किया अप भी अपने न्यूज़ पेपर की वेब साईट बनाना चाहते है या फिर न्यूज़ पोर्टल बनाना चहाते है तो कॉल करें 9860450452 / 9028982166 /9595154683

اب مسلم بچوں کو مذہبی تعلیم سے محروم کردینے کی سازش

بی جے پی حکمرانی والی ریاستوں میں مدارس کے خلاف کاروائی کی تازہ مہم کا مقصد اس کے سوا کچھ اور نہیں

تحریر: جاوید قمر

ملک بھر میں مسلمانوں پر ہر چہار جانب سے حملے ہورہے ہیں،ایک محاذ بند نہیں ہوتا کہ دوسرا کھول دیا جاتا ہے۔پچھلے کچھ برسوں کے دوران فرقہ پرستوں کو جس طرح کھلی چھوٹ دی گئی اس کے خطرناک نتائج اب سامنے آرہے ہیں۔تاریخ کے گڑے مردے کھود کر اگر ایک طرف مسلمانوں کو نت نئے مسائل میں الجھایا جارہا ہے تو دوسری طرف انہیں تعلیمی،معاشی اور سماجی طور پر کمزور کرکے قومی دھارے سے پوری طرح الگ کردینے کی گہر ی سازش بھی ہورہی ہے۔اگر خدانخواستہ اس طرح کی سازشیں کامیات ہوگئیں تو فرقہ پرست طاقتوں کا اپنا مشن کامیاب ہوجائے گا۔اگرچہ اس طرح کی ہر سازش کو ناکام بنانے کے لئے مسلمانوں اور خاص طور پر جمعی علماء ہند کی جانب سے مختلف سطحوں پر قانونی جدوجہد بھی ہورہی ہے۔اس جدوجہد میں کامیابی بھی مل رہی ہے لیکن ہوتا یہ ہے کہ مسلمانوں کی تمام تر توانائی اسی پر ضائع ہورہی ہے اور شاید فرقہ پرست طاقتیں چاہتی بھی یہی ہیں کہ مسلمانوں کو قانونی مسائل میں الجھائے رکھا جائے تاکہ وہ اپنی تعلیمی اور معاشی ترقی کے لئے زیادہ کچھ نہ کرسکیں۔بی جے پی حکمرانی والی ریاستوں میں مدارس کے خلاف کارروائی کی جو تازہ مہم شروع ہوئی ہے یہ سیاست ہے یا پھر کوئی بڑی سازش؟ سچائی یہ ہے کہ اس کے پیچھے سیاست بھی کارفرما ہے اور یہ مسلمانوں کے خلاف ایک بڑی سازش بھی ہے۔اگر ایک طرف ریاستی حکومتیں ایسا کرکے اکثریت کو خوش کرنا چاہتی ہیں تو دوسری طرف ایسا کرکے مسلم بچوں کو مذہبی تعلیم سے محروم کردینے کی ایک منصوبہ بند سازش بھی ہورہی ہے۔آسام میں کتنے مدراس بند کئے جا چکے ہیں اس کی تفصیل تو دستیاب نہیں ہے لیکن اتر پردیش اور اتراکھنڈ سے مختلف ذرائع سے جو تفصیلات آئی ہیں ان کے مطابق ان دونوں ریاستوں میں اب تک تقریبا 709 مدرسوں کو بند کیا جا چکا ہے۔قابل ذکر ہے کہ الہ آباد ہائی کورٹ کے حکم سے چند مدرسوں کا تالہ کھل گیا ہے، دریں اثناضلع شراوستی کے 27ایسے مدارس پر بھی جن کے مسماری کا حکم دیدیاگیاتھا الہ آبادہائی کورٹ کی لکھنوبینچ نے حکومت سے جواب طلب کیااوران کی مسماری پر روک لگادی ہے ، لیکن بقیہ مدارس پوری طرح بند ہیں۔اتر پردیش میں نیپال کی سرحد سے متصل اضلاع میں غیر قانونی کہہ کر جن مدارس کو بند کیا گیا ہے ان کی تفصیل کچھ یوں ہے۔بلرامپور میں 35 مدارس کے خلاف کاروائی ہوئی ہے ان میں سے کچھ کو نوٹس بھیجا گیا ہے اور باقی مدارس کو سیل کیا جاچکا ہے۔مہراج گنج میں 29 مدرسوں کو بند کیا گیا ہے جب کہ 9 مساجد،7مزارات اور 1 عیدگاہ کو بھی غیر قانونی قرار دیا جا چکا ہے۔سدھارتھ نگر میں 79 مدرسے پوری طرح بند کئے جا چکے ہیں جب کہ 4 مساجد اور 5 مزارات کو غیر قانونی قرار دیا جاچکا ہے۔ شراوستی میں سب سے زیادہ 280 مدارس کو سیل کیا گیا ہے جب کہ ایک 1مسجد اور 6مزارات کو مسمار کر دینے کی تیاری ہو چکی ہے۔بہرائچ میں 65 مدارس کے خلاف کارروائی ہوئی ہے جب کہ 6 مساجد 2عدد مزارات اور 1 عیدگاہ کو غیر قانونی قرار دیا جا چکا ہے۔لکھیم پور کھیری میں 47 مدرسوں کو سیل کردیا گیا ہے 1عدد مسجد اور1مزار کو غیر قانونی ہونے کا نوٹس تھمایا جا چکا ہے۔پیلی بھیت میں 2 مدرسوں کو سیل کیا گیا ہے۔اتراکھنڈمیں مجموعی طور پر 170 مدارس کے خلاف کاروائی ہوئی ہے اور 17 مزارات کو شہید کیا جا چکا ہے۔اتراکھنڈ میں جو کچھ ہو رہا ہے اس کے خلاف جمعی علماء ہند پہلے ہی سپریم کورٹ میں پٹیشن داخل کرچکی ہے اور وقف کی زمین پر واقع جن مزارات کو مسمار کیا گیا ہے اسے وقف ترمیمی قانون کے خلاف داخل پٹیشن کے ساتھ منسلک کیا جا چکا ہے۔اس سے پہلے اترپردیش میں جب بڑے پیمانے پر مدراس کا سروے شروع ہوا تھا تو اس وقت بھی جمعی علماء ہند نے اس کے خلاف سپریم کورٹ میں ایک پٹیشن داخل کی تھی۔مدارس کے خلاف کارروائی کا جواز پیداکرنے کے لئے قومی کمیشن برائے حقوق اطفال (NCPCR ) کی اس سفارش کو بنیاد بنایا گیا تھا جس میں مرکز اور ریاستوں سے کہا گیا تھا کہ مبینہ طور پر حق تعلیم ایکٹ سے مطابقت نہیں رکھنے والے تمام مدارس بند کردیئے جائیں۔اس سفارش کی آڑمیں اترپردیش میں مدارس کے ذمہ داران کو جو نوٹس بھیجا گیا اس میں واضح طور پر کہا گیا کہ مفت اور لازمی تعلیم برائے حقوق اطفال ایکٹ 2009 کے تحت اگر مدرسے غیر منظور شدہ ہیں تو انہیں بند کردیا جائے اور طلبا کو قریبی پریشد ودیالیہ میں منتقل کر دیا جائے۔اس نوٹس کے بعد مدرسوں کے خلاف کارروائی بھی شروع کردی گئی تھی۔جمعی علماء ہند کی طرف سے سپریم کورٹ میں داخل کی گئی پٹیشن پر قومی کمیشن برائے حقوق اطفال نے جو حلف نامہ داخل کیا اس میں یہ جھوٹ بولا گیاکہ مدرسوں میں بچوں کو مناسب تعلیم نہیں دی جارہی ہے اور یہ بچوں کے حقوق کے منافی ہے۔یہ بھی کہا گیا کہ مدرسوں میں بچوں کو نہ صرف مناسب تعلیم بلکہ صحت مند ماحول اور نشو ونما کے بہتر مواقع سے بھی محروم کیا جارہا ہے۔سپریم کورٹ نے ان تمام دلائل کو مسترد کرتے ہوئے اس وقت مدارس کے خلاف جاری تمام نوٹسوں اور کارروائی پر روک لگا دی تھی۔
ایسے میں ایک بڑا سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ مدراس کے خلاف یہ دوسری مہم کس بنیاد پر شروع کی گئی اور کیا یہ کارروائی عدالت کی توہین کے زمرے میں نہیں آتی؟ سچائی یہ ہے کہ یہ کارروائی آئین کی رہنما ہدایات کی بھی صریحا خلاف ورزی ہے۔آئین کی دفعہ 30 (1)میں تمام اقلیتی اداروں کو جہاں تحفظ فراہم کیا گیا ہے وہیں دفعہ 25 کے تحت ضمیر کی آزادی اوردفعہ 26 کے تحت اقلیتوں کو اپنے مذہبی ادارے قائم کرنے اور انہیں چلانے کا مکمل اختیار بھی دیا گیا ہے۔یہی نہیں 2014 میں سپریم کورٹ کی ایک پانچ رکنی بینچ نے یہ فیصلہ دیا تھا کہ حق تعلیم ایکٹ 2009 کا اطلاق ان تعلیمی اداروں پر نہیں ہوگا جو اقلیتوں کے ذریعہ چلائے جارہے ہیں۔یہاں تک کہ جس حق تعلیم ایکٹ کا بہانہ بناکر مدارس کو بند کرنے کی سازش ہورہی ہے اس کی دفعہ 1 کی شق 5میں واضح طور پر کہا گیا ہے کہ ایکٹ کی کوئی شق مدرسہ، پاٹھ شالہ اور اس طرح کے دیگر تعلیمی اداروں پر نہیں لاگو ہوگی۔اتر پردیش میں تو غیر منظور شدہ مدارس کے ساتھ ساتھ منظور شدہ مدراس کو بھی بند کرنے کی سازش ہوئی تھی۔درحقیقت الہ آباد ہائی کورٹ کی لکھنؤ بینچ نے مدرسہ بورڈ کی قانونی حیثیت کو ہی ختم کردیا تھا اور کہا تھا کہ یہ قانون سیکولرزم کے اصولوں کی خلاف ورزی ہے۔اس فیصلے کے بعد ریاست کے تمام منظور شدہ مدارس کے وجود پر سوالیہ نشان لگ گیا تھا۔آل انڈیا ٹیچر ایسوسی ایشن مدارس عربیہ نے اس فیصلے کو سپریم کورٹ میں چیلنج کیا ، جس پر 6 نومبر 2024 کو سپریم کورٹ نے ایک تاریخی فیصلہ صاد ر کیا۔عدالت نے کہا کہ یہ قانون آئینی ہے اور الہ آباد ہائی کورٹ کا فیصلہ درست نہیں ہے۔واضح ہو کہ اتر پردیش میں مدارس کی مجموعی تعداد تقریبا 25500 ہے ،ان میں 16513 رجسٹرڈ ہیں اور 560 مدرسے سرکاری امداد حاصل کرتے ہیں۔ سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں یہ بھی کہا تھا کہ مدرسہ تعلیم کی اہمیت کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا اور یہ کہنا درست نہیں ہوگا کہ ریاست کو مذہبی اداروں میں تعلیم کی صورتحال کو بہتر بنانے کا حق نہیں ہونا چاہیے۔ایسا لگتا ہے کہ فیصلہ کی ان آخری لائنوں سے ہی مدارس میں مداخلت کرنے کا جواز نکالا گیا ہے اور تعلیمی صورتحال کو بہتر بنانے کی جگہ حکومتیں مدارس کو بند کررہی ہیں تاکہ نہ رہے گا بانس نہ بجے گی بانسری۔
کارروائی کی جو نوعیت ہے اور جس طرح ثبوت و شواہد کو نظر انداز کرکے مدارس اور مذہبی عبادت گاہوں کے خلاف کاروائی ہورہی ہے اس سے مسلمانوں میں نہ صرف ڈر اور خوف پا یا جارہا ہے بلکہ اس کو لے کر ان میں زبردست تشویش بھی ہے۔اس تشویش کا تدارک کرنے کے لئے جمعی علماء ہند علماء اتر پردیش نے گزشتہ 2 جون کو اعظم گڑھ کے سرائے میر میں ایک کامیاب ‘تحفظ مدارس کانفرنس’ کا انعقاد کیا،جس میں تمام مسالک کے مدارس کے ذمہ داران شریک ہوئے۔ اس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے جمعی علماءہند کے صدر مولانا سید ارشد مدنی نے مدراس کو شک کی نگاہ سے دیکھنے والوں کو خوب آڑے ہاتھوں لیا اور کہا کہ یہ وہی مدرسے ہیں جہاں سے ملک کو غلامی سے آزاد کرانے کی پہلی آواز اٹھی تھی۔انہوں نے 1857 کی بغاوت کا بھی ذکر کیا اور کہا کہ اس بغاوت کی پاداش میں اکیلے دہلی میں 32000 علماء کو قتل کیا گیا تھا۔انہوں نے یہ بھی کہا کہ یہ مدرسے ہماری شہ رگ ہیں اور ہماری پہچان بھی ہیں،ہم اس پہچان کو مٹانے نہیں دیں گے۔انہوں نے مدارس کے سلسلے میں جمعی علماء ہند کی قانونی جدوجہد کا بھی ذکر کیا اور مدارس کے ذمہ داران کو یقین دلایا کہ اس نازک صورتحال میں جمعی علماء ہند ان کے شانہ بشانہ کھڑی ہے اور انہیں ہر طرح کا تعاون و قانونی مدد مہیا کرانے کے لئے تیار ہے۔انہوں ارباب مدارس کویہ مشورہ بھی دیا کہ مدرسہ اور مسجد کی تعمیر سے پہلے یہ یقینی بنایا جانا ضروری ہے کہ جس زمین پر ان کی تعمیر ہونے جارہی ہے اس کی نوعیت کیا ہے۔انہوں نے کہا کہ کسی نئے مدرسے اور مسجد کی تعمیر کے لئے جو زمین مختص کی جائے بہتر یہ ہوگا کو اس زمین کو وقف یا عطیہ کردیا جائے۔آج جس طرح کے حالات ہیں اس کے تناظر میں یہ ایک بہتر مشورہ ہے کیوں کہ تازہ کارروائی کے تحت جن مدرسوں ، مسجدوں یا درگاہوں کے وجود پر سوال اٹھا یا گیا ہے ان کے بارے میں حکومت کی دلیل ہے کہ یہ یاتو سرکاری زمین پر ہیں یاپھر جنگلات کی زمین پر انہیں تعمیر کیا گیا ہے۔جمعی علماء ہند نے ایک آرکیٹیکٹ پینل بھی تشکیل دے دیا ہے تاکہ مسجدوں اور مدرسوں کی تعمیر کے لئے نقشوں کی منظوری اور کمپاؤنڈ جیسے مسائل کو آسانی سے حل کیا جاسکے۔سیل کئے گئے مدرسوں کے خلاف جلد ہی جمعی علماء ہند قانونی عمل شروع کرنے والی ہے۔امید کی جانی چاہیے کہ بند کئے گئے مدارس جلد ہی کھل جائیں گے اور ان میں تعلیم کا سلسلہ دوبارہ شروع ہوجائے گا۔لیکن یہ سوال بہر حال اپنی جگہ موجود ہے کہ کیا ان ریاستی حکومتوں کو تمام تر خرابی مدارس میں ہی نظر آتی ہے،جو دوسرے تعلیمی ادارے ملک بھر میں چل رہے ہیں کیا کبھی یہ جاننے کی کوشش کی گئی کہ ان کا تعلیمی معیار کیا ہے اور وہاں کیا کچھ پڑھایا جارہا ہے؟پچھلے کچھ برسوں سے جس طرح کی سیاست ہورہی ہے اس نے ملک کا منظر نامہ بدل کر رکھ دیا ہے۔اکثریت اب پروپیگنڈے کو ہی سچ ماننے لگی ہے۔شاید یہی وجہ ہے کہ اپنے خطا ب میں مولانا مدنی نے جب ملک کی آزادی میں مدرسوں کے کردار کو اجاگر کیا تو ایسا لگا کہ جیسے انہوں نے دکھتی رگ پر ہاتھ رکھ دیا ہو۔چنانچہ مسلسل تین دن تک ٹی وی چینلوں پر اس کو لے کر گرماگرم بحثیں ہوتی رہیں۔ حیرت و استعجاب سے کہا گیا کہ مولانا مدنی نے ایسا کیسے کہہ دیا؟ لیکن سچ کو سات پردوں میں بھی چھپا کر رکھا جائے تو بھی وہ سچ ہی رہتا ہے۔ملک کی آزادی میں مدارس کے کردار کو جھٹلایانہیں جاسکا۔ البتہ اس میں آگے یہ جوڑ دیا گیا دوسرے لوگ بھی آزادی کی جدوجہد میں شامل تھے۔حالانکہ سچ وہی ہے جو مولانا مدنی نے کہا ہے۔دوسرے لوگوں نے تو غلامی کو مقدر سمجھ کر قبول کر لیا تھا۔

Shaikh Akram

Shaikh Akram S/O Shaikh Saleem Chief Editor aitebar news, Nanded (Maharashtra) Mob: 9028167307 Email: akram.ned@gmail.com

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے