرائیلی فوج کے پاس ہے اور اسرائیل کی اتحادی کمپنیاں اس سے منافع کما رہی ہیں۔بین الاقوامی کمپنیاں جن کا اس رپورٹ میں ذکر کیا گیا ہے اس یرغمال بنائی گئی مارکیٹ سے خوب فائدہ اٹھا رہی ہیں۔ حتی کہ بے گھر اور بھوکے پیاسے فلسطینیوں کا مزدوری کے نام پر بھی استحصال کیا جا رہا ہے۔ جبکہ غزہ کے قدرتی وسائل کا رخ موڑا جا رہا ہے۔اس طرح فلسطینی علاقے اسرائیلی قبضے کے ساتھ ساتھ بین الاقوامی کمپنیوں کے بھی ایک طرح سے قبضے میں آئی ہوئی مارکیٹ ہیں۔رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اسرائیل اس سارے استحصال کا فائدہ اٹھا رہا ہے جبکہ اسرائیل کے ان استحصالی ہتھکنڈوں کو ممکن بنانے کے لیے فلسطین کی کل مجموعی پیداوار یعنی جی ڈی پی کا 35 فیصد خرچ آ رہا ہے۔رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ مختلف بنکوں، املاک کے منتظمین، پنشن فنڈ کو ڈیل کرنے والے اور انشورنس کمپنیاں زیر قبضہ سرزمین اور یرغمال بنائی گئی معیشت کو اپنے لیے مفید بنا رہی ہیں۔ جبکہ یونیورسٹیاں فلسطینی سرزمین کو نو آبادیات کے نقطہ نظر سے دیکھتے ہوئے نو آبادیاتی سیاسی نظریے کی حمایت میں کھڑی ہیں۔ اس لیے ان کی سیاسی اور تکنیکی مہارتیں ساری کی ساری فلسطینیوں کے خلاف اور اسرائیل کے حق میں استعمال ہو رہی ہیں۔ گویا اسرائیل جس منظم تشدد کو جاری رکھے ہوئے ہے یہ سب اس کی حمایت کیے ہوئے ہیں۔بعض کمپنیاں فلسطینیوں کی نگرانی اور قید کے لیے ٹیکنالوجیز استعمال کر رہی ہیں۔ اسی طرح بھاری بھرکم بلڈوزرز جو اس سے پہلے صرف مغربی کنارے میں فلسطینیوں کے گھروں کو مسمار کرتے تھے، اب باضابطہ طور پر اسرائیلی فوج کی جنگی حکمت عملی کے تحت غزہ میں بھی ایک ہتھیار کے طور پر بروئے کار ہیں۔بمباری کے علاوہ غزہ شہر کو ملبے کا ڈھیر بنانے میں اسرائیلی فوج کے ان بلڈوزروں کا بھی گہرا دخل ہے۔ یہ اس لیے بھی استعمال کیے جا رہے ہیں کہ ان کے ذریعے اتنی تباہی کر دی جائے کہ فلسطینی اس تباہ کن صورتحال کے بعد اپنے گھروں اور شہروں میں واپس آنے کا کبھی سوچ بھی نہ سکیں۔رپورٹ میں واضح طور پر لکھا ہے کہ فلسطینیوں اور ان کی سرزمین کو فوجوں کے آگے بڑھنے، بارود اور ہتھیار استعمال کرنے کے ساتھ ساتھ فضائی صلاحیت کو آزمانے کے لیے ایک بہترین تجربہ گاہ کے لیے کام میں لایا جا رہا ہے۔ان کی نگرانی کے لیے کیمرے اور ڈرون سب کچھ آزمایا جا رہا ہے۔ حتی کہ امریکہ کے بنائے ہوئے ایف 13 طیارے بھی اب ان سارے ہتھیاروں اور اسلحے کو جنگ میں آزمائے ہوئے ٹیگ کے ساتھ فروخت کے لیے پیش کیا جا سکے گا۔2022 سے لے کر اب تک اسرائیل دنیا میں آٹھواں اسلحہ کا بڑا خریدار اور فروخت کنندہ ملک بن چکا ہے۔ اسرائیلی کمپنیاں البٹ سسٹم اور اسرائیل ایرو سپیس کمپنی بین الاقوامی سطح پر اپنے کئی شراکت دار رکھتی ہیں۔ انہیں ایف 35 پروگرام کے حوالے سے امریکی کمپنی لاک ہیڈ مارٹن بھی شامل ہے۔بہت سے بین الاقوامی اسلحہ ساز اور طیارہ ساز اسرائیل کے ان منصوبوں میں اپنا حصہ ڈال رہے ہیں۔ ایف 35 طیاروں کے لیے مختلف جگہوں سے پرزہ جات اور آلات فراہم کیے جا رہے ہیں۔اکتوبر 2023 سے لے کر اب تک امریکہ کے ایف 35 اور ایف 16 جنگی طیارے ایک اندازے کے مطابق 85000 ٹن وزن کے مساوی بموں کا استعمال کر چکے ہیں۔ان میں بہت سے بموں کی اکثریت ان گائیڈڈ تھی۔ جس کی تباہی یقینا اندھا دھند ہوتی ہے۔ انہیں بموں کی وجہ سے 179411 سے زیادہ فلسطینی زخمی ہو چکے ہیں اور غزہ پوری طرح تباہ ہے۔میزائل چلانے والے اور نگرانی والے ڈرونز بھی ہر روز غزہ کی فضاں میں اڑتے ہیں۔ یہ آسمان سے برسنے والی موت کے آلے ہیں جنہیں اسرائیل فلسطینیوں کے خلاف استعمال کر رہا ہے۔ان ڈرونز کو اسرائیلی کمپنیوں البرٹ اور آئی اے آئی نے امریکی یونیورسٹی ایم آئی ٹی کی مدد سے استعمال کیا ہے۔اسی طرح جاپانی کمپنی فینک ان مختلف کمپنیوں کو روبوٹ فراہم کرتی ہے جو اسرائیل کو جنگ میں مدد دے رہی ہیں۔ ان میں البرٹ، آئی اے آئی اور امریکی مارٹن بھی شامل ہے۔
بین الاقوامی سطح پر جہاز رانی کے شعبے میں نام کمانے والی کمپنیاں ڈنمارک، اے پی مولر مارسک بھی اسرائیلی جنگ میں اس کی مددگار کے طور پر اسلحے کی ترسیل میں کام آ رہی ہیں۔ اسلحے کے علاوہ یہ جہاز ران کمپنیاں بارودی خام مال کے علاوہ مختلف جنگی جہازوں اور دیگر مشینوں کے آلات بھی لانے کا اکتوبر 2023 سے ذریعہ ہیں۔رپورٹ سے ظاہر ہو رہا ہے کہ اسرائیل نے 2023 اور 2024 کے دوران 65 سے زیادہ کے اخراجات کیے ہیں اور اس کے اب تک کے اخراجات46.5 ارب ڈالر تک چلے گئے ہیں۔ یہ دنیا میں جنگی اخراجات کے حوالے سے فی کس کے حساب سے بلند ترین رقم ہے۔اسرائیلی اخراجات کی اس بڑھوتی کی وجہ سے اسلحہ بنانے والی بین الاقوامی کمپنیاں ایک بہت بڑا منافع کما رہی ہیں۔ اسی طرح ٹیکنالوجی سے متعلق کمپنیاں، ان کا منافع بھی غیر معمولی حد تک بڑھ گیا ہے کہ وہ ڈیٹا بھی فراہم کر رہی ہیں اور نگرانی کے لیے بھی خدمات پیش کر رہی ہیں۔ تاکہ قبضے کو جاری رکھنے کے لیے اسرائیل ان دونوں سہولتوں سے فائدہ اٹھا سکے۔ ان سہولتوں میں کیمرے، بائیو میٹرک نگرانی، سمارٹ چیک پوائنٹس، ڈرونز اور دیگر آلات شامل ہیں۔ جنہیں مصنوعی ذہانت کے ذریعے فراہم کردہ ڈیٹا سے بروئے کار رکھا گیا ہے اور اسرائیلی فوج کو ایک تجزیاتی مدد دی گئی ہے۔رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ عام طور پر اسرائیلی ٹیکنالوجی کمپنیاں فوجی انفراسٹرکچر کے حوالے سے مشہور ہیں۔ جیسا کہ این ایس او گروپ اسرائیل کے یونٹ 8200 کے سابق ارکان نے قائم کیا ہے۔اسی طرح اسرائیل کی جاسوسی آلات بنانے والی کمپنی پیگاسس فلسطینی انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والوں کی جاسوسی کے لیے خدمات سر انجام دیتی ہیں۔ نیز فلسطینی رہنماں، صحافیوں اور انسانی حقوق کے کارکنوں اور فلسطین کاز کے لیے کام کرنے والے دیگر افراد کو نشانہ بنا رہی ہیں۔آئی بی ایم نے جس طرح ماضی میں نازیوں کے ساتھ تعاون کیا تھا اور انہیں جرمنی میں اپنی کارروائیوں کو مستحکم کرنے میں مدد دی تھی اب وہی آئی بی ایم اسرائیل اور اس کے عسکری و انٹیلی جنس اداروں کو اسی طرح مدد دے رہی ہے۔ اسرائیلی فوج کا یونٹ 8200 بطور خاص اس آئی بی ایم سے مدد لیتا ہے۔آئی بی ایم کی مدد سے ہی اسرائیل امیگرنٹس کے ڈیٹا بیس کو مرتب کرنے میں کامیاب ہوا ہے۔ اسی آئی ابی ایم کی فراہم کردہ سہولتوں کے باعث فلسطینیوں کی نگرانی و مانیٹرنگ ممکن بنائی گئی۔مائیکرو سافٹ کمپنی اسرائیل کے لیے 1989 سے کام کر رہی ہے۔ اس کی مدد بطور خاص اسرائیلی جیلوں، پولیس، یونیورسٹیوں اور یہودی بستیوں کے لیے 2003 سے بروئے کار ہے۔ یہ ادارہ سول و ملٹری ٹیکنالوجی کے ساتھ ساتھ اسرائیل کے سائبر سکیورٹی سے متعلق سٹارٹ اپس کو 2021 سے دیکھ رہا ہے۔اسرائیل نے گوگل کے الفابیٹ اور ایمازون کو 1.2 ارب ڈالر کے ٹھیکے دیے ہیں کہ وہ اسرائیل کے نمبس پروجیکٹ کے لیے کلاڈ انفراسٹرکچر ڈویلیپ کر سکے۔ یہ اسرائیلی وزارت دفاع کا منصوبہ ہے۔ اسی طرح اسرائیل نے مصنوعی ذہانت کے سسٹم جن میں لیوینڈر، گوسپیل اور ویئر از مائے فادر طرح کے پروگرام شامل ہیں انہیں ڈیٹا بیس کی بنیاد پر تیار کروایا ہے تاکہ اپنے اہداف کو آسانی سے تلاش کر سکے اور ایک جدید جنگی طریقہ اختیار کر سکے۔اس لیے ان سارے حقائق کی بنیاد پر یہ یقین کرنے کا جواز موجود ہے کہ پلانٹیر نے اسرائیل کو خودکار پولیس سسٹم بنانے میں اور ٹیکنالوجی کے حوالے سے دفاعی انفراسٹکچر دینے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔اسی کی مدد سے فوجی ضرورتوں کے لیے سافٹ ویئر کی تیاری کا کام تیز ہوا اور اسی کی مدد سے مصنوعی ذہانت کے پلیٹ فارم کو میدان جنگ میں تیزی سے فیصلوں کے لیے بروئے کار لایا گیا۔اپریل 2025 میں اس کمپنی کے سربراہ نے جواب دیتے ہوئے کہا کہ ان کی کمپنی غزہ میں زیادہ تر دہشت گردوں کو مارنے کا کام کر رہی ہے۔ رپورٹ کے مطابق اس ٹیکنالوجی کا استعمال نو آبادیتی مقاصد کے لیے کیا گیا ہے۔ اسرائیلی فوج نے فلسطینیوں کے گھروں اور کھیتوں کو تباہ کرنے کے لیے بین الاقوامی کمپنیوں کے فراہم کردہ آلات کا استعمال کیا ہے۔اکتوبر 2023 میں ہی اسرائیلی فوج نے غزہ کی 70 فیصد عمارتوں اور 81 فیصد زرعی اراضی کو تباہ کر دیا تھا۔ کیٹرپلر اسرائیلی فوج کو بلڈوزر فراہم کرتی ہے۔ ان بلڈوزروں کی مدد سے اسرائیلی فوج نے فلسطینیوں کے گھروں، مساجد اور ہسپتالوں کو ملبے کا ڈھیر بنایا ہے۔اسرائیل نے ڈی 9 بلڈوزر سال 2000 کے بعد مسلسل استعمال کیے ہیں۔ یہ بلڈوزر کورین کمپنی ہنڈائی، دوسن اور سویڈش کمپنی وولو گروپ کے ہیں۔ جن کی مدد سے اسرائیلی فوج فلسطینیوں کی املاک کو تباہ کرتی ہے۔نیز ان کورین اور سویڈش کمپنیوں نے فلسطینی انفراسٹرکچر، توانائی اور زرعی پیداوار کو تباہ کیا ہے۔ نیز فلسطینی علاقوں میں 371 ناجائز یہودی بستیوں اور چوکیوں کی تعمیر کا کام بھی ان کمپنیوں کی مدد و تعاون سے کیا گیا۔ تاکہ فلسطینیوں کو بے گھر کیا جا سکے۔اسرائیل کے ان منصوبوں میں جرمن کمپنی ہائیڈلبرگ میتٹیرلز کی ذیلی کمپنی ہینسن اسرائیل بھی شامل ہے۔ مغربی کنارے میں ناجائز یہودی بستیوں کی تعمیر کے لیے مغربی کنارے کی کانوں کو لوٹا گیا۔ یہ لوٹ مار لاکھوں ٹن ڈولو مائٹ کی گئی۔ علاوہ ازیں ان کمپنیوں نے یہودی بستیوں کو اسرائیل سے ملانے کے لیے سڑکوں کی تعمیر میں بھی حصہ لیا ہے۔عالمی ریئل سٹیٹ کمپنیوں نے فلسطینیوں کی املاک اور جائیدادیں اسرائیلیوں کو فروخت کی ہیں۔ ان کمپنیوں میں کیلر ولیمز ریئلٹی شامل ہے جس نے کینیڈا اور امریکہ میں ریئل سٹیٹ شوز کا انعقاد بھی کیا۔بکنگ ڈاٹ کام اور ایئر بی این بی ناجائز یہودی بستیوں میں جائیداد کی خریدو فروخت کرتی ہیں۔ چینی کمپنی برائٹ ڈیری اسرائیلی کمپنی تنئوا کے کئی حصص رکھتی ہے۔ یہ جائیداد مغربی کنارے کے فلسطینیوں سے چھینی گئی ہے۔چیورون قدرتی گیس لیویاتھا اور تمار کے گیس فیلڈز سے نکالتا ہے۔ اس سلسلے میں کنسورشیم نے 453 ملین ڈالر ٹیکسوں کی صورت میں اسرائیلی حکومت کو ادا کیے ہیں۔ کیونکہ یہ اسرائیل کی گیس کی ضروریات سے 70 فیصد زیادہ ہے۔چیورون اور بی پی اسرائیل کو سب سے زیادہ مقدار میں خام تیل فراہم کرتے ہیں۔ اس کے ساتھ ہی آذربائیجان کی پائپ لائن اور قازق پائپ لائن بھی ہے۔یہ سارے وسائل اسرائیل کے قبضے کو برقرار اور مضبوط کرنے کے لیے ضروری ہیں۔ غزہ میں جنگ کو جاری رکھنے میں ان وسائل کا اہم کردار ہے۔عالمی بنکوں نے اس سے پہلے ہی اسرائیلی بانڈز خرید کر غزہ میں فلسطینیوں کی نسل کشی میں اسرائیل کی مدد کی ہے اور یہ سلسلہ جاری ہے۔ بلاشبہ 2022 سے 2024 کے درمیان اسرائیلی فوجی اخراجات میں غیر معمولی اضافہ ہوا ہے۔اسرائیلی فوجی بجٹ جو اس سے پہلے اسرائیلی جی ڈی پی کا 4.2 فیصد تھا اب 8.3 فیصد ہو چکا ہے۔ جبکہ جنگ ابھی جاری ہے۔ نتیجتا اسرائیلی بجٹ خسارہ 6.8 فیصد ہو گیا ہے۔ اسرائیل نے اپنے بڑھتے ہوئے خسارے اور اخراجات کے باعث 2024 اور 2025 کے دوران مجموعی طور پر 13 ارب ڈالر کے بانڈز جاری کیے ہیں۔ اس سلسلے میں اسرائیل کے سب سے بڑے مدد گاروں اور تعاون کاروں میں بی این پی پاریباس، بارکلیز اور اثاثوں کے لیے بندوبستی ادارے بلیک راک 68 ملین ڈالر کے ساتھ، وہن گارڈ 546 ملین ڈالر اور ایلی ناز پمکو 960 ملین ڈالر کے ساتھ نمایاں ہیں۔اسرائیل کی اس جنگی سلسلے میں مذہبی خیراتی ادارے بھی جنگی گاڑی کو چلانے کے لیے پہیوں کا کام کر رہے ہیں۔ ان مذہبی خیراتی اداروں کا یہ امدادی سلسلہ اس کے باوجود جاری ہے کہ اس نوعیت کی فنانسگ ممنوع ہے۔اسرائیلی جنگ میں مدد دینے والی کمپنیوں کے ساتھ ان مذہبی اداروں میں جیوش نیشنل فنڈ اور اس کی بیس ذیلی تنظیمیں اسرائیلی فوج سے جڑی ضرورتوں کے لیے اکتوبر 2023 سے فنڈنگ کر رہی ہیں۔ یہ فنڈز اسرائیلی فوجیوں اور ان سے جڑی یہودی بستیوں میں تقسیم ہوتے ہیں۔امریکہ سے تعلق رکھنے والے اسرائیل کے مسیحی دوستوں کی تنظیم اور ہالینڈ کے مسیحیوں کی اسرائیل سے اظہار دوستی کے لیے بنی تنظیمیں 2023 میں 12.25 ملین ڈالر کی رقم کے ساتھ مدد کے ساتھ موجود رہیں۔ تاہم مذہبی تنظیموں کی جنگی سرپرستی اور نسل کشی میں تعاون پر کوئی اعتراض کرنے والا سامنے آیا نہ کسی نے مذہبی جماعتوں کی اس فنڈنگ کے تانے بانے مسلم دشمنی سے ملائے۔فرانسسکا البانیز کی مرتب کردہ اس رپورٹ میں بعض یونیورسٹیوں کی طرف سے اسرائیل کے جنگی اداروں اور فوج کے ساتھ شراکت کار اور تعاون پر تنقید کی گئی ہے۔ ان یونیورسٹیوں میں ایم آئی ٹی بطور خاص شامل ہے جو اسرائیل کی فوج کے لیے جاسوسی و نگرانی کے آلات اور جنگی ہتھیاروں کی تیاری کے مشترکہ منصوبے جاری رکھے ہوئے ہے۔یقینا اسرائیلی فوج اتنے بڑے پیمانے پر فلسطینیوں کی نسل کشی کی پوزیشن میں نہ ہو سکتی تھی۔ خصوصا اس بے دریغ انداز میں اربوں ڈالر کی ملنے والی امداد جنگی ہتھیار اور جنگی ٹیکنالوجی کے علاوہ ٹرانسپورٹیشن کے شعبے میں بھی اسرائیل کے ساتھ کندھے سے کندھا ملا کر کھڑے رہنا امریکی اور بہت سے اتحادی ممالک بشمول مغربی مملک اور ایشیائی ممالک نے اپنا فرض عین سمجھا۔ انہی کی طرح کاروباری کمپنیوں، بنکوں، مالی اداروں، خیراتی و مذہبی اداروں کے علاوہ جنگی ہتھیار ساز کمپنیوں اور ٹیکنالوجی بشمول مصنوعی ذہانت کے شعبے کے سب جدید ادارے اس جنگ کی منظر کشی کرنے والی رپورٹ میں اسرائیل کے ساتھ کھڑے ہیں۔

Shaikh Akram

Shaikh Akram S/O Shaikh Saleem Chief Editor aitebar news, Nanded (Maharashtra) Mob: 9028167307 Email: akram.ned@gmail.com

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے