किया अप भी अपने न्यूज़ पेपर की वेब साईट बनाना चाहते है या फिर न्यूज़ पोर्टल बनाना चहाते है तो कॉल करें 9860450452 / 9028982166 /9595154683

آپسی تعلقات معاشرے کی فلاح وبہبود کا ذریعہ

تحریر: ڈاکٹرمحمدسعیداللہ ندوی، ناظم جامعۃ الحسنات دوبگا ،لکھنؤ

ماہ ربیع الاول میں سرکارِ خاتم الانبیاء حضرت محمد مصطفی کی ولادت باسعادت بھی ہوئی اور آپ اسی مہینے اپنی دنیاوی زندگی مکمل کر کے مقامِ محمود پر فائز ہونے کے لیے اس دنیا سے پردہ کر گئے۔ ہم خاطی انسان اس نبیؐ برحق کی عظمت اور فضیلت کا صرف تصور ہی کرسکتے ہیں، کیونکہ بیان کرنا ممکن نہیں ہے، یایوں کہا جائے کہ اگر تمام درخت قلم بن جائیں، تمام سمندر سیاہی بن جائیں اور جنات حساب میں لگ جائیں اور تمام انسان لکھنے لگ جائیں تب بھی شان مصطفیؐکو بیان نہیں کیا جاسکتا۔
قرآن کریم میں جگہ جگہ صلح کی اہمیت و ضرورت کوبیان کیاگیا ہے، اس کی ترغیب اور خاندانی و معاشرتی نظام زندگی میں اس کے کردار پر ؓؓبھرپور روشنی ڈالی گئی ہے۔اور صلح جوئی کو ’’خیر‘‘ کے لفظ سے تعبیر کیا گیا ہے، اسے نہایت اہم اور ضروری قرار دیا گیا ہے، ایسے لوگوں کی تعریف و توصیف بیان کی گئی ہے جو صلح پسند اور امن و سلامتی کے داعی ہوں امامِ اوزاعی ؒ فرماتے ہیں کہ اللہ تبارک وتعالیٰ کو سب سے زیادہ وہ قدم محبوب ہیں جو مسلمانوں میں صلح آتشی اور باہمی تعلقات کی اصلاح کے لیے اٹھیں۔اور اس بات پر بھی غور کریں کہ صلح کروانا ہمارے پیارے نبی ؐ کی سنت ہے اور اللہ عزوجل نے قرآن کریم میں آپس میں صلح کروانے کا حکم دیتے ہوئے ارشاد فرمایا ہے:
’’یاد رکھو سارے مسلمان بھائی بھائی ہیں پس اپنے دو بھائیوں میں ملاپ کرا دیا کرو، اور اللہ سے ڈرتے رہو تاکہ تم پر رحم کیا جائے (الحجرات)‘‘سیدنا ابو درداؓسے روایت ہے،رسول اللہ ؐنے فرمایا : ’’کیا میں تمہیں روزے،نمازاور صدقے سے بڑھ کر افضل درجات کے اعمال نہ بتاؤں؟ ‘‘صحابہ کرامؓ نے کہا : کیوں نہیں ، اے اللہ کے رسولؐ ! آپ ؐ نے فرمایا : ’’آپس کے میل جول اور روابط کو بہتر بنانا۔ (اور اس کے برعکس) آپس کے میل جول اور روابط میں پھوٹ ڈالنا (دین کو) مونڈ دینے والی خصلت ہے۔ ‘‘
مسلم معاشرہ میں نفاق کے بیج بو کر اختلاف و انتشار کو ہوا دینا اور ان کے اتحاد و اتفاق کو پارہ پارہ کرکے نفرتیں پھیلانا یہ شیاطین کے اہم اہداف میں سے ایک ہے، بسااوقات شیطان نیکی کی دعوت عام کرنے والی شخصیات کے درمیان نفاق پیدا کر کے بعض و عناد کی ایسی دیوار کھڑی کر دیتا ہے جسے صلح جوئی کے ذریعے منہدم کرنا بڑا دشوار ہو تا ہے صلح کروانے والے کو چاہئے کہ وہ صلح کروانے سے پہلے اللہ عزوجل کی بارگاہ میں کامیابی کی دُعا کرے پھر ان دونوں کو الگ الگ بٹھا کر ان کی شکایات سنے اور اہم نکات لکھ لے۔ ایک فریق کی بات سن کر کبھی بھی فیصلہ نہ کرے کہ ہو سکتا ہے جس کی بات اس نے سنی وہی خطا پر ہو، اس طرح دوسرے فریق کے ساتھ ناانصافی کا خدشہ ہے فریقین کی بات سننے کے بعد انہیں صلح کی اہمیت اور فضیلت بتا کر صلح پر آمادہ کرے اور سمجھائے کہ ہمارے پیارے نبی جنابِ رسول اللہؐ کی مبارک زندگی ہمارے لئے اسوہ ہے۔ آپ ؐنے ایذا دینے والوں، ستانے والوں بلکہ اپنے جانی دشمنوں کو بھی معاف فرمایا ہے۔
فطری طور پر ہر انسان کا اپنا الگ مزاج ہے۔ ہم ہر روز دیکھتے ہیں کہ معاشرے میں مختلف سطح کے باہمی تعلقات میں نظریاتی اختلافات یا غلط فہمیاں، ناچاقی اور چپقلش کا باعث بن جاتی ہیں۔ ایک بات واضح ہے کہ اختلاف وہیں ہوگا جہاں کوئی قریبی تعلق ہو۔ جس سے کچھ لینا دینا ہی نہیں اس سے اختلاف کیسا؟ اکٹھے رہن سہن، لین دین اور باہمی معاملات میں اکثر اوقات غلط فہمیاں پیدا ہوتی ہیں اور یہ غلط فہمیاں بڑھتے بڑھتے نفرت و عداوت، قطع کلامی و قطع تعلقی، دشمنی اور لڑائی جھگڑے، جنگ و جدل، خون خرابے اور قتل و غارت تک جا پہنچتی ہیں۔ نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ معاشرے میں فساد شروع ہوجاتا ہے، انسانی نظام زندگی تباہ ہو کر رہ جاتا ہے، حتیٰ کہ خاندانوں کے خاندان اجڑ جاتے ہیں۔ ان سارے فتنوں سے بچاؤ کیلئے اسلام کے نظام اخلاق میں باہمی صلح و صفائی پر بہت زور دیا گیاہے۔احادیث مبارکہ کی روشنی میں یہ عمل خیر و برکت کا موجب ، خطاؤں اور گناہوں کی مغفرت کا سبب اور دنیوی و اخروی برکات کے حصول کا ذریعہ ہے۔
لہٰذا جب کبھی مسلمانوں میں ناراضگی پیدا ہو جائے یا خاندانوں،جماعتوں، فریقوں،یا معاشرہ میں اختلافات کی نوبت آجائے اور باہم دست و گریباں ہو جائیں ،آپس میں اختلاف زور پکڑ لے ،آپسی بھائی چارہ پارہ پارہ ہونے لگے تو ایسے وقت میں ضروری ہے کہ اُن کے درمیان صلح کروا دو تاکہ آپسی بھائی چارہ قائم و دائم رہے اور معاشرہ اختلاف و انتشار سے محفوظ رہے کیونکہ معاشرہ کی بقا کا دار و مدار آپسی بھائی چارہ،صلح جوئی اخوت و محبت میں ہی پوشیدہ ہے۔
اگر ہم اپنی صفوں میں اتحاد پیدا کریں گے تو بہت اچھے طریقے سے زیادہ سے زیادہ دین کا کام کر سکیں گے۔ باہمی محبت و اتحاد سے جو کام ہو سکتا ہے وہ تنہا رہ کر نہیں ہو سکتا۔ پھر فریقین کو آمنے سامنے بٹھا کر ان کے درمیان صلح میں سبقت لے جانے کا جذبہ پیدا کر کے انہیں آپس میں ملوادئے، حتیٰ الامکان کسی فریق کو دوسرے کے خلاف بولنے نہ دے کہ تالی دونوں ہاتھوں سے بجتی ہے، جب ایک بولے گا تو دوسرا بھی اپنی صفائی کیلئے بولے گا، یوں آپس میں بحث و مباحثہ ہو کر بسااوقات بات بنتے بنتے بگڑ جاتی ہے اور پھر ان کے درمیان صلح کروانا انتہائی مشکل ہو جاتا ہے۔ آپس کی ناراضگیوں، نااتفاقیوں اور ناچاقیوں سے بچتے رہنا چاہئے کہ ان کی وجہ سے نیکی کے عظیم کام کو شدید نقصان پہنچتا ہے۔ اللہ عزوجل ہمیں نرمی اپنانے، ایک دوسرے کو منانے اور لڑائی جھگڑے سے خود کو بچانے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین۔

Shaikh Akram

Shaikh Akram S/O Shaikh Saleem Chief Editor aitebar news, Nanded (Maharashtra) Mob: 9028167307 Email: akram.ned@gmail.com

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے