किया अप भी अपने न्यूज़ पेपर की वेब साईट बनाना चाहते है या फिर न्यूज़ पोर्टल बनाना चहाते है तो कॉल करें 9860450452 / 9028982166 /9595154683

تحریک طالبِ علم:مُبارک اقوال

(طلبہ و طالبات کی ہمت و حوصلہ افزائی، غوروفکر، سنجیدگی و احساس کی بیداری کو مد نظر رکھتے ہوئے مُبارک کاپڑی صاحب کی تقریروں و تحریروں سے منتخب ’’مُبارک اقوال‘‘ جو اُن کی دو بیٹیوں ڈاکٹر مذنہ کاپڑی اور مدیحہ کاپڑی نے مرتب کیے ہیں، پیش کیے جارہے ہیں۔)

ترتیب: عبدالحمید خان غضنفر، ناندیڑ

٭ ہر کام نا ممکن لگتا ہے جب تک اُسے شروع نہ کیا جائے۔
٭ آپ آج ہار گئے ؟ یعنی ناکام نہیںہوئے ۔ کامیابی چند دنوں کے لیے ملتوی ہوگئی۔
٭ وہ ذہین بھی ہے، کامیاب بھی ہے مگر کیا وہ باکردار بھی ہے؟
٭ رات چاہے کتنی ہی کالی کیوں نہ ہو،کتنی ہی بھیانک کیوں نہ ہو، اُس کی بہرحال صبح ہوگی۔
٭ شکایت جس سکّے کا ایک رُخ ہے ، اُس سکّے کے دوسرے رُخ کا نام ہے:شکست۔
٭ انسان کی آدھی زندگی یہ ثابت کرنے میں گُذر جاتی ہے کہ وہ سب سے اچھا انسان ہے۔
٭ اچھا یا بُرا بننے کے لیے آپ کو صرف ایک شخص کی اجازت لینی ہے: خود آپ۔
٭ حالات کو پہلے قبول کر لو، اس کے بعد انھیں سُدھارنے کی کوشش کرو۔
٭زندگی کے سفر میں سب سے اچھا ہمسفر ہے: خود اعتمادی۔
٭ منفی سوچ کے حامل انسان کو محرومیاں ، احساسِ کمتری کا شکار بنادیتی ہیں۔ اور مثبت سوچ اُسے زمانے سے ٹکرکے لائق۔
٭ جس دن آپ نے کُچھ نہیں پڑھا یا سیکھا ، وہ دن بیکار ہوگیا۔
٭ آج آپ نے پورے دن کے کاموں کا جائزہ نہیں لیا تو آج کا دن بیکار ہوا۔
٭ احساسِ کمتری ، زندگی سے دور اور موت سے قریب لے جاتی ہے۔
٭ بھرپور کوشش کے باوجود بھی ناکامی کا منہ دیکھنا پڑسکتا ہے۔
٭ ہمیں چاہے کہ ہم اپنی ڈگریاں اور اپنا نالج اپنے اُستاد کے پروں پر رکھ دیں اور پھر اُن سے مخاطب ہوں۔
٭اللہ تعالیٰ نے ہر انسان میں کوئی نہ کوئی خوبی ضرور پوشید ہ رکھی ہے۔
٭ حالات کا رونا رونے کا دوسرا نام ہے: فرار۔
٭ آپ جی تورہے ہیں، مگر کیا آپ زندہ بھی ہیں؟
٭غصّہ صرف یہ ظاہر کرتا ہے کہ آپ کے ذہن پر سُکون ہے نہ آپ کی زندگی میں کوئی ترتیب۔
٭ یہ دُنیا ایک جنگل ہے ، ایک بھیانک جنگل۔ تعلیم و ترتیب سے اسے ایک باغ بنایا جاسکتا ہے، ایک خوبصورت باغ۔
٭ کامیابی جن عناصر سے مل کر بنتی ہے، ذہانت بھی اُن میں ایک عنصر ہے۔
٭ آپ نے بہت کچھ پڑھ لیا، بہت کچھ سیکھ لیا، بہت کچھ سمجھ لیا، مگر تھوڑا سا بھی عمل نہیں کیا تو وہ ’’بہت کچھ ‘‘ بیکار ہے۔
٭ آپ کیا چاہتے ہیں؟ آپ جیتنا چاہتے ہیں ؟ آپ جیتیں گے۔ آپ ہارنا چاہتے ہیں ؟ آپ ہاریں گے۔
٭ شیر کو بھی مکھیاں ستاتی ہیں۔
٭ آپ بڑے بزرگ ہیں ، البتہ اگر آپ اس انتظار میں ہیں کہ کوئی آپ کی انگلی پکڑ کر چلائے تو آپ بچے ہی ہیں۔
٭قیامت برحق ہے مگر جب تک وہ نہیں آتی ہے، تب تک ہم کو عزّت سے جیٖنا ہے اور عزت سے جینے کے سامان پیدا کرنے ہیں۔
٭افسوس اس بات کا ہے کہ ہمارے نوجوانوں کے پاس کوئی کام نہ کرنے کے لیے کم از کم ایک ’’مگر‘‘ تیار رہتا ہے۔
٭ اس دُنیا کے آدھے دُکھ مٹ سکتے ہیں ‘اگر ہم نیکی کریں اور اُس کے صلے کی کبھی آس نہ رکھیں۔
٭سوال پوچھنے میں کوئی شرمندگی نہیں ، غلطی کرنے میں صرف شرمندگی ہے۔
٭قینچی کے مقابلے میں سوئی بہت چھوٹی ہے ، مگر قینچی کاٹتی ہے اور سوئی جوڑتی ہے۔
٭’’کون صحیح ہے‘‘ یہ خیال فتنے پیدا کرتا ہے ، ’’کیا صحیح ہے ‘‘ یہ خیال ہر فتنے کا علاج ہے۔
٭ روئے زمین پر سب سے آسان کام ہے، نکتہ چینی۔
٭جاننا چاہتے ہو مستقبل کیا ہوگا؟ ’’آج کے دن‘‘ کو غور سے دیکھو،۔
٭ صحیح ترجیح +صحیح تربیت =ترقی
٭ ذہانت ہی اگر کامیابی کی ضمانت ہوتی تو سب سے ذہن طالب علم زندگی میں سب سے کامیاب کیوں نہیں ہوتا؟
٭بصارت سے زیادہ اہم ہے، بصیرت۔
٭صحت مند زندگی کا سب سے بڑا راز ہے: مثبت فکر۔
٭ خالقِ کائنات کا انسان کو سب سے اہم اور قیمتی تحفہ ہے: اُس کا دماغ
٭ دُنیا میں کوئی کسی کو رونے کے لیے اپنا کندھا نہیں دیتا ، یہاں کندھا دینے کی رسم صرف ایک بار ادا کی جاتی ہے: آخری بار!
٭ جس طرح کسی دو انسان کے انگوٹھے کے نشان یکساں نہیں ہوتے اسی طرح دو انسان کی ذہنی استطاعت یکساں نہیں ہوتی۔
٭کسی ناکامی پر سب سے آسان کام ہے: دوسروں پر الزام لگانا۔
٭ کوشش کرنا کامیابی کی پہلی نشانی ہے، چاہے اُس کے بعد بھی ناکامی ہی ہاتھ کیوں نہ آئے۔
٭نقل سے عقل ماری جاتی ہے۔
٭ کوئی بھی سماجی بُرائی سب سے پہلے کسی انسان کے دماغ ہی میں جنم لیتی ہے۔
٭ بچہ چاہے شریف ہو یا بد معاش ، اُس کا ذہن معصوم ہوتا ہے۔
٭یہ بات جتنی سچی ہے کہ ہم اپنے والدین کے باپ نہیں بن سکتے ، یہ بھی اُتنی ہی سچی ہے کہ ہم کبھی اپنے اُستاد کے اُستاد نہیں بن سکتے۔
٭آپ اپنے دوست کی ناکامی پر دُکھی ہوجاتے ہیں ، کیا اُس کی خوشی پر خوش بھی ہوجاتے ہیں۔
٭ اپنی منزل کو پالینے کی خواہش ہی انسان کے جسم و جان میں نئی روح پھونک دیتی ہے۔
٭ اپنی خوبیوں اور خامیوں کو سمجھنے سے انسان میں جو سب سے قیمتی وصف پیدا ہوتا ہے وہ ہے: خود اعتمادی۔
٭ کئی سوالوں کے جواب سوالو ں ہی میں پوشیدہ ہوتے ہیں۔
٭ اچھی کتابوں کے مطالعے ہی سے ذہن کے بند دریچے کُھلتے ہیں۔
٭ حساب ہوگا: اللہ نے آپ کو دولت دی اُس سے کتنا فیض پہنچایا اور یہ بھی کہ ذہانت دی اُس سے کتنا فیض پہنچایا۔
٭ محتاجی اور آزادی دونوں ساتھ ساتھ نہیں چلتے۔
٭ اپنی آنکھوں میں گر جائو گے تو دوسرے کی آنکھوں میں بھی گر جائو گے ، اسی لیے اپنی آنکھوں میں گرنے جیسا کام مت کرو۔
٭ نوکیلے کانٹوں کے درمیان ہی گلاب کا پھول کھلتا ہے۔
٭ اپنے نصب العین کو پانے کی دُھن و جنون کا نام ہے: کامیابی۔
٭ کامیابی کی خوشی اور ناکامی کے دُکھ، دونوں میں معلوم ہوجاتا ہے کہ آپ کیسے انسان ہیں؟
٭ مواقع تو موجود ہیں لیکن کیا آپ کے پاس خواہش موجود ہے۔
٭ جو دوسروں کے عیب ڈھونڈنے میں مصروف ہے، اُسے اپنی خامیاں ڈھونڈنے کے لئے کبھی وقت نہیں ملے گا۔
٭ آپ کے پاس وقت ہے اور حوصلہ تو پھرآپ کو کسی کی ضرورت نہیں۔
٭ دُکھ =حسد +لالچ+کاہلی۔
٭’’ آج ‘حقیقت اور آج ہی کام زندگی ہے۔
٭ محنت کبھی رائیگاں نہیں جاتی، یہ ایک روشن حقیقت ہے اور قانونِ فطرت بھی۔
٭ موازنہ کرنا چاہتے ہو تو اپنے آپ سے کرو کہ آپ کیا کرنے کی استطاعت رکھتے ہو اور کیا کررہے ہو۔
٭ زندگی کو بے معنی و بے مقصد کہنے والا دراصل زندگی دینے والے یعنی خالقِ کائنات کا مذاق اُڑاتا ہے۔
٭ انسان کو چاہیے کہ وہ اپنا نالج، اپنی معلومات ، اپنا علم اس دُنیا سے لے کر نہیں بانٹ کر جائے۔
٭ کسی بھی ملک میں ’’اکثریت -اقلیت‘‘ تنازعہ کا سب سے بڑا حل یہ ہے کہ اقلیتی فرقے کے افراد دوگنی محنت کریں۔
٭ زندگی اتنی ارزاں نہیں کہ اُسے کسی ’’اگر ‘‘ یا ’’مگر‘‘ کی نذر کر دیا جائے۔
٭ بے راہ روی اور میڈیا کی یلغار کے باوجود جو قوم تاریخ کے سمندر سے اپنے لیے موتی چُننے میں کامیاب ہوگی ، بس وہی قوم زندہ رہے گی۔
٭ کسی پہاڑ کو ایک جگہ سے ہٹانا ہے تو اُس کے ایک ایک پتھر کو ہٹانے کا کام شروع کرنا ہوگا۔
٭ آپ کے ذہن میں کوئی اچھا خیال آیا ہے؟ اُسے فوراً ڈائری میں لکھ دیجئے۔
٭ حسد، غصہ اور تکبر یہ آگ سے زیادہ خطرناک ہیں ، اگر کسی دل میں جنم لیں تو وہ دل راکھ ہونے سے کیسے بچ سکتا ہے؟
٭جب تک یہ دُنیا قائم ہے تب تک امکانات قائم ہیں۔
٭ بیٹوں کو پڑھایئے ، بیٹیوں کو ضرور پڑھایئے۔
٭الفاظ کی نصیحت سے زیادہ طاقتور ہے : عمل کی نصیحت۔
٭ اس دُنیا میں ہر شے کا تضاد موجود ہے ، اس لیے اگر بیماری ہے تو علاج بھی ہوگا اور مسئلہ ہے تو اُس کا حل بھی ہوگا۔
٭محرومیاں انسان کو یاتو بہت زیادہ حساس بنادیتی ہیں یا بالکل بے حس!
٭ ماں باپ کے جھگڑوں میں جیتتا کون ہے؟ کوئی نہیں، ہارتا کون ہے؟ اُن کے بچے!
٭ وقت دُنیا کی سب سے بڑی طاقت ہے۔
٭دولت اور جائیداد باپ سے بچوں میں منتقل ہونا عام بات ہے ۔ خوش قسمت باپ وہ ہے جس کا خدمتِ خلق کا جذبہ اور اچھے اوصاف بچوں میںمنتقل ہوجائیں۔
٭ آپ کو کچھ سیکھنا ہے؟ تو پھر سکھانے والا مل ہی جائیگا۔
٭ انسان کی ساری صلاحیتوں کو جلا کر راکھ کرنے کے لیے صرف حسد کی آگ کافی ہے۔
٭ اللہ کی عطا کردہ ذہانت یادولت کا غلط استعمال ، اللہ کی سب سے بڑی ناشکری ہے۔
٭ ناموافق حالات میں انسان اپنے اطراف نظریں دوڑائے ، اُسے اُس سے زیادہ محرومی کے دلدل میں پھنسے کئی انسان نظر آئیں گے۔
٭ اگر بُنیاد کی اینٹ ٹیڑھی ہو تو آسمان تک کی دیوار بھی ٹیڑھی ہی ہوگی۔
٭ انسان کا سب سے بڑا قاتل یہ جملہ: نہ جانے کیا ہوگا؟
٭بچپن کی عادتیں زندگی بھر ساتھ ساتھ چلتی ہیں۔
٭ جو آپ نے سیکھا اور جو آپ نے کمایا، اُس وقت تک حلال نہیں جب تک اُس کا کچھ حصہ دوسروں کو نہیں دیا۔
٭ زندگی کے نصب العین کے تئیں انسان کی قوت ارادی جتنی مضبوط اور اُس کا عزم جتنا مصم ہوگا ، اُس کے لیے زندگی اُتنی ہی آسان بن جائے گی۔
٭ انسانی فطرت کی یہ بڑی کمزوری ہے کہ یا تو اُسے گذرا ہوا کل اچھا لگتا ہے یا آنے والے کل سے پُر اُمید رہتا ہے۔
٭آپ کو غصہ آرہا ہے ؟ یعنی کوئی دوسرا آپ پر کنٹرول کررہا ہے۔
٭ جو بات دل سے نکلتی ہے ، وہی دل میں اُترتی ہے۔
٭ ماچس کی تلی جب جلتی ہے تو وہ دو کام کرسکتی ہے : یا تو جل کر بُجھ جائے یا بُجھتے بُجھتے کسی دوسرے چراغ کو جلائے۔
٭ آپ ہمیشہ خود کو صحیح سمجھتے ہیں تو آپ کو اچھا بننے کا موقع ہی کہاںہے؟
٭ اپنی بیٹیوں کو جہیز دیجئے: اعلیٰ تعلیم کی صورت میں۔
٭ ’’ناممکن‘‘ اس لفظ کو اگر آپ اپنے ذہن سے نکالنے تیار ہیں تو کامیابی بس چند قدم پر کھڑی آپ کا انتظار کررہی ہے۔
٭ انسان کی جیب میں چاہے پانچ روپیئے نہ ہوں ،اُس کی جیب میں پانچ حسین خواب ضرور ہونے چاہیے۔
٭ آپ کا اصل قد کیا ہے ؟ آپ کے خیالات ، اخلاق اور عمل کی اونچائی کے برابر۔
٭ اپنی ملازمت یا اپنے کاروبار کے آغاز میں کتنا سیکھ رہے ہیں وہ اہم ہے، کتنا کمارہے ہیں وہ نہیں۔
٭ کسی سے کوئی اچھی بات سیکھو، اُس پر عمل کرو۔ دوسری مرتبہ اُسے دوسری کوئی اچھی بات بتانے میں خوشی محسوس ہوگی۔
٭ کوئی کام ’بڑا ‘ نہیں ہوتا۔ چھوٹے کام کو بڑ ی محنت اور بڑی دُھن سے کرنے پر وہ بڑا ہوتا ہے۔
٭ ’’نہیں ‘‘ کہنا بھی سیکھو۔ غیر ضروری چیزوں کو ’’نہیں ‘‘ کہنے سے ضروری چیزوں کو ’’ہاں ‘‘ کہنے کا موقع ملے گا۔
٭ فیکس ، ایس ایم ایس ، ای میل ، انٹرنیٹ ، سٹیلائٹ جیسی جدید تحقیقات کے ذریعے ہم پوری دُنیا سے ربط کر پائے مگر اپنے آپ سے نہیں۔
٭ لالچ اور خوشی دونوں ساتھ ساتھ نہیں رہ سکتے۔
٭ لوگ ہمیشہ سبق سکھانے کے بات کرتے ہیں ، سبق سیکھنے کی بات کیوں نہیں کرتے؟
٭کینسر سے زیادہ بڑی اور بُری بیماری کا نام ہے: قرض۔
٭ عام سوجھ بوجھ ایک عام آدمی کو کئی مرتبہ خاص بنا دیتی ہے۔
٭ صحت مند مقابلے سے کامیابی ملتی ہے اور غیر صحت مند مقابلے سے حسد کی بیماری۔
٭ نالج سے نصف کامیابی مل سکتی ہے ، جبکہ تقویٰ سے مکمل کامیابی۔
٭ سائنس نے کافی ترقی کر لی مگر وہ بھی بغیر کانٹوں والا گلاب پیدا نہیں کرسکی۔
٭ خود اعتمادی بنیاد ہے خود شناسی کی۔
٭ آنے والا کل اچھا گذرے گا ، کیا ہی اچھا ہو کہ آج بھی اچھا گزرے۔
٭ عام انسان مواقع کا انتظار کرتا ہے، خاص وہ ہے جو مواقع پیدا کرتا ہے۔
٭ حالات کا نا موافق ہونا کسی کو متحرک و فعال بنائے گا اور کسی کو ایک ناقابل رحم تصویر۔
٭ انسان ایک دن میں سب سے زیادہ جس لفظ کا استعمال کرتا ہے وہ ہے ’’میں‘‘
٭ شخصیت کی تعمیران عناصر سے ہوتی ہے: اخلاقی اقدار ، خود اعتمادی ، قوتِ فیصلہ ، صبر ، مثبت سوچ ، ذہانت ، ذہنی یکسوئی ، پختہ قوتِ ارادی، دور اندیشی اور وقت کی پابندی۔
٭ وقت زخم دیتا ہے مگر وقت ہی اُن پر مرہم رکھتا ہے۔
٭ زندگی میں جو شخص ’’ لوگ کیا کہیں گے ‘‘ کا شکار ہوگا ، اُس کے ہاتھ صرف ناکامی ہی آئی گی۔
٭ بھر پور کوشش کے باوجود ناکامی؟ جی ہاں یہ اس لیے کہ کامیابی کے کئی نامعلوم راستے کھل جائیں تاکہ انسان کو معلوم ہو کہ ناکامی کے باوجود کیسے جیا سکتا ہے؟
٭ یقین جانئے ، آج کا دن سب سے اچھا دن ہے۔
٭ ایک ہی خبر کو کئی نیوز چینل پر دیکھنا یا کئی اخبارات میں پڑھنا ، وقت ضائع کرنے کا مہذب طریقہ ہے۔
٭ عین وقت پر کام کرنے سے کبھی کبھی آپ کا کام پورا ہوبھی جائے مگر ہر کام عین وقت پر کرنے کی ایک بڑی عادت ہمیشہ پڑ جائے گی۔
٭ اگر آپ غریب ہیں تو کام کیجئے ، اگر آپ امیر ہیں تو کام کیجئے۔
٭اپنے لیے کوئی ٹائم ٹیبل مرتب کرنے کا مطلب یہ ہے کہ آپ کے دماغ یکسوئی ہے اور آپ کے ارادوں میں پختگی۔
٭ جو خوب مصروف ہے اُس کے پاس کافی وقت ہوتا ہے۔
٭ ایک اچھا اُستاد ، شاعر اور مصور سے زیادہ حساس ہوتا ہے۔
٭ غریب کے لیے دولت کی خواہش اور امیر کے لیے دولت کی ہوس دونوں ناقابلِ علاج بیماریاں ہیں۔
٭ جن کے حوصلے پست ہوں، مقابلہ آرائی اُن کے بس کی بات نہیں کیونکہ دوڑ شروع ہونے سے پہلے ہی وہ ٹھان لیتے ہیں کہ اُن کی ہار یقینی ہے۔
٭ ایسا کوئی معرکہ نہیں جسے آپ خود اعتمادی ، لگن و محنت سے سر نہ کرسکیں۔
٭ زندگی اُسے کیا ڈرائے گی جو زندگی کے تپتے ہوئے ریگزار پر ننگے پائوں چلا ہو!
٭ صرف ایک بار سوچ لیجئے کہ آپ صحیح راستے پر ہیں یا نہیں اور اُس کے بعد کسی کی پرواہ مت کیجئے اور آگے بڑھیے۔
٭ صرف سوچنے سے نہیں بلکہ مثبت سوچنے سے کامیابی ملتی ہے۔
٭ آپ کی کامیابی کا دارومدار جن عناصر پر ہے اُن میں سب سے بڑا عنصر ہے: آپ
٭ بچہ پہلے صرف نقل کرتا ہے، عقل سے کام بعد میں لیتا ہے۔
٭ کامیابی چاہتے ہو؟ مگر قربانی دینا نہیں چاہتے ؟؟ یہ کیسے ممکن ہے؟
٭ کئی مرتبہ دو قدم پیچھے ہٹنا دس قدم پیش قدمی کا باعث بنتا ہے۔
٭ دُنیا ہی میں جہنم کا نظار ہ کرنا چاہتے ہو؟ خود اعتمادی کو اپنے اندر سے نکال دو اور اپنی زندگی کو دیکھو جہنم کا مکمل نظارہ ہوجائے گا۔
٭ آج کیا پایا اس کا حساب کر لو مگر یہ بھی حساب کر لو کہ آج کیا بویا۔
٭ پوری دنیا کو چیلنج کرنا آسان ہے، مگر اپنے آپ کو ، اپنی عادتوں کو اور اپنی فطرت کو چیلنج کرنا مشکل ہے۔
٭ خود اعتمادی سے زندگی کو ایک مثبت رُخ ملتا ہے اور خوش فہمی سے منفی ۔
٭کوئی سنہرہ موقع آپ کے دروازے پر دستک دے گیا، تب آپ سوتو نہیں رہے تھے؟
٭ جس قوم کے نوجوان کو ’’آج ‘‘میں اعتماد نہ ہو اور وہ کل کا انتظار کرے اُس کا کل کیسا ہوگا؟
٭ آپ کی جیپ میں روپیوں سے بھرا بٹوا ہو، دوسری جیپ میں وقت ، جو آپ کی دوسری جیپ کاٹے وہ آپ کا بڑا دُشمن ہے۔
٭ خود اعتمادی زندگی کو متحرک بناتی ہے اور غرور سے زندگی میں جمود آتا ہے۔
٭ اس روئے زمین پر صرف ایک ہی شخص ایسا ہے جسے آپ قطعی طور پر تبدیل کرسکتے ہیں اور وہ شخص ہے : آپ۔
٭ آج اپنی مصیبتوں پر آپ رورہے ہیں، ہمت و محنت سے کام لیجئے تو کل آپ ان پر ہنسیں گے۔
٭ ہم کچھ اس طرح وقت ضائع کرتے رہتے ہیں ، گویا ہم رہتی دُنیا تک زندہ رہنے والے ہیں۔
٭خود پر قابو پالو ، حالات پر قابو حاصل ہوجائے گا۔
٭ ہر بار بات کرکے نہیں، کبھی کبھی خاموش رہ کر بھی آپ بحث جیت سکتے ہیں۔
٭ جب بھی گھر میں گھٹن محسوس ہوگی، بچے کھڑکی کھولیں گے۔
٭ صفتیں ہوں تو سہولتیں مل ہی جاتی ہیں۔
٭ خود اعتمادی انسان کو اپنا محتسب (حساب لینے والا ) بناتی ہے اور غرور اسے اس قابل نہیں رکھتا کہ وہ اپنا احتساب (جانچ ) کرے۔
٭ اس سوال کو ہمارے سماج میں عام کرنے کی ضرورت ہے کہ ’’آپ کا ٹائم ٹیبل کہاں ہے ‘‘؟
٭ اچھے کاموں میں رکاوٹیں نہ آرہی ہوں تو آ پ کو تعجب ہونا چاہیئے۔
٭ ’’ناکام ‘‘ اور ’’ناممکن ‘‘ ان الفاظ سے ’’ نا‘‘ نکال دیجئے اب آپ کے لئے ہر کام ممکن ہے۔
٭ آپ کا چہرہ ماضی کی ناکامیوں سے لال پیلا ہورہا ہے ، مستقل کے انجانے خوف سے سیاہ ہورہا ہے مگر حال کے نور سے تمتما کیوں نہیں رہا ہے؟
٭ کمزور انسان زندگی میں کچھ کر سکتا ہے ، کم عقل انسان بھی کر سکتا ہے، البتہ مایوس انسان کچھ نہیں کرسکتا۔
٭جس انسان کے قول و فعل میں تضاد ہوگا وہ بالآخر ذہنی انتشار کا شکار بن جائے گا۔
٭ معمولی آدمی تعریف سُننے پر خوش ہوتے ہیں ، ذہین آدمی اُسے چیلنج سمجھتے ہیں۔غیر معمولی انسان تعریف سُننا ہی پسند نہیں کرتے۔
٭ وہ قلم ابھی ایجاد نہیں ہوا جو ماضی کو درست کرسکے مگر وہ قلم آپ کے ہاتھ میں ہے جو مستقل کو درست کرسکے۔
٭ کسی انسان کے صرف عیبوں پر نظر رکھو گے تو اس دُنیا کے ہر انسان سے آپ کو نفر ت ہوجائے گی۔
٭ آپ کے پاس خواب ہے ، محنت کرنے کی خواہش ہے تو آپ دُنیا کے امیر ترین انسان ہیں۔
٭ بہت زیادہ غربت اور بہت زیادہ امارت میں انسان کا خود سے تعارف ہوجاتا ہے۔
٭ علم سے آزادی ملتی ہے اور اخلاق سے صحیح سمت میں آزادی۔
٭ ٹائم ٹیبل مرتب کرنے کا مطلب ہے کہ آپ اپنے لئے کچھ کرنے کا تحریری عہد کرتے ہیں۔
٭ نیند نعمت ہے۔ زیادہ نیند غفلت ہے۔
٭ جو اچھا طالب علم نہیں تھا وہ اچھا اُستاد نہیں ہوسکتا۔
٭ زندگی کو کامیاب یا ناکام بنانے میں محنت برابر برابر لگتی ہے ، ایک میں مثبت محنت ، دوسرے میں منفی محنت۔
٭ لگ بھگ ہر انسان کے لیے سب سے پسندیدہ نام ہے: اُس کا اپنا نام ۔
٭بڑا آدمی اگر کان کا کچّا ہوتو اپنی آدھی صلاحیت گنوادیتا ہے۔
٭ کام سے کامیابی ملتی ہے، کام کو ’’نا‘‘ کہنے سے ناکامی۔
٭ اسکول و کالج ہی سے ٹائم ٹیبل مرتب کرنے کی عادت ڈالو کیونکہ مستقبل میں آپ کو اپنی ملت کا ٹائم ٹیبل مرتب کرنا ہے۔
٭ اس دُنیا میں آپ کا کیا ہے ؟ سوائے وقت کے !
٭ رُکاوٹیں ہنستے ہنستے گِن لیجئے کیونکہ بعد میں آپ کو ٹھیک دوگنی تعداد میں کامیابی گننی ہیں۔
٭ تنقید اچھی بات ہے، نکتہ جینی بُری اور عیب جوئی بدترین۔
٭ وہ تعلیمی نظام ناکام ہی ہوگا جس میں بچے کے صرف کان ہوتے ہیں اور اُستاد کی صرف زبان۔
٭ ناکام افراد میں اکثریت اُن کی ہے جو کامیابی تک بس پہنچے ہی تھے اور ہمت ہار گئے۔
٭ جب کسی کے پاس زندگی کا کوئی مقصد نہ ہوتو اُس کا صرف ایک ہی مقصد رہ جاتا ہے: دوسروں سے حسد کرنا۔
٭ کوئی انسان ناکام نہیں ہوتا، وہ کوشش کرنا چھوڑ دیتا ہے اور اُسے ناکامی کا نام دے دیتا ہے۔
٭ اپنے پیروں پر کھڑے ہونا چاہتے ہوتو کھڑے مت رہو، دوڑو۔
٭ جو وقت کام نہ کرنے کی دلیلیں دینے میں ضائع ہوتا ہے، اکثر اس وقت کا دسواں حصہ وہ کام کرنے میں درکار ہوتا ہے۔
٭ جو زندگی سے مایوس ہوچکا ہے اسے کتنی ہی بڑی خوشخبری خوشی نہیں دلا سکتی۔
٭ خوابوں کی دُنیا میں زندہ مت رہو، مگر اپنے اندر خوابوں کی ایک دُنیا کو زندہ ضرور رکھو۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

Shaikh Akram

Shaikh Akram S/O Shaikh Saleem Chief Editor aitebar news, Nanded (Maharashtra) Mob: 9028167307 Email: akram.ned@gmail.com

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے